بنگلہ دیش کی طاقتور وزیراعظم سے سزا یافتہ مجرم تک: شیخ حسینہ کے سیاسی سفر کی کہانی

بی بی سی اردو  |  Nov 17, 2025

Getty Images

بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ اور نہتے مظاہرین پر فائرنگ کے الزامات پر سزائے موت سنانے کا حکم دیا ہے۔

بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی سیاسی جانشین اور کئی دہائیوں تک بنگلہ دیش کے سیاسی اُفق پر راج کرنے والی شیخ حسینہ کا گذشتہ برس اگست میں طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کے بعد زوال شروع ہوا اور اُنھیں پناہ کے لیے انڈیا کا رُخ کرنا پڑا۔

شیخ حسینہ دو مرتبہ بنگلہ دیش کی وزارتِ عظمی کے منصب پر فائز ہوئیں۔ وہ پہلی مرتبہ سنہ 1996 سے 2001 تک وزیرِ اعظم رہیں۔ بعدازاں وہ سنہ 2009 سے سنہ 2024 تک اس منصب پر فائز رہیں۔

آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی سب سے طاقتور سمجھی جانے والی سیاسی رہنما اور پھر انڈیا میں پناہ لینے تک شیخ حسینہ کا سیاسی سفر کیسا رہا؟

شیخ حسینہ کیسے طاقتور رہنما بنیں؟

شیخ حسینہ نے تقریباً دو دہائیوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کی اور وہ ملک میں سب سے طویل دورانیے کے لیے وزیراعظم رہنے والی سیاسی رہنما ہیں۔

شیخ حسینہ کو اکثر بنگلہ دیش کی معیشت کو ترقی دینے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ان پر آمرانہ طرز حکمرانی اختیار کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

شیخ حسینہ سنہ 1947 میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئی تھیں اور سیاست ان کے خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔

وہ قوم پرست رہنما شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں، جنھیں بنگلہ دیش کا ’بنگلہ بندھو‘ یعنی ’بابائے قوم‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی قیادت میں ہی بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہوا تھا اور وہ 1971 میں ملک کے پہلے صدر بنے تھے۔

اس وقت سے ہی شیخ حسینہ نے خود کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ رہنما کے طور پر منوا لیا تھا۔

’شیخ حسینہ نے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا‘: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم کی آڈیو لیک کی تصدیقانڈین حکومت کی ’مہمان‘ شیخ حسینہ کا ممکنہ ’جانشینی منصوبہ‘ کیا ہے؟بنگلہ دیش میں طلبہ کا احتجاج شیخ حسینہ واجد کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک اور استعفے کے مطالبے میں کیسے بدلابنگلہ دیش میں پرتشدد احتجاج کے دوران دل دہلا دینے والی ویڈیوز کی حقیقت کیا؟

سنہ 1975 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے متعدد اراکین کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں صرف شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن ہی بچ پائے تھے کیونکہ وہ اس وقت ملک میں نہیں تھیں۔

انھوں نے اس دوران انڈیا میں جلاوطنی کاٹی اور 1981 میں واپس بنگلہ دیش لوٹیں اور اپنے والد کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ مقرر ہو گئیں۔

انھوں نے جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی حکومت کے دوران دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے۔

اس تحریک نے شیخ حسینہ کو مقبولیت کی بلندی پر پہنچا دیا اور وہ ایک قومی رہنما بن کر اُبھریں۔

وہ 1996 میں پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں۔ اس دوران انھوں نے انڈیا کے ساتھ پانی کی شیئرنگ کی ڈیل طے کی اور ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت پر نہ صرف کرپشن کے الزامات لگتے رہے بلکہ وہ انڈیا سے زیادہ قربت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنتی رہیں۔

سنہ 2001 میں وہ اپنی سابق اتحادی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیا سے الیکشن میں شکست کھا گئیں اور انھیں وزیرِ اعظم کا منصب چھوڑنا پڑا۔

Getty Imagesشیخ حسینہ نے تقریباًدو دہائیوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کی

بنگلہ دیش کی سیاست پر یہ دونوں خواتین تقریباً پچھلی تین دہائیوں سے چھائی رہیں اور انھیں ملک میں ’جنگجو بیگمات‘ کے نام سے پُکارا جانے لگا۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان دو رہنماؤں کی لڑائی کے سبب نہ صرف ملک میں بم دھماکے ہوئے، لوگ لاپتہ ہوئے اور لوگوں کا ماورائے عدالت قتل ہونا ملک میں معمول بن گیا۔

