100 روپے رشوت لینے کا ملزم 39 سال بعد باعزت بری، ’انصاف ملا مگر بیوی چلی گئی، سب کچھ کھو دیا‘

بی بی سی اردو  |  Nov 17, 2025

رائے پور کے اودھیا پاڑہ کی تنگ گلیوں میں ایک پرانا، بوسیدہ مکان ہے۔ تقریباً 84 سال کے جگیشور پرساد آودھیا اس گھر میں رہتے ہیں۔

اس گھر کی خستہ حال دیواروں پر نام کی تختیاں چسپاں نہیں ہیں۔ فتح کا کوئی نشان نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ دیواریں بول سکتیں تو یہ کہانی سناتیں کہ کس طرح ایک شخص نے 39 سال تک انصاف کے دروازے پر دستک دی اور آخر کار جب وہ دروازہ کھلا تو زندگی کی اکثر کھڑکیاں بند ہو چکی تھیں۔

غیر منقسم مدھیہ پردیش کے سٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں کلرک کے طور پر کام کرنے والے جگیشور پرساد آودھیا کو 1986 میں 100 روپے رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اب تقریباً 39 سال بعد عدالت نے انھیں باعزت بری کر دیا ہے۔

نظام کی بے حسی، انصاف میں تاخیر اور انسان کی ٹوٹی ہوئی امیدوں کی علامت بننے والے جگیشور پرساد آودھیا کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ اب بے معنی ہے۔ میری نوکری ختم ہو گئی۔ معاشرے نے مجھ سے منھ موڑ لیا، میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکا، میں ان کی شادی نہیں کر سکا، رشتہ داروں نے مجھ سے قطع تعلقی کر لی، مناسب علاج نہ کروانے کی وجہ سے میری بیوی کی موت واقع ہو گئی ہے۔ اب کیا کوئی مجھے یہ سب واپس دلا سکتا ہے؟‘

وہ کرب سے یہ بات بتاتے ہیں کہ اب ’ہائیکورٹ نے مجھے بے قصور تو قرار دیا ہے مگر عدالت کی طرف سے اس سرٹیفکیٹ کا وزن اس بھاری بوجھ کے مقابلے میں بہت کم ہے جو میں نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ 39 سالوں تک اٹھایا ہے۔‘

’رشوت لینے سے انکار‘

جگیشور پرساد آودھیا بات کرتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے برسوں کے غم پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ وہ ایک پرانی فائل کے صفحات دکھاتے ہیں۔ ہر پیلا صفحہ۔۔۔ پھٹے ہوئے یہ صفحے ایک تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں، جس میں 39 سال کی کہانی درج ہے۔

وہ دھیمی آواز میں کہتے ہیں کہ ’میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن مجھے سب کچھ کھونا پڑا۔ اب میں کس سے کہوں کہ میں نے کچھ نہیں کیا؟ اب کوئی سننے والا نہیں بچا۔ میں نے ساری زندگی یہ ثابت کرنے میں لگا دی کہ میں بے قصور ہوں۔ اب جب یہ ثابت ہو گیا ہے تو کچھ بھی نہیں بچا۔ میری عمر بھی نہیں ہے۔‘

عدالتی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ سٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں بل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے جگیشور پرساد آودھیا کو انسداد بدعنوانی کے ادارے کی ایک ٹیم نے ایک قریبی چوراہے پر مبینہ طور پر 100 روپے رشوت لیتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

جگیشور پرساد آودھیا کا کہنا ہے کہ ’ایک ملازم نے اپنی بقایا ادائیگی کے لیے بل تیار کرنے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا، میں نے اسے بتایا کہ اعلیٰ دفتر سے تحریری ہدایات کے بعد ہی فائل مجھ تک پہنچے گی، اور تب ہی میں بل تیار کر سکوں گا۔ اس کے بعد ملازم نے مجھے 20 روپے رشوت دینے کی کوشش کی۔ میں نے اس پر ناراضگی ظاہر کی اور اسے دوبارہ دفتر نہ آنے کو کہا‘۔

