نتن یاہو کی مشکل، حماس کی خواہش اور ٹرمپ کا دباؤ: 7 اکتوبر حملے کے دو سال بعد کیا غزہ میں جنگ ختم ہونے والی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Oct 08, 2025

AFP via Getty Imagesاسرائیلی مسلح افواج یا آئی ڈی ایف میں لاکھوں فوجی کئی مہینوں کے بعد اب یونیفارم اتار کر اپنی زندگی میں واپس آنا چاہتے ہیں

غزہ میں جنگ کے دو سال بعد ایک ایسے معاہدے کا امکان ہے جو غزہ میں قتل و غارت گری اور تباہی کا کا خاتمہ کرے گا اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنا سکے گا۔ اس عرصے میں جو یرغمالی مر گئے ہیں ان کی لاشیں واپس اسرائیل لائی جا سکیں گی۔

یہ ایک موقع تو ہے مگر یہ یقینی نہیں ہے کہ حماس اور اسرائیل اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

یہ محض ایک اتفاق ہے کہ یہ مذاکرات حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے کے ٹھیک دو سال بعد ہونے جا رہے ہیں۔

7 اکتوبر کے حملوں میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر اسرائیلی شہری تھے اور 251 شہریوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیلیوں کا اندازہ ہے کہ 20 یرغمالی اب بھی زندہ ہیں۔ وہ مر جانے والے باقی 28 یرغمالیوں کی لاشوں کی واپسی چاہتے ہیں۔

اسرائیل کی طرف سے جوابی تباہ کن جنگ کے نتیجے میں غزہ کا بیشتر حصہ تباہ ہو گیا ہے اور 66,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں اور اس میں 18,000 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔

یہ اعداد و شمار حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں۔ اس وزارت کے اعدادوشمار کو عام طور پر قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ لندن میں مقیم طبی جریدے دی لانسیٹ میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ تعداد بھی صحیح تعداد سے بہت کم ہے۔

Reutersاسرائیل کی طرف سے جوابی تباہ کن جنگ کے نتیجے میں غزہ کا بیشتر حصہ تباہ ہو گیا ہے

اسرائیلی اور فلسطینی دونوں ہی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

اسرائیلی جنگ سے تھک چکے ہیں اور سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اکثریت ایک ایسا معاہدہ چاہتی ہے جس سے یرغمالیوں کی واپس ممکن بنائی جا سکے اور جنگ کا خاتمہ ممکن ہو۔ اسرائیلی مسلح افواج یا آئی ڈی ایف میں لاکھوں فوجی کئی مہینوں کے بعد اب یونیفارم اتار کر اپنی زندگی میں واپس آنا چاہتے ہیں۔

غزہ میں 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی ایک انسانی تباہی کا شکار ہیں، جو آئی ڈی ایف کی شدید بمباری اور بھوک کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں اور بعض علاقوں میں انسانی ساختہ قحط اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے والی امداد پر پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

اب حماس کی بھی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اتنی طاقتور نہیں رہی جتنی دو سال قبل تھی جب اس نے اسرائیل پر قوت سے حملہ کر دیا تھا۔

اب یہ ایک شہری گوریلا فورس بن گئی ہے جو کھنڈرات میں آئی ڈی ایف کے خلاف لڑ رہی ہے۔

حماس اپنی بقا کا راستہ تلاش کرنا چاہتی ہے اگرچہ اس نے فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے لیے اقتدار چھوڑنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ حماس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اسے اپنے بھاری ہتھیاروں میں سے جو بچا ہے واپس کرنا پڑے گا یا اسے ختم کرنا پڑے گا، لیکن وہ فلسطینیوں کے خلاف اپنے دفاع کے لیے کافی ’فائر پاور‘ رکھنا چاہتی ہے جو تقریباً دو دہائیوں کی ظالمانہ حکمرانی اور حماس کے حملوں کی تباہی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔

حماس یہ بات عوامی سطح پر نہیں کہہ رہی ہے مگر یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کے ابھی بھی پیروکار ہیں اور ایک منشور ہے جو اسرائیل کی تباہی چاہتا ہے۔ حماس ابھی بھی دوبارہ منظم ہو کر اسلامی مزاحمی تحریک کے طور پر ابھرنا چاہتی ہے۔

Anadolu via Getty Images

اسرائیل حماس کے ہتھیار ڈالنے کی شرائط پر عملدرآمد کا متمنی ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حماس کے پاس سنجیدہ مذاکرات کا موقع اس کے لیے اس سے کہیں زیادہ امکانات پیدا کر رہا ہے جس کا امکان صرف ایک ماہ قبل نظر آرہا تھا۔

واضح رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب اسرائیل نے دوحہ میں ایک عمارت پر، جہاں حماس کے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پیش کی گئیں امن کی تجاویز پر تبادلہ خیال کر رہے تھے، حملہ کر کے حماس کی قیادت کو مارنے کی ناکام کوشش کی۔

اسرائیل کے اصل ہدف حماس کے سینیئر رہنما خلیل الحیہ تھے، جو اب مصر کے شہر شرم الشیخ کے بحیرہ احمر میں ہونے والے مذاکرات میں حماس کے وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ مرنے والوں میں خلیل الحیہ کے بیٹے بھی شامل تھے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے ذہن میں بقا کا ایک مختلف خیال ہے۔ وہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، بدعنوانی کے لیے اپنے مقدمے کی سماعت ملتوی کرانا چاہتے ہیں۔

وہ اگلے سال ہونے والے انتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔ اور وہ ایک ایسے رہنما کے طور پر نہیں جانا چاہتے کہ جنھیں سکیورٹی کی سنگین غلطیوں کا مرتکب ٹھہرایا جائے، جو نازی ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے سب سے مہلک دن کی وجہ بن گئیں تھیں۔

نتن یاہو کو ’مکمل فتح‘ کا اعلان کرنے کے لیے ایک قابل اعتبار طریقہ درکار ہے۔ مکمل فتح کا لفظ اسرائیلی وزیراعظم متعدد بار استمال کر چکے ہیں۔ انھوں نے اسے یرغمالیوں کی واپسی، حماس کی تباہی اور غزہ کو مکمل غیر فوجی بنانے سے تعبیر کیا ہے۔

اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو ان کے لیے یہ کافی نہیں ہو گا کہ اسرائیل نے پچھلے دو سالوں میں لبنان اور ایران میں اپنے دشمنوں کو جو حقیقی طور پر نقصان پہنچایا ہے۔

حماس اور اسرائیلی مذاکرات کار آمنے سامنے نہیں بات کریں گے۔ مصری اور قطری حکام ثالث ہوں گے اور جو امریکی بھی ہوں گے اور شاید یہ فیصلہ کن کردار ہو گا۔

Getty Imagesحماس اور اسرائیلی مذاکرات کار آمنے سامنے نہیں بات کریں گے

مذاکرات کی بنیاد ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی غزہ امن منصوبہ ہے۔

اس معاہدے میں مغربی کنارےکے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ یہ اس خطے کا دوسرا حصہ ہے جسے برطانیہ سمیت دیگر ممالک نے فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

شرم الشیخ میں جاری مذاکرات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایک صدی سے زائد عرصے سے عربوں اور یہودیوں میں جاری تباہ کن اور خونریز جنگ کا خاتمہ کر سکے۔

پہلا چیلنج اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے فلسطینی قیدیوں اور گذشتہ دو برس سے بغیر کسی ٹرائل کے غزہ سے گرفتار کیے جانے والوں کے بدلے میں حماس کی حراست میں یرغمالیوں کی رہائی کی شرائط طے کرنا ہے۔

یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے۔

صدر ٹرمپ جلدی نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی بارگین کرنے والے یا ڈیل بروکر کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں اور اس کوشش میں سب سے اہم اور مرکزی نکتہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بحالی بھی شامل ہے۔

اب یہ ایسے میں تو ممکن نہیں ہے جب اسرائیل غزہ میں بہت بڑی تعداد میں شہریوں کو قتل کر رہا ہے اور انسانی امداد پر پابندیاں عائد کر رہا ہے جبکہ حماس کے زیر حراست اسرائیلی یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