سنہ 2009 میں ایک عبوری حکومت نے ملک میں انتخابات کروائے اور شیخ حسینہ ایک بار پھر ملک کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔

اپنے سیاسی سفر کے دوران بطور اپوزیشن رہنما شیخ حسینہ متعدد مرتبہ گرفتار ہوئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے۔ سنہ 2004 میں ایک ایسے ہی حملے کے سبب ان کی قوتِ گویائی متاثر ہوئی تھی۔

کئی مرتبہ انھیں ملک بدر کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور مبینہ کرپشن کے سبب ان پر عدالتی مقدمات بھی قائم کیے گئے۔

سیاسی کریئر میں انھوں نے کیا حاصل کیا؟

بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ غریب ممالک میں ہوتا تھا لیکن سنہ 2009 کے بعد شیخ حسینہ کی قیادت میں ملک کی معیشت میں بہتری آتی ہوئی نظر آئی۔

اب اس کا شمار خطے میں سب سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی معاشی طاقتوں میں ہوتا ہے، جس کی ترقی کی رفتار انڈیا سے بھی تیز ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں تقریباً ڈھائی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے باہر آئے ہیں۔

ملک میں سب سے زیادہ ترقی کپڑوں یعنی گارمنٹس کے شعبے میں نظر آئی اور بنگلہ دیش میں بنائے گئے کپڑے کو یورپ، شمالی امریکہ اور ایشیا تک رسائی ملی۔

ملک کی اپنی دولت، قرضوں اور غیر ملکی اداروں سے معاونت کا استعمال کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے، جن میں دو ارب 90 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والا ’پدما برج‘ بھی شامل ہے۔

ایک متنازع شخصیت

ملک میں پُرتشدد مظاہرے شاید شیخ حسینہ کے سیاسی کیریئر کا سب سے بڑا چیلنج تھے اور اس سے قبل ملک میں ہونے والے انتخابات بھی تنازعات کا شکار ہوئے تھے۔

ان انتخابات کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی جماعت لگاتار چوتھی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔

ان کے استعفے کے مطالبات کیے جاتے رہے لیکن شیخ حسینہ نے مزاحمت جاری رکھی۔ انھوں نے احتجاجی مظاہرین کو نہ صرف ’دہشتگرد‘ قرار دیا بلکہ اپیل کی کہ ’ان دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔‘

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریباً نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔

سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنھیں بنگلہ دیش میں ’آزادی کی جنگ کا ہیرو‘ مانا جاتا ہے۔

Getty Imagesشیخ حسینہ 1996 میں پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں

تاہم ملک میں طلبہ اور دیگر احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ نظام متعصبانہ ہے اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چاہیے۔

طلبہ کا یہ احتجاج ایک حکومت مخالف ملک گیر تحریک میں بدل گیا۔ دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد بنگلہ دیش میں مہنگائی بڑھ گئی تھی، زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو گئے تھے اور بیرونی قرضہ تقریباً دو گنا بڑھ گیا تھا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی اصل وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کی بدانتظامی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں ملک کی معاشی کامیابیوں کا فائدہ صرف انھیں ہی ہوا ہے جو عوامی لیگ کا حصہ تھے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دوران ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں اور جمہوریت کا معیار گرتا گیا۔ وہ شیخ حسینہ پر آمرانہ طرزِ حکمرانی اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا پر پابندیاں عائد کیں۔

شیخ حسینہ اور ان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

’شیخ حسینہ نے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا‘: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم کی آڈیو لیک کی تصدیقانڈین حکومت کی ’مہمان‘ شیخ حسینہ کا ممکنہ ’جانشینی منصوبہ‘ کیا ہے؟’یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا‘: بنگلہ دیش میں عوام کو حسینہ واجد کی حکومت پر اتنا غصہ کیوں ہے؟بنگلہ دیش میں پرتشدد احتجاج کے دوران دل دہلا دینے والی ویڈیوز کی حقیقت کیا؟’اگر انڈیا بنگلہ دیش کے عوام کو ناراض کرنا چاہتا ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے‘: طارق رحمان کا بی بی سی کو انٹرویو
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More