’افغان ڈیلر، بھاری معاوضہ اور ایڈوانس ادائیگی‘: بلوچستان میں پوست کی کاشت میں بے تحاشہ اضافہ کیوں ہوا؟

بی بی سی اردو  |  Oct 08, 2025

Getty Imagesبلوچستان کے ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق ’جب منافع بہت زیادہ ہو اورنقصان کا اندیشہ کم، تو پوست کی کاشت کے رحجان میں اضافہ تو ہو گا‘ (علامتی تصویر)

’بلوچستان میں پوست کی کاشت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ مقامی کاشتکاروں کو افغانستان سے تعلق رکھنے والے ڈیلرز کی جانب سے بھاری رقوم کی پیشکش ہے۔ پوست کے کاروبار سے وابستہ بڑے افغان ڈیلر ناصرف مقامی زمینداروں کو زمین کے عوض بھاری رقوم کی پیشکش کرتے ہیں بلکہ وہ اُس زمین پر ہونے والی تمام پیدوار کی ادائیگی بھی ایڈوانس میں ہی کر دیتے ہیں۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار کا۔ چونکہ انھیں اس معاملے پر میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کے اس سوال کا جواب دیا کہ آخر بلوچستان کے مقامی کاشتکار اپنی زمین پوست کی کاشت کے لیے کیوں فراہم کر رہے ہیں۔

سینیئر عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسی صورتحال میں یہ ناصرف بہت زیادہ منافع بخش کام بن جاتا ہے بلکہ مقامی کاشتکاروں کو بڑی تعداد میں افغانستان سے آنے والے ایسے افراد بھی میسر آتے ہیں جو پوست کی کاشت کی باریکیوں سے واقف ہیں بلکہ اس سے وہ مطلوبہ مواد حاصل کرنے کے بھی ماہر ہیں جو کہ ہیروئن کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جب منافع بہت زیادہ ہو اورنقصان کا اندیشہ کم ہو تو پھر پوست کی کاشت کے رحجان میں اضافہ تو ہو گا۔‘

یاد رہے کہ رواں برس پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ماضی کے مقابلے میں پوست کی کاشت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور ماہرین اس کی بڑی وجہ یہ بتاتے ہیں افغانستان میں چونکہ طالبان کی عبوری حکومت نے پوست کی کاشت پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جس پر سختی سے عمل ہوتا ہے، اس لیے اب اس کاروبار سے وابستہ ڈیلرز اس کام کے لیے بڑے پیمانے پر بلوچستان کا رُخ کر رہے ہیں۔

بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پوست کی کاشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف ناصرف ایکشن لے رہی ہے اور پوست کی فصلوں کو تباہ کر رہی ہے بلکہ اس ضمن میں قانون سازی بھی زیر غور ہے جس کے تحت ایسے افراد کی زمینیں بحق سرکار ضبط کر لی جائیں گی جو پوست کی کاشت کے لیے زمینیں فراہم کرتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی حالیہ دنوں میں کہا ہے کہ پاکستان کو دستیاب ’پوست سے پاک سٹیٹس برقرار رکھا جائے گا اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا، چاہے اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔‘ اس کے علاوہ بلوچستان میں حکام نے مبینہ طور پر پوست کی کاشت کے کام میں ملوث درجنوں افغان شہریوں کو گرفتار کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

اس رپورٹ میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ بلوچستان میں کن علاقوں اور کتنے رقبے پر پوست کاشت ہو رہی ہے؟ بلوچستان میں پوست کی کاشت میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟ اور حکومت اس کے خلاف کس نوعیت کے اقدامات اٹھا رہی ہے؟

BBCرواں برس پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ماضی کے مقابلے میں پوست کی کاشت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے مطابق سنہ 2025 کے ابتدائی آٹھ ماہ میں ریکارڈ36109 ایکڑ پر پوست کی کاشت کو تلف کیا جا چکا ہےبلوچستان میں کن علاقوں اور کتنے رقبے پر پوست کاشت ہو رہی ہے؟

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے گذشتہ دنوں صوبائی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اس حوالے سے کچھ اعداد و شمار سامنے رکھے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان میں پوست کی کاشت کےخلاف کوئی خاطرخواہ کارروائی نہیں کی۔ اُن کے مطابق سنہ 2022 میں حکام نے بلوچستان کی 628 ایکڑ اراضی پر پوست کی کاشت کی نشاندہی کی مگر اس میں سے صرف 328 ایکڑ اراضی پر کاشت کردہ پوست کو تلف کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سنہ 2024 میں 1275 ایکڑ اراضی پر پوست کی کاشت کی نشاندہی ہوئی مگر صرف 715 ایکڑ لگی پوست کی کاشت کو تلف کیا گیا۔

