اندھیر نگری چوپٹ راج کی شاید اس سے بڑی مثال کوئی نہ ہو جہاں دن دہاڑے لوگ سنگین گناہ کرتے ہیں اور پھر قانون انھیں اپنی گرفت میں لے کر بھی چھوڑ دیتا ہے۔ نیچے ہم بات کریں گے حال ہی میں ہونے والے تین واقعات پر جن میں خواتین اور معصوم بچے کو ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔
معصوم بچے کو ماں کے سامنے مار دیا
اس واقعے کی اطلاع لوگوں کو سوشل میڈیا پر ایک وائرل وڈیو کے زریعے ملی جس میں روالپنڈی کی ایک سنساں جگہ پر ایک خاتون بے بسی اور زخمی حالت میں دکھائی دیتی ہیں اور سامنے ہی ایک بچے کی لاش پڑی ہے۔ اسپتال میں علاج کے دوران اس عورت کا انتقال ہوگیا جبکہ ان کی بہن شمیم بی بی نے ایف آئی آر درج کروائی۔ ایف آئی آر کے مطابق شمیم بی بی اور مقتولہ نسیم بی بی اپنے ڈیڑھ سالہ بچے کے ساتھ بھیک مانگ کر گزارا کرتی تھیں۔ ملزم واجد علی نے نسیم بی بی پر جنسی اور جسمانی تشدد کرکے ذخمی کیا اور ان کے بچے کو بھی گردن پر مارا جس کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ راولپنڈی پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے سفاک ملزم کو حراست میں لے لیا ہے اور اس کو جلد سے جلد قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے گی۔
خدیجہ صدیقی کیس
ایک اور واقعہ مئی 2016 میں خدیجہ صدیقی کے ساتھ پیش آیا۔ خدیجہپر ان کے کلاس فیلو شاہ حسین نے تیز خنجر سے 23 وار کیے تھے جن میں سے دو ان کی گردن پر کیے۔ شاہ حسین کو قانون کی گرفت میں لیا گیا تھا جس میں پہلے ان کو سات سال کی سزا ہوئی جسے بعد میں کم کرکے پانچ سال کردیا گیا لیکن ان کو محض ساڑھے تین سال کے عرصے میں ہی رہا کردیا گیا۔ خدیجہ کے بیان کے مطابق انھوں نے جیل کے آئی جی اور وزیر کو مجرم کی رہائی کے بارے میں پوچھنے کے لئے سوال کیے جس پر کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ کہتی ہیں کہ “کسی مجرم کو ڈیڑھ سال کی رعایت ملتے پہلی بار دیکھ رہی ہوں“
نور مقدم قتل کیس
نور مقدم کو بے رحمی سے قتل کرنے والے ظاہر جعفر کے پاس پاکستان کے علاوہ امریکی شہریت بھی ہے جس کی وجہ سے کیس چلنے میں تاخیر کا سامنا ہورا ہے البتہ اپنی تعلیمی قابلیت اور پیشے سے متعلق ان کے بولے گئے کئی جھوٹ اب میڈیا کے سامنے آچکے ہیں۔ جیو نیوز کے پروگرا “آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ“ کے مطابق ظاہر جعفر لندن میں اپنی ماں پر بھی تشدد کرچکا ہے اور منشیات کا عادی بھی رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان میں اسکول میں معصوم بچوں کی کاؤنسلنگ کرتا رہا۔ اب دیکھا یہ ہے کہ پولیس اور عدالت اس معاملے کو کتنی سنجیدگی اور انصاف سے حل کرتی ہے۔
اچانک ایسے واقعات بڑھنے کی کیا وجہ ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے واقعات اچانک بڑھنا شروع ہوئے ہیں یا یہ پہلے سے موجود تھے؟ بہت سے لوگ ایسے معاملات کے لئے سوشل میڈیا کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر واقعے کو بڑا بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت کچھ یوں ہے کہ واقعات تو ہمیشہ ہی ہوتے رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو اپنی بات کا اظہارکرنے کا موقع آسانی سے مل جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ بروقت مجرمان تک پہنچیں اور ان کو قانون کے مطابق سزائیں دلوائیں تاکہ لوگوں کا بھروسہ انصاف سے نہ اٹھ جائے