سری لنکن ٹیم کے حق میں قرارداد اور فیلڈ مارشل کا تذکرہ: مہمان ٹیم کو دی جانے والی ’صدارتی سکیورٹی‘ کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Nov 13, 2025

پاکستان کے وزیرِ داخلہ وزیر محسن نقوی کا کہنا ہے کہ 11 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر نے سری لنکا کے وزیرِ دفاع سے رابطہ کیا اور ان ہی کی یقین دہانی پر سری لنکن کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے پاکستان کا دورہ جاری رکھنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ بدھ کی شب یہ اطلاعات سامنے آئیں تھیں کہ سری لنکا کی ٹیم کے کچھ کھلاڑی اسلام آباد میں دھماکے کے بعد اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں، جس کے بعد پاکستان اور سری لنکن کے حکام کے درمیان رابطے ہوئے اور اس کے بعد سری لنکا کے کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں کو دورہ جاری رکھنے کی ہدایات دیں۔

بدھ کو پاکستان کی سینیٹ میں بات کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر اور سری لنکن وزیرِ دفاع کے درمیان رابطوں کے سبب مہمان ٹیم کے کھلاڑیوں نے پاکستان کا دورہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

محسن نقوی کا کہنا تھا کہپاکستان فوج، رینجرز اور اسلام آباد پولیس سری لنکن ٹیم کو سکیورٹی فراہم کر رہی ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ سری لنکن ٹیم کو ریاستی مہمان (سٹیٹ گیسٹس) کا درجہ دیا گیا ہے، جس کے تحت انھیں وہ سکیورٹی دی جا رہی ہے جو سربراہان مملکت کو دی جاتی ہے۔

اس دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سری لنکن ٹیم اور حکومت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے سینیٹ میں قرارداد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سری لنکن ٹیم نے سپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کیا اور دہشت گردی کے واقعے کے باوجود کھیل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

قرارداد کے مطابق سری لنکن ٹیم کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

محسن نقوی کے مطابق پاکستان اور سری لنکا کے درمیان باقی ون ڈے میچز 14 اور 16 نومبر کو راولپنڈی میں کھیلے جائیں گے۔ اس سے قبل یہ میچز 13 اور 15 نومبر کو شیڈول تھے۔

Getty Imagesریاستی مہمانوں کو کیسی سکیورٹی دی جاتی ہے؟

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ٹیموں کے دورے کے دوران سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینے والے ایک سابق پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ صدارتی سکیورٹی ’بلیو بُک‘ کے تحت دی جاتی ہے۔

’بلیو بُک‘ ایک سرکاری دستاویز ہے، جس میں سربراہان مملکت اور وزرائے اعظم کو دی جانے والی سکیورٹی کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی ٹیم کے دورے سے پہلے یہ تمام تر تفصیلات طے کر لی جاتی ہیں۔

اُن کے بقول ’بلیو بک‘ میں یہ درج ہے کہ اس میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ساتھ ساتھ دیگر خفیہ ایجنسیوں کی مشاورت کے ساتھ مفصل سکیورٹی پلان تشکیل دیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سکیورٹی ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ٹیم کی موومنٹ سے لے کر سٹیڈیم اور پھر ہوٹل واپسی تک کے تمام معاملات کے دوران آپس میں رابطے میں رہتی ہیں۔

اُن کےبقول اس میں آئی بی، کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)، سپیشل برانچ اور آئی ایس آئی مل کر کام کرتی ہیں اور اگر کسی کے پاس کوئی معلومات آتی ہیں تو وہ آپس میں شیئر کرتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی ٹیموں کو صدارتی سکیورٹی دی جاتی رہی ہے۔

اُن کے بقول اس سکیورٹی پلان کے تحت ہوٹل سے سٹیڈیم تک کے روٹ کو کلیئر کیا جاتا ہے اور اہم عمارتوں پر سنائپرز کو تعینات کیا جاتا ہے۔

Getty Images

وہ کہتے ہیں کہ روٹ کے اطراف 600 سے 700 میٹر کی دُوری پر واقع ہوٹلز کو بھی پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہاں ٹھہرنے والے مہمانوں کی تفصیلات سے مقامی پولیس کو آگاہ کریں۔

’بنیادی طور پر یہ چار سطحی سکیورٹی ہوتی ہے جس میں چار مختلف مراحل میں چیکنگ کی جاتی ہے۔ سٹیڈیم میں ڈریسنگ روم اور کھلاڑیوں کے بیٹھنے کی جگہ کو کلیئر کیا جاتا ہے۔ تماشائیوں کو چار مختلف سکیورٹی پوائنٹس سے گزار کا سٹیڈیم میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔‘

https://twitter.com/PTVSp0rts/status/1988676372315984171

’فرینڈ شپ ناٹ آؤٹ‘Getty Images

پاکستان کے سوشل میڈیا پر صارفین سری لنکن کرکٹ بورڈ کے فیصلے کا خیر مقدم کر رہے ہیں، جس کے بعد پاکستان اور سری لنکا کے علاوہ ہیش ٹیگ ’فرینڈ شپ ناٹ آؤٹ‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔

پاکستان کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے ’فرینڈ شپ ناٹ آؤٹ‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ ’کرکٹ کے ساتھ کھڑے ہونے اور دہشت گردی کو شکست دینے پر سری لنکا کی ٹیم کا شکریہ۔۔۔‘

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے لکھا کہ ’سری لنکن کرکٹ بورڈ کو جنتا ویمکتھی پیرامونا (جے وی پی) کی بغاوتوں کے دوران انٹرنیشنل کرکٹ یاد ہو گی، خاص طور پر (سری لنکا میں) سنہ 1987 سے 1990 کے پُرتشدد واقعات اور بم دھماکوں کے درمیان۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’سری لنکا کے کرکٹ حکام اور حکومت کی جانب سے کرکٹ کو دہشتگردوں کے خلاف دفاع کی علامت کے طور پر استعمال کرنا ایک شعوری اور دلیرانہ فیصلہ تھا۔ (پاکستان میں) بم دھماکے کے بعد جاری رہنے والے کرکٹ میچ کا نظارہ طاقتور پیغام تھا کہ قوم کے جذبے کو دہشت زدہ نہیں کیا جائے گا۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’پاکستان اور اس کا کرکٹ بورڈ اِس وقت بالکل ایسا ہی محسوس کر رہے ہیں اور اسی لیے کرکٹ کو جاری رہنا چاہیے۔‘

سابق پاکستان وکٹ کیپر بیٹسمین راشد لطیف نے اپنی طویل پوسٹ میں اُس وقت کو یاد کیا جب سری لنکا میں سکیورٹی کے انتہائی بُرے حالات کے بیچ بھی پاکستان نے وہاں کرکٹ کھیلنا جاری رکھی۔

راشد لطیف نے لکھا کہ ’1994 میں جب ہم تین ٹیسٹ اور تین ایک روزہ میچ کھیلنے سری لنکا گئے تو سری لنکا کے حالات اچھے نہیں تھے۔ تامل ٹائیگرز کے ساتھ کئی جھڑپیں ہوئیں۔ کولمبو میں دو ٹیسٹ میچوں کے بعد دھماکہ ہوا، شہر میں کرفیو لگا دیا گیا، جس کے باعث تیسرا ٹیسٹ منسوخ کر دیا گیا۔ نامساعد حالات کے باوجود پاکستانی ٹیم کولمبو میں موجود رہی اور پاکستان کرکٹ بورڈ اور حکومت کی جانب سے کیے گئے فیصلے کو کھلاڑیوں کی جانب سے انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا۔‘

’منسوخ شدہ ٹیسٹ کی جگہ دو ایک روزہ میچوں کا اضافہ کیا گیا، جس سے یہ مجموعی طور پر پانچ میچ بن گئے۔ پاکستان نے ٹیسٹ سیریز 0-2 اور ون ڈے سیریز 1-4 سے جیتی۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’جنوری 1996 میں سری لنکا کی صورتحال ایک بار پھر سنگین بم دھماکوں، خودکش حملوں اور کرفیو کے ساتھ خانہ جنگی کی طرح تھی۔ 1996 کا ورلڈ کپ انڈیا، پاکستان اور سری لنکا میں ہونا تھا۔ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا نے سری لنکا جانے سے انکار کر دیا۔ یہ ایک مشکل وقت تھا، جس نے پاکستان اور انڈیا کو ایک مشترکہ ٹیم بنانے اور اسے کولمبو بھیجنے پر مجبور کیا۔‘

’ٹیم میں اظہرالدین، سچن ٹنڈولکر، سعید انور، وسیم اکرم، انیل کمبلے، راشد لطیف، وقار یونس، اجے جدیجہ، اعجاز احمد، اور عامر سہیل شامل تھے۔ اس وقت اُن کے وزیر اعظم بندرانائیکے تھے۔ میچ کے بعد کپتان رانا ٹنگا نے تقریر کی، اس دوران وہ جذباتی ہو گئے اور دونوں ٹیموں کا شکریہ ادا کیا۔ سری لنکا نے لاہور میں آسٹریلیا کے خلاف ورلڈ کپ کا فائنل جیتا اور بینظیر بھٹو نے رانا ٹنگا کو ٹرافی پیش کی۔‘

اپنی طویل پوسٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’تین مارچ 2009 کو سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملہ ہوا جس کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے اور پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں کھیلنا شروع کر دیا۔‘

’ایک بار پھر جب دھماکہ ہوا تو سری لنکن ٹیم اسلام آباد میں تھی۔ کچھ کھلاڑیوں نے اپنی انتظامیہ سے واپسی کی درخواست کی جس سے پی سی بی کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور حکومت نے فوری طور پر اپنے سفارتی تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے سری لنکن بورڈ کی انتظامیہ اور ہائی کمیشن سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں سری لنکن کرکٹ بورڈ نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم دورہ مکمل کرے گی۔‘

صارف بہرام قاضی نے لکھا کہ سری لنکا کی طرح کوئی بھی اور کرکٹ ملک اس ثابت قدمی کے ساتھ پاکستان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔

لاریب نامی صارف نے لکھا کہ ’سری لنکن کرکٹ بورڈ کا دورہ پاکستان جاری رکھنے کا فیصلہ، صرف کرکٹ فیصلہ نہیں بلکہ دو قوموں کے درمیان دوستی اور اعتماد کا خوبصورت استعارہ ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ میدان امن کا ہے، جہاں دہشتگردی ہمیشہ بولڈ آؤٹ اور محبت ہمیشہ ناٹ آؤٹ رہتی ہے۔‘

اس ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ کھیل سے بڑھ کر حوصلے، اعتماد اور دوستی کی علامت ہے۔ آپ نے دنیا کو دکھا دیا کہ دہشتگردی نفرت پھیلاتی ہے مگر کرکٹ دلوں کو جوڑتی ہے۔‘

’پاکستان آپ کے جذبہ، بہادری اور کھیل سے محبت کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، یہ رشتہ دوستی اور سپورٹس مین سپرٹ ہمیشہ قائم رہے گی۔‘

ماضی میں سکیورٹی خدشات پر منسوخ ہونے والے میچز

سنہ 1996 کے ورلڈ کپ میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے مغربی ٹیموں نے سری لنکا جانے سے معذرت کی تھی تو جن ممالک نے اپنے کھلاڑیوں کو کولمبو بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا اس میں پاکستان شامل تھا۔

لیکن پھر سنہ 2009 میں سری لنکن ٹیم کے ساتھ پاکستان کی سرزمین پر ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے پاکستان کے کرکٹ گراؤنڈز کو دہائیوں تک کسی بھی بین الاقوامی مقابلے کی میزبانی سے محروم کر دیا۔

تین مارچ 2009 کو سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے شہر لاہور میں موجود تھی۔ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کا تیسرا دن شروع ہونا تھا جب مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے 12 شدت پسندوں نے مہمان کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا۔

اس واقعے میں سری لنکن ٹیم کی حفاظت پر مامور چھ پولیس اہلکار اور ایک ڈرائیور ہلاک ہوئے تھے۔ سری لنکا کے کرکٹ حکام کے مطابق زخمی ہونے والے اُن کے کھلاڑیوں میں سمرا وِیرا، اجنتا مینڈس، کمارا سنگاکارا اورتھرنگا پرانا وتھانا شامل تھے۔

اسی طرح سنہ 1987 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم سری لنکا کے دورے پر تھی لیکن پہلے ٹیسٹ کے بعد کولمبو میں ہونے والے بم دھماکے میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد اس نے یہ دورہ ختم کر دیا تھا۔

سنہ 1992 میں نیوزی لینڈ ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں نے کولمبو میں ٹیم ہوٹل کے قریب ہونے والے بم دھماکے کے بعد سری لنکا کا دورہ جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا اور وطن واپس چلے گئی تھی۔ ان میں مارک گریٹ بیچ، گیون لارسن، راڈ لیتھم، ولی واٹسن اور کوچ وارن لیز شامل تھے۔

سنہ 2001 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر روانہ ہوئی اور وہ ابھی سنگاپور پہنچی تھی کہ نائن الیون کا واقعہ رونما ہو گیا اور وہ وہیں سے وطن واپس روانہ ہو گئی۔

سنہ 2002 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے خلاف کراچی ٹیسٹ کھیلنے کے لیے اپنے ہوٹل سے سٹیڈیم کے لیے روانہ ہونے والی تھی کہ اس دوران فرانسیسی انجینئرز کی خودکش حملے میں ہلاکت کے واقعے نے اسے دورہ ختم کر کے وطن واپس جانے پر مجبور کر دیا تھا۔

اسی طرح ستمبر 2021 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کی جانب سے پاکستان میں سکیورٹی خدشات کو بنیاد پر بنا کر دورۂ پاکستان ختم کر دیا گیا تھا۔ راولپنڈی میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے درمیان کھیلے جانے والا پہلا ایک روزہ میچ آغاز سے صرف چند گھنٹے قبل ہی منسوخ کیا گیا تھا۔

’حارث رؤف میچ ونر ہیں، کبھی پاکستان کے لیے تو کبھی دوسری ٹیموں کے لیے‘آٹھ گیندوں پر آٹھ چھکے اور صرف نو منٹ میں نصف سنچری بنانے والے انڈین کھلاڑی کون ہیں؟فیصل آباد میں 17 برس بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی: جس پچ کے بارے میں ڈینس للی نے کہا ’مر جاؤں تو مجھے اس کے نیچے دفنایا جائے‘دبئی میں نوکری چھوڑنے کے بعد پاکستانی ٹیم کا حصہ بننے والے عثمان طارق اور ان کے غیر معمولی بولنگ ایکشن کی کہانیآئی پی ایل سے موازنہ، تنازعات، ’ریلو کٹوں‘ کے طعنے اور اب دو نئی ٹیمیں: پاکستان سپر لیگ کے 10 سال کی کہانیبابر اعظم کیا واپس ’ڈرائنگ بورڈ‘ پر جائیں گے؟
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More