راولپنڈی: خاتون کے اغوا کا مقدمہ جس کا اختتام قتل کی لرزہ خیز واردات پر ہوا

بی بی سی اردو  |  Apr 07, 2023

Getty Images(فائل فوٹو)

انتباہ: اس تحریر کے کچھ حصے چند قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتے ہیں۔

ضلع راولپنڈی کے علاقے ترنول اور برہان کے درمیاں واقع ایک گیسٹ ہاؤس میں ایک خاتون کی تلاش کے دوران تفتیشی افسران کو خون کے دھبوں سمیت چند ایسے شواہد ملے جن کی بنیاد پر بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ ریسٹ ہاؤس کے اسی کمرے میں نہ صرف خاتون کا قتل ہوا بلکہ انتہائی بے رحمانہ طریقے سے مارا گیا تھا۔

اگرچہ کمرے کے فرش سے خون کے دھبے صاف کرنے کی پوری کوشش کی گئی تھی مگر اس کے باوجود تفتیش کار ان خون کے نشانات کا پتہ چلانے میں کامیاب رہے جو مٹنے سے رہ گئے تھے۔

اس کیس سے منسلک افسران کے مطابق ابتدائی تفتیش اور کمرے کا سے شواہد ملنے کے بعد یہ تو پتہ چل چکا تھا کہ خاتون کو قتل کر دیا گیا ہے مگر اب مسئلہ خاتون کی لاش برآمد کرنا تھا۔ اس کے لیے جب انھوں نے ملزم کو اپنی حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کیا تو انکشاف ہوا کہ ملزم نے قتل کرنے کے بعد خاتون کی لاش کو کئی ٹکڑوں میں کاٹا تھا اور یہ ٹکڑے راولپنڈی کے علاقوں سنگ جانی، پیر ودھائی، نالہ لئی اور دیگر مقامات پر پھینک دیے گئے تھے۔

پولیس کے مطابق خاتون کے جسم کے باقی حصے تو مل چکے ہیں تاہم اُن کا سر ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔

ٹیکسلا پولیس کی جانب سے عدالت میں اس کیس کا چالان جمع کروائے جانے کے بعد عدالت نے گرفتار ملزم کو جوڈیشنل ریمانڈ پر جیل بھج دیا ہے۔

ٹیکسلا پولیس کے مطابق ٹھوس شواہد اور ثبوت دستیاب ہونے کے بعد پولیس نے از خود ہی ملزم کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے مزید ریمانڈ نہ لینے کی درخواست کی تھی۔

اس معاملے میں پولیس کی تفتیش اب تک کہاں پہنچی، اس پر آگے چل کر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس جرم کی کہانی کیسے شروع ہوئی۔

ابتدائی طور پر اغوا کا پرچہ درج ہوا

ضلع راولپنڈی کے علاقے ٹیکسلا میں ابتدائی طور پر خاتون کے اغوا کا مقدمہ درج ہوا تھا۔ خاتون کے بھائی جو مدعی مقدمہ بھی ہیں نے پولیس کو بتایا کہ اُن کی بہن 15 مارچ کو ملازمت کے لیے گھر سے نکلی تھیں مگر تاحال واپس نہیں آئیں۔

مدعی نے شک کا اظہار کیا تھا کہ ان کی بہن کو اغوا کر لیا گیا ہے۔

ٹیکسلا پولیس کی اے ایس پی ڈاکٹر زینب ایوب کا کہنا تھا کہ اس کے بعد پولیس نے اپنی تفتیش کا آغازکیا۔

پولیس نے مدعی سے بات کرنے کے علاوہ خاتون کے رشتہ داروں اور عزیز و اقارب سے بات کر کے معلومات جمع کیں۔ اس دوران ملزم خاتون کی تلاش میں انتہائی فعال کردار ادا کر رہا تھا اور خاتون کے گھر والوں سے اپنی پریشانی کا اظہار بھی کرتا رہا۔

