یو اے ای کی جانب سے سعودی الزامات کی تردید اور یمن میں اپنی افواج کے آپریشنز ختم کرنے کا اعلان: ’بندرگاہ پر اُتارے گئے سامان میں اسلحہ نہیں تھا‘

بی بی سی اردو  |  Dec 30, 2025

Getty Imagesاماراتی وزارت دفاع نے یمن میں اپنی افواج کے مشنز کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے

متحدہ عرب امارات کی وزارت دفاع نے یمن میں پیش آئے حالیہ واقعات کے تناظر میں یمن میں موجود اپنی افواج کے مشنز کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے اماراتی مسلح افواج نے سنہ 2019 میں طے شدہ فریم ورک کے تحت دیے گئے فرائض مکمل کرنے کے بعد یمن میں اپنی فوجی موجودگی ختم کر دی تھی اور اُس کے بعد سے اب تک یمن میں امارات کی موجودگی صرف انسدادِ دہشت گردی کے لیے مخصوص ٹیموں کی حد تک محدود تھی اور یہ ٹیمیں متعلقہ بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگی میں کام کر رہی تھیں۔

اماراتی وزارت دفاع کے مطابق یمن میں حالیہ پیش رفت، اپنے اہلکاروں کی سلامتی اور متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی غرض سے یو اے ای یمن میں موجود اپنی انسدادِ دہشت گردی ٹیموں کو اپنی مرضی سے ختم کر رہا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اقدام موجودہ تقاضوں کے جامع جائزے کے تحت کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد کی جانب سے یمن میں کیے گئے ایک فضائی حملے میں متحدہ عرب امارات سے آنے والے مبینہ ہتھیاروں اور فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنانے کے بعد سعودی عرب نے مطالبہ کیا تھا کہ یو اے ای یمن کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے 24 گھنٹے میں یمن سے اماراتی فوجیوں کو واپس بُلائے۔

سعودی وزرات خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا تھا جب سعودی سربراہی میں قائم اتحاد نے ’محدود فضائی کارروائی‘ کرتے ہوئے یمن کی مکلا بندرگاہ کو نشانہ بنایا جہاں سعودی عرب کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جانب سے بغیر اجازت ہتھیار اور جنگی گاڑیاں اُتاری جا رہی تھیں۔

اماراتی وزارت دفاع کی جانب سے یہ فیصلہ آنے سے قبل سعودی عرب نے یو اے ای پر یمن کے معاملے پر الزامات عائد کیے تھے تاہم امارات نے ان الزامات کی پُرزور تردید کی تھی۔

سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں یمن میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) کو فوجی مدد فراہم کرنا یمن اور سعودی عرب کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

یاد رہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی میں متحدہ عرب امارات سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) کا حامی ہے اور اس گروہ نے حالیہ دنوں میں یمن کے علاقوں میں پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے۔ ادھر سعودی عرب ایس ٹی سی کی مخالفت کرتا ہے اور یمن میں قائم حکومت کا ساتھ دیتا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کی جانب سے یمن کے معاملے پر جاری بیان میں لگائے گئے الزامات کی پُرزور تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یمن کی بندرگاہ پر بھیجے گئے سامان میں کوئی اسلحہ شامل نہیں تھا اور جو گاڑیاں وہاں اُتاری گئیں وہ کسی یمنی فریق کے لیے نہیں بلکہ یمن میں موجود اماراتی افواج کے استعمال کے لیے بھیجی گئی تھیں۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اُن دعوؤں کی بھی سختی سے تردید کی گئی ہے جو سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحادی افواج کے ترجمان کی جانب سے کیے گئے ہیں اور جن میں کہا گیا ہے کہ یو اے ای یمن میں تنازع کو ہوا دے رہا ہے۔ امارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ بیان رُکن ممالک (یو اے ای) سے مشاورت کے بغیر جاری کیا گیا ہے۔

