فلمیں دیکھنے کا شوق ہر دور کے لوگوں میں رہا ہے، کوئی سینیما جا کر دیکھنے کا شوقین رہا، تو کوئی دوستوں کے ساتھ گھروں میں دیکھتا۔ آج کل فلموں کی ریلیزنگ کے لئے ٹیزرز، جھلکیاں اور ایسی نمائشی تصاویریں دکھائی جاتی ہیں مختلف میڈیا جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

لیکن پہلے زمانے میں ڈیجیٹل میڈیا نہیں تھا تو اخباروں یا پوسٹرز کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے پرنٹنگ پریس پر مختلف حکومتوں کا قبضہ رہا اور اشاعت پر پابندی تھی اس وقت فلموں کی نمائش یا ریلیزنگ ہاتھ کی بنی اسکیچنگ پوسٹرز سے ہوتی تھی جو کہ ایک ذمہ داری والا کام تھا۔
دراصل فلموں کے ان پوسٹرز میں آرٹسٹ کی شاندار مصوری کا فن نمایاں ہوتا تھا کیونکہ اداکاروں کی شکل ہو بہو تیار کردیتے تھے۔

مغربی افریقا کے ملک گھانا میں 80’s کی دہائی میں فلموں کے ایسے بہترین پوسٹرز ہاتھوں سے بنائے گئے جو قابلِ تعریف آج ایک دہائی بعد بھی ہیں۔ یہ تمام flour sack fabric یعنی آٹے کی بوریوں جیسے جوٹ کے کپڑوں پر فیبرک پینٹ اور قملوں کے مختلف اقسام کی مدد سے بنائی جاتی تھیں جو چوڑائی میں 40 سے 50 انچ اور لمبائی میں 55 سے 70 انچ کے ہوتے تھے۔

ان پوسٹرز کو دیکھ کر آج بھی ایسا لگتا ہے جیسا بنانے والے نے تمام تر ہنر اپنی مٹھی میں قید کر رکھا ہو اور فرصت سے ان پوسٹرز میں انسانوں کی ہو بہو شبیہہ ڈال دی ہو۔
یہ پوسٹرز اتنی اہمیت کے حامل ہیں کہ آج بھی ان کو 70 سے 80 لاکھ میں لوگ خریدنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ ہاتھوں سے بنی ان پوسٹرز کا رجحان بلکل ختم ہو گیا۔