Reutersامریکہ نے آخری بار سنہ 1992 میں جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری تجربات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اُن کا یہ اعلان ممکنہ طور پر امریکہ کی قومی سلامتی پالیسی میں انتہائی اہم تبدیلی تصور کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا سائٹ ٹروتھ سوشل پر صدر ٹرمپ نے لکھا کہ 'کیونکہ دیگر ممالک بھی اپنے پروگرامز (جوہری ہتھیاروں) کے تجربے کرتے ہیں، اس لیے میں نے امریکہ کے محکمہ جنگ (سابقہ وزارت دفاع) کو برابری کی بنیاد پر جوہری ہتھیاروں کے تجربے شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ فوری طور پر شروع کیے جائیں گے۔‘
دنیا بھر میں جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک باقاعدگی سے جوہری مواد لے جانے والے ہتھیاروں (جیسا کہ میزائل وغیرہ) کے تجربات کرتے رہتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کوئی وضاحتی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ اس لیے یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ صدر ٹرمپ کیا جوہری ہتھیار لے جانے والے نظام جیسا کہ میزائلوں وغیرہ کے تجربات کرنا چاہتے ہیں یا وہ جوہری ہتھیاروں کا ہی تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔
اپنی ہی پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ جن مقامات پر یہ جوہری تجربات ہونے ہیں اُن کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
بی بی سی نے اس بارے میں پالیسی ماہرین سے بات کی۔
ماہرین کے مطابق ایسے اوقات میں جب یہ اشارے بہت واضح ہیں کہ دنیا جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کی جانب بڑھ رہی ہے، اس نوعیت کے تجربات کا اعلان اسے مزید ہوا دے گا۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ اس دوڑ کو تیز نہیں کر رہا، تاہم ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو بڑھتے ہوئے جوہری خطرات کا سامنا ہے۔
BBCکس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار ہیں؟
کارنیج انڈومنمٹ فار انٹرنیشنل پیس کے فیلو جیمی وانگ کا کہنا ہے کہ ’شمالی کوریا کے علاوہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک نے گذشتہ کئی دہائیوں سے جوہری تجربات نہیں کیے ہیں، اس لیے خدشہ ہے کہ اس اعلان کا اثر دوسروں پر بھی پڑے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ پریشان کُن لمحہ ہے۔ امریکہ، روس اور چین ممکنہ طور پر اسے لمحات میں داخل ہو رہے ہیں جس سے ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔‘
لندن میں موجود دفاعی اور سکیورٹی اُمور کے تھیک ٹینک ’روسی‘ سے وابستہ سینیئرفیلو دریا دولزیکوا کے مطابق صدر ٹرمپ کے بیان سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’عالمی سطح پر کئی اور وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر گذشتہ کئی دہائیوں کے مقابلے میں اب جوہری تبادلے اور جوہری ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کے خطرات بہت بڑھا دیے ہیں۔‘
اُن کے مطابق ٹرمپ کا اعلان ’ایک بڑی بالٹی میں پانی کے ایک قطرے کی مانند ہے اور ایسے کئی جائز خدشات موجود ہے کہ یہ بالٹی جلد بھرنے کے قریب ہے۔‘
کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان دنیا کے سب سے خطرناک آدمی تھے؟’دشمن کو ڈرانے کے لیے‘ امریکہ کے بعد دنیا میں کن ممالک نے جوہری ہتھیار حاصل کیے اور کون اس دوڑ سے دستبردار ہوا
ماہرین نے اُن بڑھتے ہوئے تنازعات کی جانب اشارہ کیا ہے جس میں زیادہ متحرک ایٹمی طاقتیں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر یوکرین کی جنگ، جس میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے متعدد مواقع پر دھمکی دی ہے کہ وہ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔
حالیہ عرصے میں پاکستان اور انڈیا یا ایران، اسرائیل کے مابین جھڑپیں اور حملے ہوئے ہیں، یہ کشیدگیاں موجود ہیں جو کبھی بھی بڑے تنازع کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔
اسرائیل نے کبھی بھی جوہری ہتھیار رکھنے کا باقاعدہ اعلان یا اُس کی تردید نہیں کی ہے اور ایران پر الزام ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔
اسی جزیرہ نما کوریا میں چین اور تائیوان کے مابین شدید کشیدگی ہے۔
امریکہ اور روس کے مابین ہونے والے جوہری معاہدہ اگلے سال فروری میں ختم ہو رہا ہے، اس معاہدے میں دونوں ممالک نے جوہری ہتھیاروں کی تنصیب محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اپنے بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں امریکہ کے پاس سب سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ صدر ٹرمپ کا یہ بیان سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سیپری) کے اعداد و شمار سے مختلف ہے۔