AFP via Getty Imagesمکلا، جنوبی یمن۔ اس تصویر میں تباہ شدہ فوجی گاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں، جو مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات کی جانب سے یمن کے علیحدگی پسند گروہ ’ایس ٹی سی‘ کے لیے بھیجی گئی تھیں۔ یہ گاڑیاں سعودی قیادت میں قائم اتحاد کی فضائی کارروائی کے بعد بندرگاہ مکلا میں تباہ ہوئی ہیں۔متحدہ عرب امارات نے جوابی بیان میں کیا کہا؟

متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کی جانب سے جاری بیان اور اس میں شامل 'بنیادی غلطیوں' پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جو یمن کی موجودہ صورتحال میں امارات کے کردار سے متعلق ہیں۔

یو اے ای کی وزارت خارجہ کے مطابق ’امارات نے واضح طور پر کسی بھی ایسی کوشش کو مسترد کر دیا ہے جس کا مقصد ملک (یو اے ای) کو یمنی فریقوں کے درمیان کشیدگی میں ملوث کرنا ہو، اور اُن الزامات کی سختی سے مذمت کی ہے کہ امارات نے کسی یمنی فریق پر دباؤ ڈالا یا ہدایات جاری کیں تاکہ وہ ایسی فوجی کارروائیاں کرے جو سعودی عرب کی سلامتی کو نقصان پہنچائیں یا اس کی سرحدوں کو نشانہ بنائیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’امارات سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام کے لیے اپنی غیر متزلزل وابستگی، مملکت کی خودمختاری اور قومی سلامتی کے احترام کا داعی ہے۔ اور ایسے تمام اقدامات کی مخالفت کرتا ہے جو سعودی عرب یا خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے برادرانہ اور تاریخی تعلقات خطے کے استحکام کی بنیاد ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یو اے ای حضرموت اور المہرہ صوبوں میں صورتحال کو قابو میں رکھنے اور کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور یہ سب سعودی عرب کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں کیا گیا۔

یو اے ای نے واضح کیا ہے کہ یمنی بندرگاہ پر بھیجے گئے سامان میں کوئی اسلحہ شامل نہیں تھا اور جو گاڑیاں اتاری گئیں وہ کسی یمنی فریق کے لیے نہیں بلکہ یمن میں موجود اماراتی افواج کے استعمال کے لیے بھیجی گئی تھیں۔

وزارت نے زور دیا کہ اس حوالے سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں اور یہ کہ اُن گاڑیوں کے بارے میں امارات اور سعودی عرب کے درمیان اعلیٰ سطح پر ہم آہنگی موجود تھی اور ساتھ ہی یہ اتفاق بھی ہوا تھا کہ گاڑیاں بندرگاہ سے باہر نہیں جائیں گی۔ ’مگر اس کے باوجود امارات بندرگاہ مکلا میں اِن گاڑیوں کو نشانہ بنانے پر حیران ہوا ہے۔‘

اماراتی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ یمن میں امارات کی موجودگی جائز یمنی حکومت کی درخواست پر اور سعودی قیادت میں قائم عرب اتحاد کے فریم ورک کے تحت ہے جس کا مقصد قانونی حکومت کی بحالی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ ’امارات نے اتحاد کی کارروائیوں کے آغاز سے نمایاں قربانیاں دی ہیں۔‘

وزارتِ خارجہ نے زور دیا کہ حالیہ پیش رفت سے نمٹنے کا عمل ذمہ داری کے ساتھ اور ایسے طریقے سے ہونا چاہیے جو کشیدگی کو بڑھنے سے روکے اور تصدیق شدہ حقائق اور متعلقہ فریقوں کے درمیان موجودہ ہم آہنگی پر مبنی ہو تاکہ سلامتی اور استحکام برقرار رہے، مشترکہ مفادات محفوظ رہیں اور سیاسی عمل کی حمایت ہوسکے۔

سعودی بیان میں یو اے ای پر تنقید

اس سے قبل سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے اقدامات ’اتحاد کے اصولوں کے خلاف ہیں‘ اور اِن سے یمن میں قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔

