Getty Imagesعمران خان جی ایچ کیو حملہ کیس میں ملزم ہیں
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو منگل کو 9 مئی 2023 کو پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) پر حملے سے متعلق ایک مقدمے میں عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔
اس وقت کمرہ عدالت میں بیٹھے افراد کا گمان یہی تھا کہ شاید ماضی کی طرح اس بار بھی عمران خان اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے راولپنڈی کی انسدادِ دہشتگردی عدالت میں نصب کسی بڑی سکرین پر نمودار ہوں گے اور عدالتی سوالات کے جوابات دیں گے۔
لیکن ایسا نہ ہوسکا بلکہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو ایک موبائل فون پر واٹس ایپ ویڈیو کال کے ذریعے پیش کیا گیا۔
خیال رہے اس سے قبل سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹی قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں نیب آرڈیننس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران عمران خان کو اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کیا گیا تھا۔
9 مئی 2023 کو فوج کے ہیڈکوارٹر پر حملے سے متعلق کیس کی کوریج کرنے والے صحافی خالد چوہدری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ منگل کو سماعت کے دوران 'عمران خان کو اڈیالہ جیل سے واٹس ایپ کے ذریعے لیا گیا تھا اور یہ موبائل فون انسدادِ دہشتگردی کی عدالت کے جج کے عملے کے سامنے پڑا ہوا تھا۔'
عمران خان کے وکیل کا اعتراض
اس مقدمے میں عمران خان کے وکیل اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے اعتراض اٹھایا کہ جبعدالت نے اس مقدمے کا اوپن ٹرائل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو پھر تمام ملزمان کی طرح عمران خان کو بھی بنفسِ نفیس عدالت میں پیش ہونے دیا جائے۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کو ایک کال کوٹھری میں بند کرکے تنہا کرنے کی کوشش کی جارہی ہےجو کہ نہ صرف انسانی حقوق بلکہ ملکی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
Getty Imagesعمران خان راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں
عمران خان کے وکلا کی ٹیم میں شامل فیصل ملک نے عدالتی کارروائی کے حوالے سے بی بی سی اردو کو بتایا کہ انھوں نے عدالت میں جج کے سامنے کہا تھا کہ: 'یہ ویڈیو لنک ٹرائل نہیں، واٹس ایپ ٹرائل ہے۔'
اس کے علاوہ سلمان اکرم راجہ نے سماعت کے دوران کہا کہ اس معاملے کو ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کریں گے، جس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ججامجد علی شاہ نے کہا کہ عدالت انھیں ایسا کرنے سے نہیں روکے گی۔
جب خراب نیٹ ورک کے سبب عمران خان کی وکیل سے بات نہ ہو سکی
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج سے اپنے مؤکل سے بات کرنے کی استدعا کی جو کہ منظور کرلی گئی، تاہم نیٹ ورک بہتر نہ ہونے کے سبب سابق وزیر اعظم اپنے وکلا سے بات نہیں کر سکے۔عمران خان کے وکلا کی ٹیم میں شامل فیصل ملک ایڈووکیٹ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ واٹس ایپ کال کے دورانپراسیکیوشن کے آٹھ گواہان پیش کردیے گئے، جبکہ 'عمران خان نہ ہی ان کی آواز سن پا رہے تھے اور نہ ہی ان (عمران خان) کی آواز کمرہ عدالتمیں سنائی دے رہی تھی۔
انھوں نے مزہد کہا کہ 'جس موبائل فون پر واٹس ایپ کال چل رہی تھی اس موبائل کی سکرین جج صاحب کی جانبتھی، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان صرف جج صاحب کو ہی دیکھ رہے ہوں گے۔'
عمران خان کی بہن پر انڈہ پھینکنے کا واقعہ: ’سیاست میں اس طرح کے واقعات کی گنجائش نہیں ہے‘عمران خان کی میڈیکل رپورٹ: ’ورٹیگو‘ اور ’ٹائنائٹس‘ کیا ہوتا ہے؟شہریز خان: عمران خان کے ’بین الاقوامی ایتھلیٹ‘ بھانجے کو پولیس نے نو مئی کے دو برس بعد کیوں گرفتار کیا؟کارکنوں کے بھیس میں پولیس اہلکاروں کی ’خفیہ‘ میٹنگز میں شرکت: وہ سرکاری گواہ جن کے بیانات نو مئی مقدمات میں سزاؤں کی وجہ بنے
فیصل ملک کا کہنا تھا وکیل اور مؤکل کے درمیان کچھ باتیں سب کے سامنے نہیں کی جا سکتیں لیکن انھیں علیحدگی میں عمران خان سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
'عمران خان عدالتی کارروائی سے لاعلم تھے'
عدالتی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے کہا تھا کہ جب انھوں نے عمران خان سے بات کرنے کی کوشش کی تو نہ ان کی آواز سنائی دے رہی تھی اور نہ ہی وکلا ان کو سُن پا رہے تھے۔
سلمان اکرم راجہ نے دعویٰ کیا کہ کمرہ عدالت میں اس مقدمے سے متعلق جو'عدالتی کارروائی ہوئی ہے اس بارے میں عمران خان لاعلم ہیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح سےعدالتی کارروائی کو چلایا جارہا ہے وہ قانون کے مطابق نہیں ہے اور 'کوئی بھی فوجداری مقدمہ ملزم کے موجودگی کے بغیر نہیں چلایا جاسکتا۔'
عمران خان کے وکلا نےانسداد دہشت گردی کی عدالت سے اس وقت تک اس مقدمے کی سماعت روکنے کی استدعا کی ہے جب تک ویڈیو لنک کے ذریعے اس مقدمے کی عدالتی کارروائی چلنے سے متعلق درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کوئی فیصلہ نہیں دے دیتی۔
Getty Images9 مئی 2023 کو پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر کے باہر پُرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے یہ کہہ کر ان کی استدعا مسترد کردی کہ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے واضح احکامات ہیں کہ نو مئی کے حوالے سے مقدمات کی سماعت جلد از جلد مکمل کی جائے۔
اس کے علاوہ عمران خان کے وکلا کی جانب سے یہ درخواست بھی دی گئی کہ 19 ستمبر کو اس مقدمے کی عدالتی کارروائی کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی فراہم کی جائے، تاہم عمران خان کے وکلا کی یہ درخواست بھی مسترد کردی گئی۔
جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان اور دیگر ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت پہلے اڈیالہ جیل میں ہوتی تھی اور اس مقدمے میں پراسیکیوشن کے 31 گواہان نے اپنے بیانات عمران خان کی موجودگی میں ریکارڈ کروائے ہیں۔
چند روز قبل پنجاب حکومت نے جی ایچ کیو حملہ کیس سمیت دیگر مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ تاہم اس نوٹیفکیشن کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی کا حصہ بنائے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
اس مقدمے کی اگلی سماعت 27 ستمبر کو ہوگی اور عمران خان کے وکلا کی ٹیم میں شامل فیصل ملک کا کہنا ہے کہ وہ ایسے حالات میں عدالتی کارروائی کا مزید حصہ نہیں بننا چاہتے۔
عمران خان کی قید کے دو سال اور پارٹی قیادت سے ’مایوس لیکن پرامید‘ کارکن: ’ریاست آج بھی عمران خان کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے‘سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیٹے قاسم اور سلیمان خان اب تک پاکستان کیوں نہیں آ سکےکیا پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اور مرکزی رہنماؤں کو ملنے والی سزاؤں اور نااہلیوں سے تحریک انصاف پارلیمان میں مزید کمزور ہو سکتی ہے؟سلمان اکرم راجہ اور ’غصے کی نئی فصل‘