وزیر اعلیٰ کے مطابق سنہ 2025 کے ابتدائی آٹھ ماہ میں ریکارڈ36109 ایکڑ پر پوست کی کاشت کو تلف کیا جا چکا ہے۔تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس دورانیے میں مجموعی طور پر کتنے رقبے پر پوست کی کاشت کی نشاندہی ہوئی ہے۔

سرکاری حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رواں برس میں اتنی بڑی مقدار میں پوست کی کاشت کو تلف کرنے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں بلوچستان میں پوست کی کاشت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق یہ محض وہ اعداد و شمار ہیں جو حکومت کے علم میں ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں بلوچستان زیادہ تر ان اضلاع میں یہ مسئلہ درپیش تھا جن کی سرحدیں براہ راست افغانستان کے ساتھ ہیں تاہم اس سال سرحد سے بہت دور کے اضلاغ میں بھی پوست کی کاشت کی نشاندہی ہوئی ہے۔

ان کے مطابق قلعہ عبداللہ، چمن، پشین، ژوب، قلعہ سیف اللہ، چاغی اور کوہلو میں بھی پوست کی کاشت کی نشاندہی اور اس کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔

اس معاملے پر بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’مجھے مان لینے دیں کہ بلوچستان میں پوست کی کاشت اس سال بہت زیادہ ہوئی ہے، لیکن اسی حساب سے ایکشن بھی کیا گیا ہے۔‘

گذشتہ دنوں اسمبلی میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان کے ایک انچ پر بھی پوست کی کاشت نہیں ہونے دی جائے گی۔ پاکستان کو جو پوست سے پاک سٹیٹس ملا ہوا اس پر ہم کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ چاہے اس کے لیے ہمیں کوئی قربانی دینی پڑی یا وسائل استعمال کرنے پڑیں۔‘

بلوچستان میں پنجاب کے مسافروں کا قتل: ’ایک گھر سے بیک وقت تین جنازوں کے اٹھنے کا صدمہ بیان نہیں کیا جاسکتا‘بلوچستان وائرل ویڈیو میں قتل ہونے والی خاتون کی والدہ گرفتار، دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالےبلوچستان میں بدامنی اور شورش جس کی پیش گوئی نواب اکبر بگٹی نے اپنی ہلاکت سے قبل کر دی تھیجعفر ایکسپریس میں سوار مسافروں نے کیا دیکھا: ’دھماکے کے بعد بوگیوں میں اندھیرا چھا گیا‘BBC(فائل فوٹو) قلعہ عبداللہ، چمن، پشین، ژوب، قلعہ سیف اللہ، چاغی اور کوہلو میں بھی پوست کی کاشت کی نشاندہی اور اس کے خلاف کارروائی ہوئی ہےبلوچستان میں پوست کی کاشت میں اضافہ کیوں ہوا؟

صحافی و سینیئر تجزیہ کار سلیم شاہد کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک دنیا بھر میں پوست کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز افغانستان تھا۔ اُن کے مطابق طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پوست کی کاشت پر پابندی عائد کی گئی جس کے بعد اس کی پیداوار بہت زیادہ متاثر ہوئی اور اسی وجہ سے اس کام سے منسلک افراد نے بلوچستان کا رُخ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کاشت میں منافع بہت زیادہ ہے۔ ’بلوچستان میں بعض علاقوں میں تو لوگوں نے اپنی اراضی کے گرد بڑی بڑی چار دیواری کروا کر یہ کام شروع کیا تاکہ وہ حکام کی نظروں میں نہ آ سکیں۔‘

افغانستان میں اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان نے اپریل 2022 میں پوست کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی۔ طالبان کے امیر ہبت اللہ اخونزادہ نے کہا تھا کہ ’جو بھی اس پابندی کی خلاف ورزی کرے گا اس کے کھیتوں کو تباہ کر دیا جائے اور اسے شریعت کے مطابق سزا بھی دی جائے گی۔‘

طالبان کا کہنا تھا کہ یہ پابندی اس لیے لگائی جا رہی ہے کیونکہ پوست ایک نقصان دہ شے ہے اور مذہب میں بھی اس کے استعمال کی ممانعت ہے۔

افغانستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے طالبان کی پوست کی کاشت پر پابندی پر عمل کیا ہے اور اس سے افیون کی عالمی سپلائی چین متاثر ہوئی ہے۔