بیان کے مطابق ’سعودی عرب کو متحدہ عرب امارات کے اِن اقدامات پر مایوسی ہوئی، جن میں سدرن ٹرانزیشنل کونسل کی افواج پر دباؤ ڈال کر مملکت کی جنوبی سرحدوں پر حضرموت اور المہرا کے صوبوں میں فوجی کارروائیاں کروائی گئیں۔ یہ اقدامات سعودی عرب کی قومی سلامتی اور یمن و خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ تصور کیے جاتے ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا تھا کہ ’متحدہ عرب امارات کے اٹھائے گئے اقدامات انتہائی خطرناک ہیں اور کسی بھی خطرے کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے تاکہ ایسے خطرات کو ختم کیا جا سکے۔‘

سعودی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب نے یمن کی خودمختاری، سلامتی اور اتحاد کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا اور ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ بحران کا واحد حل ’یمنی قیادت کے مابین سیاسی مکالمہ ہے جس میں تمام فریق شامل ہوں، بشمول ایس ٹی سی۔‘

سعودی وزارت خارجہ نے امید ظاہر کی تھی کہ متحدہ عرب امارات اس درخواست کو قبول کرے گا جس میں یمن کی حکومت نے اگلے 24 گھنٹوں میںاماراتی فوجیوں کے انخلا اور کسی فریق کی عسکری و مالی مدد روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یمن میں ’محدود فضائی کارروائی‘ کے دوران کیا ہوا تھا؟ Getty Imagesیمن کی بندرگاہ مکلا میں یو اے ای سے بھیجے گئے دو بحری جہازوں سے اُترنے والے سامان کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں سعودی اتحاد کے مطابق کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے

سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ سعودی سربراہی میں قائم اتحاد نے یمن میں ایک فضائی حملے میں ایسے ہتھیاروں اور کامبیٹ گاڑیوں کو نشانہ بنایا ہے جو کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والے بحری جہازوں سے یمن کی بندرگاہ پر اُتاری جا رہی تھیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں یمن کے جنوب میں موجود علیحدگی پسندوں کی کارروائی کے باعث متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) اور سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومتی فوجی دستے آمنے سامنے آئے تھے۔

سعودی سربراہی میں قائم اتحاد کے ترجمان کے مطابق متحدہ عرب امارات میں واقع فجیرہ بندرگاہ سے آنے والے دو جہاز سنیچر اور اتوار کو مکلا بندرگاہ میں بغیر اجازت داخل ہوئے، انھوں نے اپنے ٹریکنگ سسٹم بند کر دیے اور بڑی تعداد میں ہتھیار اورجنگی گاڑیاں اُتاریں، ’تاکہ ایس ٹی سی کی حمایت کی جا سکے۔‘

سعودی سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی اتحاد کا کہنا ہے کہ مکلا بندرگاہ پر حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

تاحال متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔

سعودی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی کا کہنا ہے کہ یمن کی صدارتی قیادت کونسل کے سربراہ رشاد العلیمی کی جانب سے حضرموت اور المہرا میں شہریوں کے تحفظ کی درخواست پر سعودی اتحاد نے منگل کی صبح ایک محدود فضائی کارروائی کی جس میں بندرگاہ پر اُتارے گئے ہتھیاروں اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

خیال رہے کہ علیحدگی پسند گروہ ایس ٹی سی ابتدا میں یمن میں حوثیوں کے خلاف قائم کردہ سعودی اتحاد کا حصہ تھا۔ تاہم بعد میں ایس ٹی سی نے جنوب میں خودمختاری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پنپتی وہ خاموش رقابت جسے یمن میں پیش آئے حالیہ واقعے نے تازہ کر دیاسعودی عرب کی یمن میں حوثی باغیوں کو جنگ بندی کی پیشکش، پاکستان کا خیرمقدم

ایس ٹی سی یمن کے جنوب کے بڑے حصے پر قابض ہے جن میں سٹریٹیجک طور پر اہم حضرموت صوبہ بھی شامل ہے۔ حضرموت سعودی عرب کی سرحد پر واقع ہے اور سعودیہ کے اس کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں۔

