افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟

بی بی سی اردو  |  Nov 05, 2025

Getty Images15 اکتوبر کو قندھار کے سپن بولدک ضلع میں طالبان کی افواج Z-2-23 ایئر ڈیفنس ہتھیار کے ساتھ دکھائی دے رہی ہیں

افغانستان میں افغان طالبان کی عبوری حکومت کی فوج اور پاکستان کے درمیان دوحہ میں جنگ بندی اور استنبول میں اس جنگ بندی کو جاری رکھنے پر اتفاق سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان کئی روز تک جھڑپیں جاری رہی تھیں۔ اس دوران دونوں ملکوں نے سرحد پر اپنی اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا اور ان کی کمزوریاں بھی دیکھی گئیں۔

پاکستانی فوج نے میزائل اور فضائی طاقت کا استعمال کیا جبکہ طالبان حکومت نے مقامی نیٹ ورکس کے تعاون سے ہلکے ہتھیاروں کے ذریعے گوریلا حملوں پر زیادہ تر انحصار کیا۔

اس تحریر میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ لڑائی میں طالبان کی حکومتی فوج نے کن ہتھیاروں کا استعمال کیا اور ان کی کون سی خامیاں نمایاں طور پر نظر آئیں۔

’مولوی صاحب‘Getty Imagesڈیورنڈ لائن کے قریب قندھار کے ضلع سپن بولدک میں طالبان فورسز ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ

افغانستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ایک طالبان جنگجو کو دکھایا گیا ہے۔ اس کے کندھے پر رائفل لٹکی ہوئی ہے اور وہ پاکستانی فوجی چوکی پر حملہ کرنے کے لیے بھاگ رہا ہے۔

طالبان اور پاکستانی فوج کے درمیان رات کے وقت ہونے والی جھڑپ کے دوران ریکارڈ کی گئی ایک اور ویڈیو میں ایک طالبان جنگجو کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’والا یا مولوی صاحب۔‘

یہ جملہ طالبان حکومت کے حامیوں میں تیزی سے مقبول ہوا اور سوشل میڈیا پر افغانوں میں وسیع پیمانے پر پھیل گیا جو کہ طالبان حکومت کی پاکستان کے خلاف لڑائی کے لیے ایک قسم کا نعرہ بن گیا۔

پاکستان کے ساتھ نو روزہ لڑائی کے دوران ان ویڈیوز کے جاری ہونے سے یہ سوالات اٹھے کہ کیا طالبان ایک مسلح گروپ سے ایک منظم فوج میں تبدیل ہو گئے ہیں؟

طالبان کی حکمت عملی ’گوریلا وار فیئر‘

امریکی، نیٹو اور سابق افغان حکومتی افواج کے خلاف تقریباً دو دہائیوں سے لڑنے کے بعد طالبان نے گوریلا جنگ کا وسیع تجربہ حاصل کیا ہے۔ یہ تجربہ اب بھی ان کی فوجی حکمت عملی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

افغانستان کی وزارت داخلہ کے ایک سابق اہلکار اور سکیورٹی امور کے ماہر بسم اللہ تبان کا کہنا ہے کہ حالیہ جھڑپوں کی ویڈیوز اور مشاہدات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اب بھی ایک باقاعدہ فوج کے طور پر نہیں بلکہ ہلکے ہتھیاروں سے لیس گوریلا گروپ کے طور پر لڑ رہے ہیں۔

اس حکمت عملی میں گھات لگا کر ’سرپرائز‘ حملوں کے ذریعے حریف کی اضافی نفری کی آمد میں تاخیر پیدا کی جاتی ہے۔

ایک طالبان کمانڈر، جنھوں نے پاکستان کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا، نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کی افواج نے ’زیادہ تر گوریلا حکمت عملی پر توجہ مرکوز کی جس میں ہمارے پاس کافی تجربہ ہے۔ حالانکہ ضرورت پڑنے پر باقاعدہ فوجی یونٹوں کو بھی کبھی کبھار استعمال کیا جاتا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’بنیادی مقصد اپنے علاقوں اور چوکیوں پر قبضہ برقرار رکھنا تھا اور ہم پاکستانی مراکز اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

’مرکز سے احکامات جاری کیے جاتے ہیں لیکن مقامی کمانڈروں کو زمینی حالات اور حالات کی بنیاد پر فیصلے کرنے اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا تھا۔‘