جگیشور پرساد آودھیا کا دعویٰ ہے کہ ملازم کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس نے پولیس اہلکار کے والد سے پتا نہیں کیا کہا ہو گا، واقعے کے تیسرے دن جب میں دفتر سے نکل رہا تھا، ملازم میرے پیچھے آیا اور میری جیب میں کچھ ڈال دیا۔

جگیشور پرساد آودھیا کہتے ہیں کہ ’اس سے پہلے کہ میں سوچ پاتا کہ کیا ہوا، سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس والوں نے مجھے پکڑ لیا اور کہا کہ ہم چوکس لوگ ہیں اور ہم آپ کو 100 روپے رشوت لیتے ہوئے گرفتار کر رہے ہیں۔‘

جگیشور پرساد کا کہنا ہے کہ وہ دن نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے ایک عذاب کا آغاز تھا۔

بچوں کی تعلیم کا خواب ادھورا رہ گیا

اس واقعے کے دو سال بعد جب عدالت میں چارج شیٹ پیش کی گئی تو 1988 میں انھیں معطل کر دیا گیا، وہ 1988 سے 1994 تک معطل رہے، پھر انھیں رائے پور سے ریوا ٹرانسفر کر دیا گیا۔ تقریباً ڈھائی ہزار روپے کی نصف تنخواہ پر گھر چلانا ناممکن تھا۔

ان کی بیوی اور چار بچے رائے پور میں رہتے تھے، جب کہ جگیشور پرساد آودھیا خود ریوا میں رہتے تھے۔ ترقیاں روک دی گئیں، تنخواہ میں اضافہ روک دیا گیا۔ ایک ایک کر کے چاروں بچوں کی پڑھائی میں خلل پڑا۔

ان کا چھوٹا بیٹا، نیرج، جو اس وقت صرف 13 سال کے تھے، اب ان کی عمر 52 ہو چکی ہے۔ انھیں افسوس ہے کہ ان کا بچپن وہیں، عدالت کی سیڑھیوں پر اپنے والد کی لڑائی کے دوران ضائع ہو گیا۔

اپنی آنکھوں کے کونوں کو پونچھتے ہوئے نیرج کہتے ہیں، ’مجھے تب رشوت کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا، لیکن لوگ کہتے، ’یہ رشوت لینے والے کا بیٹا ہے۔‘ بچے مجھے چھیڑتے تھے کہ میں سکول میں دوست نہیں بنا سکتا تھا، محلے کے دروازے بند تھے، رشتہ داروں نے تعلق توڑ لیا، فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے مجھے کئی بار سکول سے نکال دیا گیا تھا۔

اوادھیا کی بیوی اندو آودھیا نے یہ سارا بوجھ اٹھایا۔ مگر رفتہ رفتہ وہ بھی اس معاشرتی عذاب کا شکار ہو گئیں اور 24 دن سرکاری ہسپتال میں رہنے کے بعد ایک دن وفات پا گئیں۔ وہ اپنے پیچھے صرف ایک ٹوٹا ہوا خاندان چھوڑ گئی۔

جگیشور پرساد کہتے ہیں، ’میری بیوی کی وفات محض پریشانی کی وجہ سے ہوئی۔ وہ میرے رشوت خوری کے الزامات اور معطلی کی وجہ سے کافی عرصے سے افسردہ تھی، اور اس غم نے اسے توڑ دیا، میرے پاس اس کا مناسب علاج کروانے کے لیے پیسے بھی نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جس دن اس کی موت ہوئی، میرے پاس آخری رسومات کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ ایک دوست نے مجھے تین ہزار روپے دیے۔‘

انصاف ملا، باقی سب کچھ کھو گیا

سنہ 2004 میں ٹرائل کورٹ نے جگیشور پرسادکو قصوروار قرار دیا۔ اگرچہ تمام گواہ اپنے بیانات سے مکر گئے تھے لیکن عدالت نے انھیں ایک سال قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