حوثی یمن کے شمالی حصے، بشمول صنعا، پر قابض ہیں جہاں سے انھوں نے سعودی حمایت یافتہ حکومت کو سنہ 2014 میں نکال دیا تھا اور شمال کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔

سعودی اتحاد نے مزید کہا کہ ’ہم کسی بھی ملک کی جانب سے کسی یمنی گروہ کو فوجی مدد فراہم کرنے سے روکنا جاری رکھیں گے۔‘

خیال رہے کہ یمن 2014 سے خانہ جنگی سے متاثرہ ہے۔ یمن کے مقامی ذرائع ابلاغ پر دسمبر کے اوائل سے یہ تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ جنوبی یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان یمن کے معاملے پر رقابتGetty Images

یمن کے معاملے پر سعودی کمان میں ہونے والی جنگ میں ابتداً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تھے لیکن اب دونوں کا موقف ایک دوسرے سے مختلف ہے اور دونوں ممالک کی جانب سے مختلف گروہوں کی حمایت تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن رہی ہے۔

علیحدگی پسند گروہ ایس ٹی سی ابتدا میں یمن میں حوثیوں کے خلاف قائم کردہ سعودی اتحاد کا حصہ تھا۔ تاہم بعد میں ایس ٹی سی نے جنوب میں خودمختاری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ایس ٹی سی یمن کے جنوب کے بڑے حصے پر قابض ہے جس میںسٹریٹیجک طور پر اہم حضرموت صوبہ بھی شامل ہے۔ حضرموت سعودی عرب کی سرحد پر واقع ہے اور اس کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں۔

حوثی ملک کے شمالی حصے پر قابض ہیں بشمول دارالحکومت صنعا جہاں سے انھوں نے سعودی حمایت یافتہ حکومت کو 2014 میں نکال دیا تھا اور شمال کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔

یمن کی صورتحال کے حوالے سے ریاض اور ابوظہبی کے موقف متضاد ہیں۔

متحدہ عرب امارات نے سنہ 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں یمن کے حوثی باغیوں (جنھیں ایران کی حمایت حاصل ہے) کے خلاف لڑی گئی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

لیکن دوسری جانب یمن کے جنوبی ساحل پر قدم جمانے کی خواہش اور بحیرہ احمر تک رسائی اور بندرگارہ کے تجارتی راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے، متحدہ عرب امارات نے ایس ٹی سی کی افواج کی حمایت کی۔

ماضی میں ایس ٹی سی نے سرکاری افواج سے براہ راست جھڑپیں کی ہیں اور یمن کے جنوبی علاقے پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔

مگر یہ وہ حمایت تھی جس نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کا بیج بویا کیوںکہ سعودی عرب یمن میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور فوج کی حمایت کرتا ہے۔

گذشتہ برسوں میں متحدہ عرب امارات نے یمن میں اپنی عسکری موجودگی کو بڑھایا ہے، جس میں سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت کے ساتھ افواج کی تربیت، انٹیلیجنس تعاون کو فروغ دینے اور خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے سکیورٹی معاہدہ وغیرہ شامل ہے۔

سنہ 2021 میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات آبنائے باب المندب میں جزیرے مایون (پریم) پر ایک فضائی اڈہ بنا رہا ہے۔ اور ابوظہبی کی جانب سے اس سٹریٹیجک جزیرے میں فوجی اڈہ قائم کرنے کی کوششیں بھی ریاض کے لیے تشویش کا باعث بنیں۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پنپتی وہ خاموش رقابت جسے یمن میں پیش آئے حالیہ واقعے نے تازہ کر دیاسعودی عرب کی یمن میں حوثی باغیوں کو جنگ بندی کی پیشکش، پاکستان کا خیرمقدمیمن جنگ: قیدیوں کا تبادلہ شروع، آٹھ برس سے جاری جنگ کے خاتمے کی امیدیں روشناسرائیل کا صومالی لینڈ کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان، مسلم ممالک ناراض: خلیجِ عدن سے جڑا صومالیہ کا یہ خطہ الگ کیوں ہونا چاہتا ہے؟
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More