ڈاکٹر زینب ایوب کے مطابق ملزم کے رویے میں بے چینی، گھبراہٹ اور غیر معمولی حرکات پولیس کے تفتیش کاروں کی نظروں سے چھپی نہ رہ سکیں۔

سی سی ٹی وی فوٹیج سے مدد

ڈاکٹر زینب ایوب کہتی ہیں کہ ملزم ایک کاروباری شخص ہے اور پولیس تحویل میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ وہ کسی نشے کا عادی تھا۔ ’اب تک کی معلومات کے مطابق ملزم کے مختلف علاقوں میں ریزوٹ ہیں اور خاتون اور اس کا تعلق بظاہر خاندانی نوعیت کا ہے۔‘

ڈاکٹر زینب ایوب کا کہنا تھا کہ جب ابتدا میں تلاش کے باوجود لڑکی کا کچھ پتا نہ چلا تو پولیس نے موبائل ڈیٹا حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

’موبائل ڈیٹا ملنے میں کچھ وقت تھا، جس وجہ سے ہم نے تلاش کے عمل کو وسیع کرتے ہوئے سی سی ٹی وی فوٹیج کے کیمروں کی مدد حاصل کرنا شروع کر دی۔‘

ڈاکٹر زینب ایوب بتاتی ہیں کہ ’ہمیں ایک سی سی ٹی وی کیمرے کی ایسی فوٹیج حاصل ہوئی جس میں ہم دیکھ سکتے تھے کہ ملزم خاتون کو ایک کار میں سوار کروا کر اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہے۔ جہاں سے خاتون کو کار میں سوار کروایا گیا، وہ خاتون کے کام کرنے والی جگہ کے انتہائی قریب تھی۔ یہ وہ ہی دن تھا، جس دن خاتون لاپتہ ہوئی تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کڑیاں ملنا شروع ہو چکی تھیں اور نظر آ رہا تھا کہ خاتون کی تلاش میں بڑھ چڑھ کر مدد کرنے والے شخص کا اس جرم سے کچھ نہ کچھ تعلق ہو سکتا ہے۔

’اس کے بعد اعلیٰ حکام نے جرم کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے کمیٹی قائم کر کے وسیع پیمانے پر تفتیش کرنے کا حکم دیا۔‘

’خاتون اور ملزم کی لوکیشن ایک تھی‘

ڈاکٹر زینب ایوب کہتی ہیں کہ ہم نے حکمت عملی کے تحت ملزم پر کچھ بھی ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ’بس اتنا کیا کہ تفتیش کا دائرہ کار بڑھاتے جا رہے تھے۔ ملزم کی نگرانی شروع کرنے کے علاوہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کر دی تھیں۔ ملزم کا فون نمبر حاصل کر کے اس کا ڈیٹا بھی حاصل کرنا شروع کر دیا تھا۔‘

’اس دوران ہمیں خاتون کے موبائل کا ڈیٹا دستیاب ہو چکا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ خاتون اور ملزم کی آپس میں لگاتار بات چیت ہوئی تھی۔ جس کے بعد ہمیں ملزم کا موبائل ڈیٹا بھی دستیاب ہو چکا تھا۔ وہ بھی ہمیں یہ ہی بتا رہا تھا۔‘

ڈاکٹرزینب ایوب کہتی ہیں کہ اس دوران ہم نے ملزم کو یہ معلوم نہیں ہونے دیا کہ وہ شک کی زد میں آ چکا ہے۔

’وہ اکثر ہمیں خاتون کی تلاش کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا کہ یہ ہو سکتا ہے، وہ ہو سکتا ہے۔ ملزم کی نگرانی بھی جاری تھی۔ وہ اپنے ایک گیسٹ ہاؤس میں معمول سےبہت زیادہ وقت گزار رہا تھا۔‘