یونائیٹڈ نیشنز آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم (یو این ڈی سی) کے مطابق سنہ 2022 کے مقابلے میں گذشتہ برس (2024) عالمی سطح پر افیون کی پیداوار میں 72 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سنہ 2019 سے 2022 تک افیون کی سمگلنگ سے سالانہ ساڑھے 15 ارب ڈالر کمائے گئے تھے۔

BBCایک اندازے کے مطابق سنہ 2019 سے 2022 تک افیون کی سمگلنگ سے سالانہ ساڑھے 15 ارب ڈالر کمائے گئے تھے

افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی سے قبل دنیا بھر میں استعمال ہونے والی 80 فیصد افیون کی پیداوار افغانستان میں ہوتی تھی۔ یو این ڈی سی کی رپورٹ کے مطابق اب افغانستان میں افیون کی پیداوار 95 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سنہ 2023 سے پہلے تک افغانستان میں افیون کا جو ذخیرہ تھا وہ سنہ 2026 تک کی عالمی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے کافی تھا۔

تاہم أفغانستان میں پوست پر پابندی کے بعد افیون کی قیمت اب 10 گُنا بڑھ گئی ہے۔ یو این ڈی سی کے مطابق افغانستان اور اس کے کچھ پڑوسی ممالک میں ہیروئن کی قیمت میں تین گُنا اضافہ ہو گیا ہے۔ افغانستان میں نیٹو اور امریکی فورسز کی موجودگی میں اور طالبان کی اقتدار میں آمد سے قبل لاکھوں ڈالر پوست کی کاشت پر خرچ ہوتے تھے۔

بلوچستان کے ماہرین کے مطابق شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کاشتکار پوست کی کاشت کا رسک لے رہے ہیں اور اب اس کام سے منسلک أفغان ڈیلر مقامی کاشتکار کو بڑی پیشکش دے کر اس کام کی جانب راغب کر رہے ہیں۔

سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ بلوچستان کے چند سرحدی اضلاع میں پوست کی کاشت کا آغاز 15، 20 سال پہلے ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ یہ زیادہ منافع بخش تھا اس لیے لوگوں نے اپنے باغات کے درمیان سے درختوں کو کاٹ کر اس کی کاشت شروع کی تاکہ یہ باہر سے کسی کو نظر نہ آئے۔

انھوں نے کہا کہ ’طالبان نے بھی افغانستان میں پوست پر پابندی لگائی ہے جس پر عمل ہو رہا ہے۔ یہ بلوچستان میں پوست کی کاشت میں اضافے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن میرے خیال میں ایک اور وجہ یہ ہے کہ پوست کسی بھی دوسری فصل کے مقابلے میں بہت زیادہ منافع بخش ہے۔‘

ان أمور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی سید علی شاہ کہتے ہیں کہ أفغانستان میں پابندی کے بعد ان افراد نے بلوچستان کا رُخ کیا جو اس فصل کی کاشت اور اس سے مواو حاصل کے ماہر ہیں۔ ’اگر کوئی گندم یا کوئی دوسری فصل کاشت کرتا ہے تو اس میں ناصرف منافع بہت زیادہ ہے بلکہ اس کے خریدنے والے بھی بہت جلد ملتے ہیں۔‘

BBCیو این ڈی سی کی رپورٹ کے مطابق اب افغانستان میں افیون کی پیداوار 95 فیصد تک کم ہو گئی ہےحکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے حالیہ دنوں میں صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ یہ کام وفاقی حکومت کا ہے مگر صوبائی حکومت معاونت کرنے کے اپنے کردار سے دو قدم آگے بڑھ کر نہ صرف معاونت فراہم کرے گی بلکہ ایکشن لے گی کیونکہ یہ ہمارے ملک کی بدنامی کا مسئلہ ہے جس کی صورت ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں پوست کی فصل اُگانے والے کاشتکاروں سے بھی کہنا چاہتا ہوں، جو افغانستان سے آ کر یہ کام کرتے ہیں، اُن کے سہولت کاروں کو بھی کہتا ہوں، اور جو لوگ اپنی زمین پوست کی کاشت کے لیے دے رہے ہیں: ہم یہاں قانون لے کر آ رہے ہیں جس کے تحت ہم نہ صرف پوست کی کاشت کرنے والوں کو سزائیں دیں گے بلکہ زمین کے مالکان کو بھی سزائیں دیں گی جنھوں نے اپنی زمینیں فراہم کیں، اُن کی زمینیں ضبط کی جائیں گی۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، میں اس کام میں ملوث تمام افراد کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کے پیچھے آ رہے ہیں، یہ سب مت کریں۔ پیسوں کے لالچ میں اپنی ریاست کو کمزور مت کریں، ایسا کریں گے تو ریاست آپ سے سختی سے نمٹے گی اور آپ کا نقصان ہو گا۔ بلوچستان کے لوگ اس دھندے میں مت پڑیں۔‘

