Getty Images
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اس مرتبہ جب سعودی عرب کے دورے پر پہنچے تو بہت کچھ پہلے سے مختلف تھا۔ سعودی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی ان کے طیارے کو سعودی جنگی طیاروں نے حفاظتی حصار میں لے لیا، ان کے لیے سرخ قالین بچھایا گیا اور انھیں مکمل شاہی استقبال سے نوازا گیا۔
اس پس منظر میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ’باہمی دفاع کا سٹریٹیجک معاہدہ‘ طے پایا جس کے تحت ’کسی ایک ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔‘
اس معاہدے کی آپریشنل تفصیلات تو اب تک منظرعام پر نہیں لائی گئیں تاہم معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد پاکستانی وزیراعظم اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے معاہدے کی کاپیاں ہاتھوں میں تھامیں اور بغل گیر ہو کر تصاویر بنوائیں۔
خیال رہے کہ جس روز یہ معاہدہ طے پایا اس کے چند ہی روز قبل اسرائیل نے سعودی عرب کے پڑوسی ملک قطر کے دارالحکومت میں ایک عمارت میں موجود حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا تھا۔
اس وقت تک قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے معاہدے کے لیے ہونے والی کوششوں میں ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا۔
زیادہ قابل ذکر یہ امر ہے کہ قطر مشرق وسطی میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے کی میزبانی بھی کرتا ہے۔
قطر بڑی تعداد میں امریکہ سے دفاعی سازوسامان اور ہتھیار بھی خریدتا ہے اور اپنے دفاع کے لیے امریکہ پر انحصار بھی کرتا تھا۔
جب ایران اور اسرائیل کی جنگ کے دوران ایران نے قطری خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قطر میں قائم امریکی فوجی اڈے پر میزائل داغے تھے تو انھیں فضا ہی میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس مرتبہ امریکہ انے اسرائیلی حملے کے خلاف قطر کو ایسا کوئی دفاع فراہم نہیں کیا۔
اپنے دفاع کے لیے امریکی معاونت پر انحصار کی حد تک سعودی عرب کی صورتحال بھی قطر سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ سعودی عرب دنیا میں امریکی اسلحے اور جنگی ساز و سامان کے چند بڑے خریداروں میں سے ایک ہے۔
سعودی عرب میں بھی امریکہ نے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں جن میں ’پرنس سلطان ایئر بیس‘ کا مستقل اڈہ شامل ہے جہاں امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ جدید امریکی جنگی ساز و سامان رکھتے ہوئے اور امریکہ کے ساتھ اچھے سفارتی اور دفاعی تعلقات ہوتے ہوئے سعودی عرب کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرے اور اس کی تشہیر کرنا بھی ضروری سمجھے؟
کیا اس کے پیچھے 9 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والا واقعہ ہے یا پھر سعودی عرب کی فوجی صلاحیت میں کوئی کمی موجود ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو یہ کمی کیا ہو سکتی ہے؟ایسے سوالوں کا جواب جاننے سے قبل سعودی عرب کی فوجی صلاحیت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
Getty Imagesجس روز پاکستان اور سعودی عرب میں یہ معاہدہ طے پایا اس سے چند ہی روز قبل اسرائیل نے سعودی عرب کے پڑوسی ملک قطر کے دارالحکومت میں ایک عمارت میں موجود حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا تھاسعودی عرب کی فوجی طاقت کے اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟
دنیا بھر کے ممالک کی فوجی طاقت اور جنگی صلاحیت پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ گلوبل فائر پاور کے مطابق سعودی عرب کے پاس چار لاکھ سات ہزار فوجی ہیں جن میں سے 257000 فعال ہیں۔
تاہم ان میں اس کی بری افواج کے اہلکاروں کی تعداد 75000، فضائیہ کی تعداد 20000 اور نیوی 13500 ہے جبکہ باقی 150000 نیم فوجی اہلکار ہیں۔