ڈاکٹر زینب ایوب نے مزید بتایا کہ ’موبائیل لوکیشن میں ہمیں بڑا واضح پتا چل گیا تھا کہ جس روز خاتون غائب ہوئی تھیں اور ان کا موبائل نمبر بند ہو گیا تھا، اس دن کم از کم تین مقامات پر ملزم اور خاتون دونوں کی لوکیشن ایک تھی۔ جس کے بعد ملزم کو حراست میں لینے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

سارہ انعام: اسلام آباد میں قتل ہونے والی ’اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت‘ خاتون کون تھیں؟

نور مقدم قتل کیس: وہ قتل جس نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا

گوجرانوالہ: خاتون کو ’کینیڈا واپس جانے کی ضد پر‘ شوہر نے قتل کروایا، پولیس

’سر پر بیلچے کے وار‘

ڈاکٹر زینب ایوب کا کہنا تھا کہ حراست کے دوران بھی ملزمخود کو ایسے ظاہر کر رہا تھا کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔

’موبائل ڈیٹا سے ہمیں پتا چلا کہ خاتون کا موبائل کس مقام پر جانے کے بعد بند ہو گیا تھا۔ پولیس نے انتہائی احتیاط سے اس گیسٹ ہاؤس کی تلاشی لی تو بہت کچھ سامنے آیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ملزم کے سامنے جب حاصل کردہ ثبوت رکھے گئے تو انھوں نے اس جرم کی تفصیلات بتانا شروع کیں جو عدالت میں جمع کروائے گئے چالان کا حصہ ہیں۔

’ملزم نے اپنی تفتیش کے دوران بتایا کہ خاتون نے آخری بات چیت کے تھوڑی دیر بعد اُن کا نمبر بلاک کر دیا تھا جس پر وہ غصے میں آ گئے تھے اور انھوں نے منصوبے کے مطابق خاتون کو گاڑی میں سوار کروایا۔‘

’تین مختلف مقامات پر لے جانے کے بعد آخر کار خاتون کو گیسٹ ہاؤس میں لے جایا گیا۔ جہاں پر پھر تکرار ہوئی تو ملزم نے خاتون کے سر پر بیلچے کے وار کیے، جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئیں۔‘

Getty Images(فائل فوٹو)’کدال سے ٹکڑے کیے گئے‘

ڈاکٹر زینب ایوب کے مطابق ملزم نے بتایا کہ جب خاتون ہلاک ہو گئیں تو انھوں نے جرم کا نشان مٹانے کے لیے کدال سے وار کر کے اس کے جسم کے ٹکڑے کیے۔ ’ہمیں گیسٹ ہاؤس کے فرش پر کدال کے وار کے مختلف نشانات دستیاب ہوئے تھے۔‘

’جسم کے ٹکڑے کر کے ملزم ان ٹکڑوں کو لے کر مختلف مقامات پر گیا۔ اس نے جسم کا کوئی ٹکڑا سنگ جانی، کوئی پیر ودہائی اور کچھ ٹکڑے نالہ لئی کے مختلف مقامات پر پھینکے۔‘

’ملزم کا مقصد جسم کے ٹکروں کو مختلف مقامات پر پھینک کر جرم کانشان مٹانا تھا۔ سر کو سنگ جانی کے مقام پر پھینکا گیا تھا۔ وہ ہمیں ابھی تک نہیں ملا۔ لگتا ہے وہ حالیہ بارشوں میں کہیں دور نکل گیا ہے۔‘

ڈاکٹر زینب ایوب کہتی ہیں کہ ابھی تک خاتون کا خاندان واقعہ کو قبول کرنے کے قابل نہیں ہوا۔

’پولیس خاندان کو تحفظ اور یہ احساس فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ انھیں انصاف ضرور ملے گا۔ خاندان کی تسلی کروانے کی بھی پوری کوشش کر رہی ہے، جس کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے۔‘

خاتون کے بھائی کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعے کے بعد ابھی تک سکتے کی حالت میں ہیں۔

’ہمیں ابھی مزید وقت درکار ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ میڈیا حقائق تک پہچنے میں اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے ہماری مدد کرے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More