سعودی عرب متعدد بار یہ موقف دے چکا ہے کہ یہ سب آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ٹرمپ نے نتن یاہو کو ایک ایسی دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا جس میں فلسطین کی آزادی سے متعلق ایک مبہم اور غیر واضح ذکر شامل ہے۔

اس کے بعد ایک بیان میں نیتن یاہو نے اپنے اس عہد کو دہراتے ہوئے کہ فلسطینیوں کو کبھی ریاست نہیں ملے گی اس پہلو کو نظر انداز کر دیا۔ ٹرمپ کے مجوزہ معاہدے میں ایسا بہت کچھ ہے جو اسرائیل حماس کی طاقت کے خاتمے اور غزہ کی مستقبل کی حکمرانی کے حوالے سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔

لیکن نیتن یاہو کو اوول آفس میں اپنا راستہ خود اختیار کرنے کی عادت رہی ہے۔ اس کے بجائے ٹرمپ نے انھیں مجبور کیا کہ وہ قطر کے وزیر اعظم سے فضائی حملے پر باضابطہ معافی نامہ پڑھیں۔

حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان: کیا اس سے مسئلہ فلسطین حل ہونے کا امکان ہے؟’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟ٹرمپ کی دوستی اور نتن یاہو کی مشکل: امن معاہدے سے جان چھڑانا اسرائیلی وزیراعظم کو کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟

ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ کا نیا نقشہ مرتب کرنے کے اپنے عزائم کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے قطر کی ضرورت ہے۔

ایک سوال یہ ہے کہ حماس اسرائیل کے غزہ سے نکلنے اور جنگ ختم کرنے کے لیے سخت ٹائم ٹیبل کے بغیر یرغمالیوں کو چھوڑنے کے لیے کیوں تیار ہے۔

ایک امکان یہ ہے کہ قطریوں نے انھیں قائل کیا ہے کہ ٹرمپ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اگر وہ انھیں اسرائیل کے تمام یرغمالوں کو واپس بھیج کر فتح کا دعویٰ کرنے کا موقع دیں گے۔

اس کے باوجود ٹرمپ اب بھی ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں جو نیتن یاہو اسرائیلیوں کو سنانا چاہتے ہیں، جیسا کہ حماس کو دی جانے والی سخت دھمکی اگر انھوں نے معاہدے کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے کہا کہا اگر ایسا ہوا تو پھر اسرائیل کو حماس کو تباہ کرنے کے لیے آگے بڑھنے کے لیے ’میری مکمل حمایت‘ حاصل ہو گی۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ اگر حماس سنجیدہ ہے تو اس پر کام کرنے میں صرف چند دن لگیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بس نتائج حاصل کرنے میں کچھ زیادہ وقت لگے گا جس کے لیے ایک تفصیلی معاہدے کی ضرورت ہوگی۔ اب تک ان کے پاس صرف ٹرمپ کا فریم ورک ہے۔

اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان طویل اور حل نہ ہونے والے تنازع کے دو سال بعد یہ قتل عام ختم کرنا اور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ایک بڑا چیلنج ہے۔

اس میں بہت پیشہ ور سفارت کاری کی ضرورت ہوگی، جس سے متعلق ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے میں بہت کم ہی کچھ تفصیلات درج ہیں۔ اس مقصد کے لیے مناسب الفاظ تلاش کرنے کی کوشش کرنا ہو گی جس سے ممکنہ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے خلا کو پُر کرنے کا موقع ملے گا۔

AFP via Getty Imagesٹرمپ اب بھی ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں جو نیتن یاہو اسرائیلیوں کو سنانا چاہتے ہیں

ڈیل کی اپنی صلاحیت کے بارے میں خود ٹرمپ سے زیادہ اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔ وہ کئی جنگوں سے متعلق فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔ وہ جتنی جنگیں ختم کرانے سے متعلق دعوے کرتے ہیں ان کی صحیح گنتی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کیسے ان کی تفصیلات بتاتے ہیں۔