گلوبل فائر پاور ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کے پاس 917 طیاروں کا سٹاک موجود ہے جن میں لگ بھگ 642 فعال حالت میں ہیں۔
یہ دنیا کے 145 ممالک میں سے 11ویں نمبر پر بڑی فضائی قوت ہے۔ ان میں 283 لڑاکا طیارے اور 81 اٹیک ٹائپ طیارے ہیں۔ لڑاکا طیارے فضا سے فضا میں جنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ اٹیک ٹائپ طیارے فضا سے زمین پر اہداف کو نشانہ بنانے اور بھاری گولا بارود داغنے کے کام آتے ہیں۔
گلوبل فائر پاور کے مطابق سعودی عرب کے پاس 840 ٹینک ہیں جن میں سے 588 تیاری کی حالت میں ہیں۔ یہ دنیا کے 145 ممالک میں 20 ویں نمبر پر سب سے بڑی تعداد ہے۔ ساتھ ہی اس کے پاس خود سے حرکت کرنے والے توپ خانے کی تعداد 332 جبکہ گاڑی سے کھینچے جانے والے توپ خانے کی تعداد 467 ہے۔
ملٹیپل لانچ راکٹ سسٹم یعنی ایم ایل آر ایس کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا کے 145 ممالک میں 12 ویں نمبر ہے اور اس کے پاس اس قسم کے راکٹ سسٹم کا سٹاک 321 ہے جن میں سے 225 تیاری کی حالت میں ہیں۔
ایم ایل آر ایس اس سسٹم کو کہا جاتا ہے جس میں ایک لانچر سے تھوڑے سے وقت میں کئی لانچرز فائر کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں کیا معنی رکھتا ہے؟پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ: کیا خطے میں ’طاقت کا توازن‘ تبدیل اور اسرائیلی اہداف متاثر ہوں گے؟قطر میں اسرائیلی حملے کے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اتحاد پر کیا اثرات پڑیں گے؟سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کو انڈیا کے لیے ’بڑا دھچکا‘ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟اعداد و شمار سے ہٹ کر سعودی عرب کی حقیقی فوجی صلاحیت کتنی ہے؟
مہران کامراوا قطر میں جیورج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر آف گورنمنٹ ہیں اور خطے میں بین الاقوامی امور کے ماہر ہیں۔
اس سوال پر کہ سعودی عرب کی حقیقی فوجی طاقت کتنی ہے اور خاص طور پر خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے اس کی فوجی صلاحیت کیسی ہے، پروفیسر مہران کامراوا کہتے ہیں کہ ’اس بارے ہمیں معلوم نہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں صحیح طور پر اس کا علم نہیں کہ سعودی عرب خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کتنی فوجی طاقت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ یمن میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا جب اس نے 2015 میں یمن پر حملہ کیا۔‘
تاہم ان کے خیال میں سعودی عرب کے فوجی صلاحیت میں ’طلب‘ کا عنصر موجود ہے اور وہ اس سطح پر نہیں جہاں سعودی عرب کی قیادت چاہتی ہے۔
’تمام تر فوجی ساز و سامان کی خریداری کے باوجود سعودی کی فوج اقرباپروری کا شکار ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے کمانڈرز سعودی عرب کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ میرٹ پر اپنے موجودہ عہدوں پر فائز اور پروموٹ نہیں کیے گئے بلکہ اپنے خاندانی تعلقات اور حکمران خاندان سے اپنی وفاداری کی وجہ سے کیے گئے ہیں۔‘
BBCاسرائیل کے موازنے میں سعودی فوجی قوت کہاں کھڑی ہے؟
پروفیسر مہران کامراوا کہتے ہیں کہ اسرائیل کو امریکہ کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اسرائیل کے پاس جدید ترین امریکی اسلحہ موجود ہے۔
’اور اس کے ہاں ذہنی رجحان ایسا ہے کہ اسرائیل کے پاس سیٹیزن سولجرز موجود ہیں۔ تو میرا نہیں خیال کہ سعودی اور اسرائیلی فوجی صلاحیتوں کا موازنہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ وہ مکمل طور پر دو الگ سطح پر ہیں۔‘