بلوچستان میں حکام نے پوست کی کاشت کو تلف کرنے کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ ہے کہ اس میں مبینہ طور پر ملوث بڑی تعداد میں افغان شہریوں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے۔

کوہلو میں لیویز فورس کے رسالدار میجر شیر محمد مری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے علاقے میں ناصرف بڑے پیمانے پر پوست کی کاشت تباہ کی گئی ہے بلکہ اس کام میں ملوث 55 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے 53 افغان شہری ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس سے قبل کوہلو کے ایک اور علاقے میں 80 ایکڑ اراضی پر پوست کی کاشت کو تباہ کر کے پانچ افغان باشندوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ضلع کوہلو کے سابق ڈپٹی کمشنر عقیل بلوچ کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے افغان باشندے مبینہ طور پر پوست کی کاشت کے لیے بلوچستان میں یہاں غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔

پوست کی کاشت ضلع لورالائی میں بھی ہوئی ہے۔

ایک سرکاری اعلامیہ کے مطابق محکمہ مال نے ڈپٹی کمشنر لورالائی کو پوست کی کاشت کرنے والی اراضی کے مالکان کی جو فہرست فراہم کی تھی اس کے مطابق ضلع کی تین تحصیلوں لورالائی، بوری اور میختر کے علاقوں میں ساڑھے چار ہزار ایکڑ پر پوست کی کاشت کی نشاندہی ہوئی۔ اعلامیے کے مطابق پوست کی کاشت کرنے والے زمینداروں کی تعداد 800 کے قریب تھی جن کو کاشت کو تلف کرنے کے لیے نوٹسز جاری کیےگئے۔

لورالائی سے متصل ضلع دُکی کے ایک افسر کے مطابق ضلع میں پوست کی کاشت کے لیے استعمال ہونے والی مشینری کو تباہ کرنے کے علاوہ، اس کام میں ملوث 75 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 62 کا تعلق افغانستان سے تھا اور ان کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت کاروائی کی گئی۔

حکام کی جانب سے لورالائی ڈویژن کے تیسرے ضلع موسیٰ خیل میں بھی پوست کی کاشت کے خلاف کارروائی کے دوران سات افغان باشندون کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

کوئٹہ ڈویژن اور لورالائی ڈویژن کے اضلاع کی نسبت قلات ڈویژن کے اضلاع افغانستان کی سرحد سے کئی سو کلومیٹر دور ہیں لیکن سرکاری حکام کےمطابق اس مرتبہ وہاں بھی ماضی کے مقابلے میں پوست کی کاشت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

قلات ڈویژن میں انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قلات ڈویژن کے چھ اضلاع میں سے خضدار، قلات،سوراب اورمستونگ میں پوست کی کاشت کی نشاندہی ہوئی اوراس کے خلاف کارروائی کی گئی۔

بلوچستان میں پوست کی کاشت کو روکنے کے لیے اس کے بیج کی نقل وحمل اور خرید و فروخت پر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے۔ یکم اکتوبر کو محکمہ داخلہ و قبائلی أمور بلوچستان کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ فیصلہ اس اطلاع کی بنیاد پر کیا گیا کہ بلوچستان میں پوست کی کاشت کےلیے اس کی بیج کی ٹرانسپورٹیشن اور خرید وفروخت ہو رہی ہے۔

بلوچستان میں بدامنی اور شورش جس کی پیش گوئی نواب اکبر بگٹی نے اپنی ہلاکت سے قبل کر دی تھیجعفر ایکسپریس میں سوار مسافروں نے کیا دیکھا: ’دھماکے کے بعد بوگیوں میں اندھیرا چھا گیا‘بلوچستان وائرل ویڈیو میں قتل ہونے والی خاتون کی والدہ گرفتار، دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے’دہشتگردوں کے ساتھ سیلفی بنانا جرم ہے‘: حکومتِ بلوچستان کو یہ اشتہار دینے کی ضرورت کیوں پڑی؟بلوچستان میں پنجاب کے مسافروں کا قتل: ’ایک گھر سے بیک وقت تین جنازوں کے اٹھنے کا صدمہ بیان نہیں کیا جاسکتا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More