سب سے زیادہ بدنامی کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے ایک دن کے اندر روس-یوکرین جنگ ختم نہیں کی، جیسا کہ انھوں نے پیش گوئی کی تھی۔ زندگی بھر رئیل سٹیٹ کے شعبے میں رہنے کے بعد ایک ہنر ٹرمپ کے پاس ہے، یہ ایک فطری جبلت ہے کہ وہ اپنی مرضی کے حصول کے لیے کس طرح دباؤ ڈالیں گے۔

مصر میں بالواسطہ مذاکرات اس لیے ہو رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ دونوں اطراف پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اگر حماس نے ان کے اس منصوبے میں شامل ہونے سے انکار کیا تو انھیں مٹا دینے کی دھمکی دینا آسان کام تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور صدور کلنٹن، اوباما اور بائیڈن کے درمیان ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں وہ بنیامین نتن یاہو کے کسی داؤ میں آنے کے بجائے ان پر زیادہ دباؤ ڈالنے کی فیصلہ کن اہلیت رکھتے ہیں۔

ٹرمپ نے حماس کی فیصلہ کن ’ہاں لیکن‘ کو امن کے لیے ٹھوس یا فیصلہ کن ہاں قرار دیا۔ ان کے لیے یہ کافی تھا کہ وہ دوسرے فریق پر دباؤ بڑھا دیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایگزیوس کے مطابق جب نتن یاہو نے ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ حماس وقت حاصل کرنے کے لیے یہ سب کر رہا تو ٹرمپ کا جواب تھا کہ ’آپ ۔۔۔ اتنے زیادہ منفی ہیں‘۔

اسرائیل امریکہ پر انحصار کرتا ہے۔ امریکہ اس جنگ میں مکمل شراکت دار رہا ہے۔ امریکی مدد کے بغیر اسرائیل اتنی بے رحم اور بہت طاقت کے ساتھ غزہ پر حملہ نہیں کر سکتا تھا۔ اسرائیل کو زیادہ تر ہتھیار امریکہ فراہم کرتا ہے، سیاسی اور سفارتی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد قراردادوں کو ویٹو کرتا ہے جن کا مقصد اسرائیل کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے لیے اپنے منصوبوں کو سب سے پہلے رکھتے ہیں اور اسرائیل پر امریکہ کی پوشیدہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نتن یاہو کو اپنی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کیا، ایسا کم از کم مذاکرات کا حصہ بننے سے متعلق تو یہ بات عیاں ہوئی ہے۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا یہ دباؤ برقرار رہتا ہے۔ یا ٹرمپ اپنا ذہن بدل لیں گے۔

حماس اور اسرائیلی وفود میں طاقتور ناقدین ہیں جو جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ حماس کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ غزہ میں موجود فوجی کمانڈر آخری وقت تک اس کا مقابلہ کرنے اور زیادہ سے زیادہ اسرائیلیوں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار ہیں۔

بنیامین نتن یاہو کا اتحاد انتہائی قوم پرست انتہا پسندوں کی حمایت پر انحصار کرتا ہے جو سمجھتے تھے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو نکالنے اور ان کی جگہ یہودی آباد کاروں کو شامل کرنے کے اپنے خواب کی تکمیل کے قریب ہیں۔

اگر مصر میں مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو دونوں اختتامی منظرناموں کے امکان بڑھ جائیں گے۔

حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟’عرب عوام عراق کو نہیں بھولے‘: کیا سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر غزہ کا انتظام سنبھال سکتے ہیں؟سات اکتوبر حملوں کے بعد ایک یہودی خاندان نے اسرائیل منتقل ہونے کا فیصلہ کیا، لیکن دوسرا اسے چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوا؟مصر کا تلخ لہجہ اور صحرائے سینا میں فوجیوں کی تعیناتی: اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک اسے ’دشمن‘ کیوں قرار دے رہا ہے؟ٹرمپ کی دوستی اور نتن یاہو کی مشکل: امن معاہدے سے جان چھڑانا اسرائیلی وزیراعظم کو کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More