تاہم پروفیسر مہران کامراوا کہتے ہیں کہ حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب ایران کے مقابلے میں مقامی طور میزائل بنانے کے ایک مضبوط پروگرام پر کام کر رہا ہے اور ’خاص طور پر اس افادیت، ہدف کو صحیح نشانہ بنانے کی صلاحیت اور رینج کو سامنے رکھتے ہوئے جو ہم نے ان ایرانی میزائلوں پر دیکھی ہے جو اسرائیل کی طرف فائر کیے گئے تھے۔‘
تو ان کے خیال میں یہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں سعودی عرب ایک مضبوط فوجی قوت بن کر سامنے آئے لیکن ’تا وقت وہ اس مقام تک نہیں پہنچا۔‘
سعودی عرب پاکستان سے دفاعی معاہدہ کیوں چاہتا ہے؟
قطر میں جیورج ٹاون یونیورسٹی کے پروفیسر مہران کامراوا کے مطابق ’گزشتہ چند برسوں میں ہم نے یہ دیکھا ہے کہ سعودی عرب میں اپنے فوجی اتحاد، فوجی سپلائرز اور مقامی طور پر اسلحہ تیار کرنے کی انڈسٹری میں تنوع یا ڈائورسیفیکیشن لانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
’اور پاکستان ایک جوہری طاقت ہے اور خطے کی بڑی فوجی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ اس لیے سعودی عرب کے لیے یہ ایک فطری عمل ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ خاص طور پر اس لیے بھی طے پایا ہے کہ اس وقت خلیج فارس کی تمام تر ریاستوں کو یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ صرف امریکہ پر اپنی سکیورٹی کے لیے مکمل انحصار نہیں کر سکتے۔
’خاص طور پر دوحہ میں ہونے والے اس حالیہ اسرائیلی حملے کے بعد جو ہر طرح سے امریکہ کے علم میں لانے کے بعد کیا گیا۔‘
Getty Imagesسوال یہ ہے کہ جدید امریکی جنگی ساز و سامان رکھتے ہوئے اور امریکہ کے ساتھ اچھے سفارتی اور دفاعی تعلقات ہوتے ہوئے سعودی عرب کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرے؟امریکہ کی سکیورٹی چھتری کے ہوتے ایسا معاہدہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟
پروفیسر مہران کامراوا کا کہنا ہے کہ ’یہ بات درست ہے کہ گزشتہ لمبے عرصے سے سعودی عرب اپنی سکیورٹی کے لیے امریکہ کی چھتری استعمال کرتا رہا ہے اور اس سے اسلحہ بھی خریدتا رہا ہے تاہم سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ بھی تاریخی تعلقات ہیں۔‘
ان کے خیال میں پاکستان کے ساتھ اس موقع پر سعودی عرب کی طرف سے معاہدہ علامتی بھی ہے۔
’وہ امریکہ کو سگنلنگ کرنا چاہتا ہے یا دکھانا چاہتا ہے کہ اس کے پاس اپنی سکیورٹی یا فوجی اتحاد کے لیے اور بھی آپشنز موجود ہیں۔‘
قطر میں جیورج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر مہران کامراوا کے خیال میں اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور سعودی عرب کی طرز کے معاہدے خلیج فارسی کی دیگر ریاستوں کی طرف سے بھی سامنے آئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ معاہدے یورپی ممالک کے ساتھ بھی ہو سکتے اور ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں۔
’گو یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ امکان ضرور موجود ہے کہ جی سی سی کے دیگر ممالک بھی اسی طرز کے دفاعی معاہدے کریں اور جن ممالک کے ساتھ وہ یہ معاہدے کرنا چاہیں گے ان میں پاکستان بھی شامل ہو سکتا ہے۔‘
ان کے خیال میں یہ ریاستیں یورپی ممالک، جنوبی کوریا، ترقی یا پھر چین کے ساتھ بھی اس نوعیت کے معاہدے کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کو انڈیا کے لیے ’بڑا دھچکا‘ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں کیا معنی رکھتا ہے؟پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ: کیا خطے میں ’طاقت کا توازن‘ تبدیل اور اسرائیلی اہداف متاثر ہوں گے؟قطر میں اسرائیلی حملے کے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اتحاد پر کیا اثرات پڑیں گے؟کیا پاکستان واقعی ایسا میزائل بنا سکتا ہے جو امریکہ تک پہنچ جائے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تک