لیکن جگیشور پرساد نے ہمت نہیں ہاری۔ انھوں نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ یہ مقدمہ 20 سال سے زائد عرصے تک چلا۔

اپنے خاندان کی کفالت کے لیے انھوں نے مختلف کام کیے۔ کبھی ٹریول ایجنٹ بنے تو کبھی بس ڈرائیور کے طور پر کام کیا۔ بڑھاپے میں بھی انھیں روزانہ آٹھ دس گھنٹے کام کرنا پڑا۔ 100 روپے رشوت کے الزام میں انھیں تقریباً 14,000 دن تک تاریک جیل میں قید رکھا گیا۔

پھر 2025 میں وہ دن آیا، جب ہائیکورٹ نے کہا کہ وہ بے قصور ہیں۔

جگیشور پرساد کہتے ہیں کہ ’انصاف مل گیا، لیکن وقت واپس نہیں آیا۔ بیوی واپس نہیں آئی، بچوں کا بچپن واپس نہیں آیا۔‘

’عزت؟ شاید وہ بھی واپس نہ مل سکی۔‘

جگیشور پرساد، جو اپنے دکھ اور درد کو بھی مسکراہٹ کے ساتھ بیان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اب ان کی زندگی میں صرف تھکاوٹ باقی رہ گئی ہے، اور یادیں دکھ سے بھری ہوئی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں پھڑپھڑاتے عدالتی فیصلوں کے صفحات اب محض دستاویزات ہیں، زندگی کی وہ کتاب جس میں آدمی اپنا مستقبل لکھنا چاہتا تھا، بہت پہلے بند ہو چکی ہے۔

انڈیا میں انصاف کی دیوی کو ساڑھی کیوں پہنا دی گئی؟ مورتی کا تنازع: انڈیا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر بھری عدالت میں جوتا کیوں پھینکا گیا؟بےگناہی ثابت کرنے کے لیے بیوہ کو شوہر کی لاش کے غسل کا پانی پلانے کا واقعہ: ’ملزمان عدالت میں اپنے عمل کا حساب دیں گے‘قتل کے الزام میں 43 برس قید کی سزا کاٹنے والا شخص، جسے بے گناہی ثابت ہونے پر بھی رہائی نہیں مل سکیکیا کوئی معاوضہ ماضی کو واپس لا سکتا ہے؟

ہائیکورٹ کی وکیل پرینکا شکلا کہتی ہیں کہ جگیشور پرساد اس معاملے میں ہرجانے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پیسہ اس ٹوٹی ہوئی زندگی کو ٹھیک کر سکے گا؟ کیا کوئی معاوضہ ماضی کو واپس لا سکتا ہے؟ جگیشور پرساد کی کہانی صرف ایک شخص کا المیہ نہیں ہے، یہ ہمارے عدالتی نظام کا چہرہ بے نقاب کرتا ہے، جو تاخیرِ انصاف کو بھی ناانصافی سمجھتا ہے۔۔ اور جب فیصلہ آتا ہے، بہت کچھ کھو چکا ہوتا ہے۔‘

پرینکا کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں پرانے مقدمات کی ترجیحی بنیادوں پر سماعت ہونی چاہیے اور ان میں انصاف کو یقینی بنایا جانا چاہیے، تاکہ لوگوں کو جگیشور پرساد آودھیا جیسی صورتحال سے نہ گزرنا پڑے۔

جگیشور پرساد کے مقدمے میں فیصلہ 39 سال بعد آیا ہے، لیکن چھتیس گڑھ میں ایسے ہزاروں مقدمات ہیں جن میں برسوں سے کوئی سماعت نہیں ہوئی۔