’گریٹر افغانستان‘ کا متنازع نقشہ: ’اس قسم کی اشتعال انگیز ویڈیوز کشیدگی مزید بڑھائیں گی‘’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟’پہلے جھڑپیں ہوتی تھیں، اب باقاعدہ جنگ جیسی صورتحال ہے‘: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کیا رُخ اختیار کر سکتا ہے؟پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں شامل ترک انٹیلیجنس سربراہ ابراہیم قالن کون ہیں؟Getty Imagesطالبان کی افواج صوبہ خوست میں ڈیورنڈ لائن کی طرف جاتے ہوئے

انھوں نے مزید کہا کہ تیز رفتار حملوں کے دوران ہلکے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کا استعمال بہت موثر ثابت ہوا ہے۔

پاکستانی فوجی ماہر عامر رانا کا کہنا ہے کہ طالبان ابھی تک گوریلا گروپ کو معیاری فوج میں تبدیل نہیں کر سکے اور اس لیے وہ اپنے پرانے گوریلا حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ایک معیاری فوج ہے، جو انڈیا جیسی بڑی طاقت سے لڑنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ لیکن ان کے بقول سرحد پر طالبان حکومت کے ساتھ تصادم دراصل دونوں ممالک کے درمیان مکمل جنگ نہیں تھی بلکہ پاکستان اسے ایک قسم کا ’انسداد دہشت گردی آپریشن‘ سمجھتا ہے جس کا مقصد افغانستان کے اندر عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں اور مراکز کو نشانہ بنانا ہے۔

عامر رانا کے مطابق پاکستان کی جانب سے افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر بڑی فوجی فورس تعینات نہ کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ افغانستان سے خطرہ زیادہ نہیں تھا۔ اس لیے ان کے بقول پاکستان نے وہاں اپنی فوج تعینات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ وہاں موجود سرحدی افواج پر ہی اکتفا کیا اور جو طاقت انڈیا کے خلاف لڑ سکتی ہے اسے تنازع میں استعمال نہیں کیا گیا۔

افغان طالبان حکومت کے کمانڈروں کا کہنا ہے کہ گوریلا حکمت عملی کے علاوہ انھوں نے قبائلی علاقوں میں مقامی انٹیلی جنس ذرائع سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔

Getty Imagesبگرام ایئر بیس پر فوجی پریڈ کے دوران ’پیلے بیرل‘ بموں کی نمائش

افغان حکومت کے ایک سابق سینیئر سکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’سرحدی علاقوں میں لسانی، ثقافتی اور قبائلی مشترکات معلومات جمع کرنے، چھپانے اور نقل و حرکت میں مدد کرتے ہیں۔ یہ دراندازی کی کارروائیوں کے لیے حکمت عملی کے لحاظ سے اہم ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ ’سوشل کور‘ طالبان کی آپریشنل صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے۔

طالبان کے فوجی کمانڈر اپنی افواج کے ’جذبے اور حوصلے‘ پر زور دیتے ہیں اور پاکستان کے خلاف ’دشمنی اور انتقام کے جذبے‘ کو اصل محرک قرار دیتے ہیں۔

لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی فضائی حملوں کے دوران ’ہماری افواج شدید دباؤ میں آئیں‘ جس کے نتیجے میں ’شہریوں کی ہلاکت‘ ہوئی۔

طالبان افواج وسیع پیمانے پر ہتھیاروں کے استعمال کے لیے مشہور ہیں، جیسے کہ سڑک کے کنارے نصب بم، جسے ’پیلا بیرل‘ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ بم بنانے اور استعمال کرنے میں اتنے سستے ہیں کہ عسکریت پسند انھیں کم سے کم وسائل کے ساتھ اپنے گھروں میں بھی تیار کر سکتے ہیں لیکن یہ دشمن کی افواج اور رسد کی لائنوں کو بھاری نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اس طرح کے دھماکہ خیز مواد کے استعمال کی مثالیں سپن بولدک چمن کے علاقے میں بھی دیکھی گئی ہیں۔

بعض ماہرین نے خودکش بمباروں کے استعمال کے امکان کا بھی ذکر کیا ہے تاہم فوجی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے ہتھیار ممالک کے درمیان جنگوں میں بے اثر ہوتے ہیں۔

طالبان فوج کے زیر استعمال ہتھیارGetty Imagesافغان طالبان کی سرحدی پولیس کے اہلکار

اب طالبان حکومت کی فوج کے ہاتھ میں جو ہتھیار ہیں وہ زیادہ تر تین ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیں: سابقہ افغان فوج کا اسلحہ اور ساز و سامان، وہ ہتھیار جو امریکہ سمیت غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں رہ گئے اور ایسے ہتھیار جو طالبان نے مختلف ذرائع سے حاصل کیے جیسے بلیک مارکیٹ۔