سیپری کے مطابق روس کے پاس سب سے زیادہ 5,459 جوہری ہتھیار ہیں اور امریکہ کے پاس5,177 اور چین کے پاس 600 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
دوسرے تھنک ٹینکس کے اعدادوشمار بھی کم و بیش ایسے ہی ہیں۔
روس نے حال ہی میں جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کے نئے نظام کا تجربہ کیا تھا۔
کریملن کا کہنا تھا کہ اُن کا ایک میزائل امریکی دفاعی حدود میں داخل ہو سکتا ہے جبکہ دوسرا زیر زمین امریکی ساحل تک جا سکتا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کا یہ اقدام صدر ٹرمپ کے اعلان کی وجہ بنا حالانکہ روس نے کہا ہے کہ اس کے تجربات ’جوہری نہیں تھے۔‘
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ چین کو انتہائی قریب سے دیکھ رہا ہے اور اُسے تشویش ہے کہ کہیں وہ اس کے قریب نہ پہنچ جائے، یہ صورتحال امریکہ کے لیے ’دو طرفہ جوہری خطرہ‘ پیدا کرے گا۔
امریکی جوہری تجربات کے دوبارہ آغاز سے چین اور روس کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب ملے گی۔
امریکہ کے اعلان کے جواب میں چین کا کہنا ہے کہ انھیں اُمید ہے کہ امریکہ جوہری تجربات پر پابندی کے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا اور جوہری تجربات کو معطل کرنے کے وعدے کی پاسداری کرے گا۔
واشنگٹن کے آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیرل کیمبل کا کہنا ہے کہ امریکہ کا جوہری ہتھیاروں کے تجربے کا دوبارہ آغاز ’تاریخی بین الاقوامی سلامتی کے لحاظ سے تاریخی غلطی ہو گی۔‘
اُنھوں نے کہا کہ جوہری لڑائی کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، ’جب تک امریکہ اور روس کے مابین جوہری ہتھیاروں کو روکنے یا محدود کرنے پر کوئی بات چیت نہیں ہوتی اُس وقت تک ہمیں چین امریکہ اور روس کی جانب سے خطرناک تین طرفہہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔‘
فیڈریشن آف امریکی سائنٹیسٹمیں جوہری معلومات کے شعبے کے ڈائریکٹر ہنس کریسٹینسن کا کہنا ہے کہ یہ بات ایک عام آدمی کے لیے پریشان کُن ہے کیونکہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران جوہری ہتھیاروں کے خطرات بڑھے ہیں۔
امریکہ نے آخری بار سنہ 1992 میں جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ یہ تجربہ ریاست نیوڈا میں زیر زمین کیا گیا تھا۔
تجزیہ کار کیمبل کے مطابق نیوڈا کی سائٹ کو جوہری ٹیسٹ کے لیے دوبارہ تیار کرنے میں امریکہ کو کم سے کم 36 مہینے درکار ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اس وقت اپنے جوہری ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے لیے کمپیوٹر سمولیشنز اور دیگر غیر دھماکہ خیز ذرائع استعمال کرتا ہے، اس لیے امریکہ کے پاس دھماکہ کرنے کا کوئی عملی جواز نہیں ہے۔
تجزیہ کار وانگ کا کہنا ہے کہ زیر زمین جوہر ٹیسٹ کے بھی کئی چیلنجز ہیں کیونکہ آپ کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ زمین کے اوپر تابکاری کے اثرات تو نہیں آ رہے ہیں یا زیر زمین پانی آلودہ تو نہیں ہوا۔
قدامت پسند امریکی تھینک ٹینک دی ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ریسرچ فیلو رابرٹ پیٹرز نے کہا کہ اگرچہ جنگی سازوسامان کی ٹیسیٹکوئی سائنسی یا تکنیکی وجہ نہیں ہوسکتی ہےلیکن اُن کے بقول اس کی ’بنیادی وجہ مخالفین کو سیاسی پیغام دینا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کبھی صدر کے لیے یہ ضروری ہو سکتا ہے، وہ اپنے طاقت دکھانے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے تجربے کریں۔ چاہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہوں یا کوئی اور۔‘
انھوں نے اصرار کیا کہ ٹیسٹ کے لیے تیار رہنا ’کوئی غیر معقول پوزیشن نہیں ہے۔‘
دوسری جانب کئی دوسری ماہرین اسے موجودہ صورتحال میں انتہائی سنگین قرار دے رہے ہیں۔
امریکہ نے 1945 میں پہلی بار جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا۔
اسی سال اگست میں دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکہ نے جاپان کے شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی، پر دو ایٹم بم گرائے اور وہ دنیا کا واحد ملک بن گیا جس نے جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال بھی کیے ہیں۔
کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان دنیا کے سب سے خطرناک آدمی تھے؟’دشمن کو ڈرانے کے لیے‘ امریکہ کے بعد دنیا میں کن ممالک نے جوہری ہتھیار حاصل کیے اور کون اس دوڑ سے دستبردار ہواپینٹاگون نے جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے کیسے ’ٹاپ سیکرٹ‘ پروازوں کے ذریعے دنیا کی نظریں ایران سے ہٹا کر ایک جزیرے پر مرکوز کروا دیں’قیمتی‘ معدنیات، ایف 35 طیارے اور جدید ہتھیار: امریکہ کی وہ کمزوری جو تجارتی جنگ میں چین کو سبقت دلا سکتی ہےاسرائیل: مشرقِ وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت جو ’جوہری ابہام‘ کی پالیسی کے ذریعے دہرا فائدہ حاصل کر رہی ہے