چھتیس گڑھ کی مختلف عدالتوں میں گذشتہ 30 سالوں سے ایسے سینکڑوں کیس زیر التوا ہیں۔ کچھ مقدمات تقریباً 50 سال سے عدالتوں میں زیر التوا ہیں، اور ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ چھتیس گڑھ ہائیکورٹ میں آج تک 77,616 مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں سے 19,154 مقدمات پانچ سے 10 سال کے درمیان ہیں۔ 10 سے 20 سال کی عمر کے کیسز کی تعداد 4,159 ہے۔ مزید 105 مقدمات 20 سال سے زائد عرصے سے زیر التوا ہیں۔

سرگوجا، بلاس پور، بلودابازار اور درگ ایسے اضلاع ہیں جہاں کچھ مقدمات مقامی عدالتوں میں 30 سال سے زائد عرصے سے زیر التوا ہیں۔

نہ شکایت کرنے والا بچتا ہے نہ ملزم

تارابائی بمقابلہ بھگوان داس کیس 1976 سے درگ ضلع کی مقامی عدالت میں زیر التوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کیس تقریباً 50 سال سے چل رہا ہے۔ نہ تو تارا بائی، جس نے مقدمہ درج کیا تھا، نہ بھگوان داس، جن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، زندہ ہیں۔ تاہم، کیس زیر التوا ہی رہتا ہے۔

اسی طرح ایک مقدمہ سرگوجا ضلع کے امبیکاپور کی مقامی عدالت میں 1979 سے یعنی 46 سال سے زیر التوا ہے۔

نند کشور پرساد بمقابلہ جگن رام اور دیگر کے اس کیس کے بارے میں آن لائن دستیاب معلومات کے مطابق گذشتہ 10 سالوں میں یعنی 2015 سے 2025 کے دوران 291 بار تاریخیں دی جا چکی ہیں، لیکن ابھی تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔

ایک بار حتمی فیصلہ آنے کے بعد اسے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کا امکان ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مقدمہ کئی سالوں تک وہاں زیر التوا رہ سکتا ہے۔

چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس یتندرا سنگھ نے افسوس کا اظہار کیا کہ چھتیس گڑھ کی عدالتوں میں اتنے عرصے سے مقدمات زیر التوا ہیں۔

انھوں نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کی کئی وجوہات ہیں: فائدہ اٹھانے والی پارٹی نہیں چاہتی کہ مقدمات کا فیصلہ ہو۔ دوسرا، جج بھی پرانے مقدمات کو نہیں چھیڑتے جب تک کہ کسی فریق، چیف جسٹس یا قائم مقام جج کے ذریعے ایسا کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔‘

جگیشور پرساد اب چاہتے ہیں کہ حکومت کم از کم انھیں ان کی پنشن اور واجبات ادا کرے۔ انھیں کوئی انصاف نہیں چاہیے، بس یہ راحت کہ جن ہاتھوں نے ساری زندگی اتنی محنت کی ہے وہ اب بھیک مانگنے کے لیے نہ اٹھ سکیں۔

سکول کے خلاف ہرجانے کی قانونی جنگ جیتنے والی طالبہ: ’اس درخت نے میرا ہاتھ اور سہیلی کی جان لے لی‘’امریکہ میں 30 سال گزارے مگر پھر بھی مجھے قیدی کے لباس میں انڈیا ڈی پورٹ کیا گیا‘پاکستان میں پیدائش، انڈیا میں رہائش: دو پڑوسی ملکوں کی سرحدوں، قوانین اور سفارتی رسہ کشی کے بیچ پھنسی پانچ سالہ ہادیہ کی کہانیانڈیا میں انصاف کی دیوی کو ساڑھی کیوں پہنا دی گئی؟ مورتی کا تنازع: انڈیا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر بھری عدالت میں جوتا کیوں پھینکا گیا؟خاتون ڈاکٹر کا خود کشی سے پہلے ہاتھ پر لکھا آخری بیان: ’جھوٹی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے لیے دباؤ ڈالا اور میرا ریپ کیا گیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More