طالبان حکومت اور پاکستانی افواج کے درمیان حالیہ جھڑپوں کی جاری کی گئی ویڈیوز سے پتا چلتا ہے کہ طالبان فورسز نے زیادہ تر ہلکے ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جس میں بھاری اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی بہت کم نشانیاں ہیں۔

Getty Imagesاگست 2024 کے دوران بگرام ایئر بیس کے مناظر

ایک طالبان کمانڈر کے مطابق ہلکے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں نے ان کے جنگجوؤں کو چوکیوں اور ڈیورنڈ لائن کے ساتھ منتخب فوجی اہداف پر تیزی سے اور موثر طریقے سے حملہ کرنے کی صلاحیت فراہم کی۔

عسکری ماہرین بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ طالبان فورسز کے زیر استعمال ہتھیاروں میں اکثریت ہلکے اور نیم بھاری ہتھیاروں کی ہے۔

Getty Imagesطالبان کی اقتدار میں واپسی کی تیسری سالگرہ کے موقع پر بگرام ایئر بیس پر سوویت دور کے ہتھیاروں کی نمائش

افغانستان میں 20 سالوں کے دوران امریکی خصوصی انسپکٹر جنرل برائے تعمیر نو اور ملک کی وزارت دفاع کی رپورٹوں کے مطابق سابق حکومت کو 1.6 ملین سے زیادہ ہلکے و بھاری ہتھیار اور مختلف فوجی ساز و سامان فراہم کیے گئے جن میں سے تقریباً 70 فیصد یا 10 لاکھ سے زیادہ ہتھیار افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں میں چلے گئے تھے۔

اس وقت طالبان حکومت کی فوج کے ہاتھ میں جو ہلکے ہتھیار ہیں ان میں زیادہ تر کلاشنکوفیں، امریکن ایم 16، ایم فور، ایم 29 لائٹ مشین گنیں شامل ہیں۔

ان میں پیکا ایم ٹو اور ایم 240 جیسی ہیوی مشین گنیں، گرینیڈ لانچرز جبکہ آر پی جی سیون اور اے ٹی فور جیسے راکٹ لانچر اور اینٹی ٹینک میزائل بھی شامل ہیں۔

طالبان کے ایک کمانڈر کے مطابق حالیہ جھڑپوں میں ’نائٹ ویژن چشمے اور لیزر سے لیس ہتھیار رات کے وقت حملوں میں موثر رہے۔‘

ناقابل استعمال بھاری ہتھیارGetty Imagesطالبان حکومت کی وزارت دفاع نے بگرام ایئر بیس پر امریکی اور روسی ہیلی کاپٹروں کی نمائش کی تھی

امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کی جانب سے افغانستان سے انخلا کے بعد جاری ہونے والی رپورٹس کے مطابق بھاری بکتر بند گاڑیاں، طیارے اور دیگر بھاری فوجی ساز و سامان جو امریکہ نے سابق افغان حکومت کی فوج کو فراہم کیا تھا،یہ بھی طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔

ان بھاری ہتھیاروں میں 122 ایم ایم کی ہووٹزر بندوقیں ہیں جنھیں ڈی 30 کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں سے 100 سے 120 بندوقیں اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔

اس کے علاوہ تقریباً 155 ملی میٹر کے ہووٹزر مارٹر اور بہت سے روسی ہتھیار جیسے کہ زی ٹی 2-23 بھی طالبان کے پاس ہیں۔

امریکی اڈوں میں سازوسامان کی منتقلی کے دوران افغان فوج کی جانب سے کام کرنے والے بسم اللہ تبان کا کہنا ہے کہ بھاری اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار جو سرحد کے دوسری جانب لڑائی میں استعمال ہو سکتے تھے وہ گذشتہ افغان حکومت کی فوج کے حوالے نہیں کیے گئے تھے۔

تاہم طالبان کے ایک فوجی کمانڈر کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے مخالف جانب سے شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے توپ خانے، راکٹوں اور مارٹر گولوں کا استعمال نہیں کیا۔

طالبان حکومت نے 2024 میں ایک فوجی پریڈ کے دوران بگرام ایئر بیس پر بھاری ہتھیاروں کی نمائش کی تھی۔ ان میں سکڈ میزائل آر 17 اور البروس آر 300 شامل تھے، جن کی رینج تقریباً 300 کلومیٹر ہے۔

لونا میزائل جسے فراگ سیون کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، گریڈ راکٹ لانچر، ملان اینٹی ٹینک میزائل اور آرگن میزائلوں کے ساتھ تقریباً 6 میل تک مار کرنے والے ہتھیار اور لانچنگ سسٹم ہیں۔ یہ تقریباً 35 کلومیٹر تک فائر کر سکتا ہے۔

یہ ہتھیار کم از کم تین دہائیوں سے افغانستان میں استعمال نہیں ہوئے ہیں۔ کچھ وزارت ڈیفنس سٹوریج میں اور کچھ پہاڑی علاقوں جیسے پنجشیر میں موجود ہیں۔

طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے ان میں سے کچھ ہتھیاروں کو دوبارہ فعال کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن ان کی تکنیکی حالت اور وہ کس حد تک لڑائی میں عملی استعمال کے لیے تیار ہیں، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔

امریکی رپورٹ کے مطابق 61,000 کے قریب ہموی اور رینجرز اور سینکڑوں بکتر بند گاڑیاں طالبان کے ہاتھ لگ چکی ہیں۔ تاہم سابق افغان حکومت کے ایک سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ ایسی بکتر بند گاڑیوں کو جنگ کے دوران ربڑ کے ٹائروں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

طالبان کی کمزوری: فضائی طاقت

پاکستانی برتری کا ایک پہلو ملک کی فضائیہ اور جدید لڑاکا طیارے ہیں جبکہ طالبان حکومت کے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقتور فضائیہ نہیں۔

طالبان کی حکومت نے سابقہ وزارت دفاع کے متعدد ہیلی کاپٹروں کی مرمت کر کے انھیں فعال کیا ہے اور متعدد پائلٹوں کو تربیت بھی دی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھیں پاکستانی فضائیہ کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا۔

بسم اللہ تبان کے مطابق امریکہ نے اپنی موجودگی کے آخری سالوں میں افغان فضائیہ کو مکمل طور پر لیس نہیں کیا اور اس کے کئی فضائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو بھی تباہ کر دیا۔

’یہی وجہ ہے کہ طالبان کو فضا میں مار کرنے والے ہتھیاروں تک رسائی نہیں۔‘

امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے جن طیاروں کا سامان قبضے میں لیا ان میں سی 280 طیارے، ایم ڈی 530 ہیلی کاپٹر، بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، اے 29 طیارے، ایم آئی 17 ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر، آیم آئی 24 لڑاکا ہیلی کاپٹر، ایم ڈی 500 لائٹ اٹیک ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔

طالبان حکومت کی وزارت دفاع کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس تقریباً 60 طیارے اور ہیلی کاپٹر ہیں۔

اسلام آباد میں ایک عسکری ماہر عامر رانا کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ’ٹارگٹڈ‘ فضائی حملے کیے اور ان کا بنیادی مقصد طالبان کی حکومت کی فوجی تنصیبات کو تباہ کرنا نہیں تھا۔

Getty Imagesایک امریکی ڈرون 31 اگست 2021 کو کابل ہوائی اڈے پر گشت کر رہا ہےطالبان کے پاس فوجی ڈرون نہیں

اگرچہ بہت سے امریکی سکن ایگل ڈرون افغانستان میں موجود ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان کی فوج ان کو استعمال کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتی ہے۔

بسم اللہ تبان کا کہنا ہے کہ چھوٹے کمرشل ڈرون، جو اصل میں فلم بندی کے لیے بنائے گئے تھے، نگرانی کے لیے اور کبھی کبھی دھماکہ خیز مواد پہنچانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ 2020 اور 2021 میں اس وقت کے افغان حکومت کے اہلکاروں نے کہا تھا کہ طالبان نے قندوز، بلخ، فاریاب اور ہلمند صوبوں میں حملے کرنے کے لیے ڈرون کا استعمال کیا تھا۔

سابق حکومت کے ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ طالبان نے ہلکے یا درمیانے درجے کے فوجی ڈرون بلیک مارکیٹ یا غیر ملکی امداد کے ذریعے حاصل کیے ہوں۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی عندیہ نہیں ملا ہے کہ طالبان حکومت کو جدید اور بڑے فوجی ڈرون تک رسائی حاصل ہے۔

پاکستانی عسکری ماہر عامر رانا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’طالبان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروپ کمرشل ڈرونز کو نگرانی اور محدود حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘

’لیکن عملی طور پر ان کے پاس جدید فوجی ڈرون استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔‘

’گریٹر افغانستان‘ کا متنازع نقشہ: ’اس قسم کی اشتعال انگیز ویڈیوز کشیدگی مزید بڑھائیں گی‘وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان اور نئے سوال: کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی دیرپا ثابت ہو گی؟پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں شامل ترک انٹیلیجنس سربراہ ابراہیم قالن کون ہیں؟استنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟’پہلے جھڑپیں ہوتی تھیں، اب باقاعدہ جنگ جیسی صورتحال ہے‘: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کیا رُخ اختیار کر سکتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More