عبدالحمید ثانی: فلسطین کی زمین کے عوض اربوں ڈالر قرض کی ادائیگی کی پیشکش ٹھکرانے والے عثمانی سلطان، جنھوں نے اسرائیل کے قیام کی پیشگوئی کی

بی بی سی اردو  |  Sep 23, 2025

Getty Imagesعبدالحمید ثانی کو اُن کے مخالفین نے ’خونخوار سلطان‘ کا لقب دیا جبکہ ان کے حامی انھیں سلطنت عثمانیہ کا ’آخری عظیم سلطان‘ قرار دیتے ہیں

’ایک بالشت زمین بھی نہیں!‘

جب صیہونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل نے سلطنتِ عثمانیہ کا بھاریقرضہ ادا کرنےکے بدلے، 34ویں عثمانی سلطان عبدالحمید ثانی سے اُن کے زیرِنگیں فلسطین مانگا، تو یہ اُن کا جواب تھا۔

جوہان بُسو اپنی کتاب ’حمیدیئن پیلیسٹائن: پالٹیکس اینڈ سوسائٹی اِن دی ڈسٹرکٹ آف جیروُسلم‘ میں لکھتے ہیں کہ یروشلم، قسطنطنیہ کے ماتحت ایک مُتَصَرفیہ (انتظامی اکائی) تھا، جس میں یروشلم کے ساتھ بیت اللحم، الخلیل، یافا، غزہ اور بیر سبع وغیرہ کے علاقے شامل تھے، اور اسی کو عموماً فلسطین کہا جاتا تھا۔

ڈیوڈ وائٹل کی کتاب ’دی اورجنز آف زائنزم‘ سے علم ہوتا ہے کہ 19ویں صدی کے اواخر میں مشرقی یورپ کی خون ریزی کے پس منظر میں تھیوڈور ہرزل نے صیہونی تحریک منظم کی، جس نے سنہ 1897 میں فلسطین میں ’یہودی وطن‘ کے قیام کا ہدف طےکیا، اور اس سے اگلے ہی سال ایکبینک قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس تحریک کو مالی سہارا مل سکے۔

لیکن ہرزل اس سے پہلے ہی فلسطین کے حصول کی کوششیں شروع کر چکے تھے۔

استنبول یونیورسٹی سے وابستہ میم کمال اوکے کی تحقیق ہے کہ تھیوڈور ہرزل نے عثمانی سلطنت کی ٹوٹتی معیشت اور قرضوں کو دیکھا تو سوچا کہ یہودیوں کی فلسطین میں آبادکاری کے لیے سلطان عبدالحمید ثانی کو ایسی پیشکش کی جائے جسے وہ رد نہ کر سکیں۔

سلطنتِ عثمانیہ پر اُس دور میں جو قرض تھا اس کی موجودہ قدر لگ بھگ 14 ارب ڈالر بنتی ہے۔

صحافی الیِس ججی ووری کے مطابق یہ قرض دُیونِ عمومیہ (اوٹومن پبلک ڈیٹ ایڈمنسٹریشن یا او پی ڈی اے) نامی ادارے کے ذریعے یورپی طاقتوں، برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریا، اٹلی اور ہالینڈ، کے کنٹرول میں تھا اور یوں اِن طاقتوں کو سلطنتِ عثمانیہ کے اندرونی معاملات میں بہت اثر و رسوخ حاصل ہو گیا تھا۔

اوکے لکھتے ہیں ’اسی تناظر میں ہرزل نے منصوبہ پیش کیا کہ یہودی سرمایہ دار یورپی منڈی سے ترکی کے قرضے خرید لیں اور یوں سلطنتِ عثمانیہ کو یورپی مالیاتی گرفت سے آزاد کروا دیں۔ 21 ستمبر 1842 کو پیدا ہونے والے عبدالحمید ثانی اس دور میں ترکی کو قرضسے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے اور اسی لیے انھوں نے اسے ایک ’بہترین خیال‘ قرار دیا۔

’لیکن جب ہرزل نے اصرار کیا کہ مالی منصوبہ اور فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری ساتھ ساتھ منظور ہوں، تو سلطان غصے میں آ گئے۔‘

Getty Imagesاسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو: پس منظر میں صیہونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل کی قدآور پورٹریٹ موجود ہے

ایسا نہیں تھا کہ وہ یہودیوں کے مخالف تھے۔

ججی ووری کے مطابق سلطنت عثمانیہ کے آٹھویں حکمران سلطان بایزیدثانی نے سنہ1492 میں یہودیوں کو ہسپانیہمیں مذہبی تشدد سےبچانے کے لیے اپنے جہاز بھیجے تھے اور انھیں پناہ دی تھی۔ کئی صدیوں تک عثمانی سلطنت کا حصہ رہنے کی وجہ سے یہودی اہم عہدوں تک پہنچے تھے اور وہ یورپی یہودیوں کی طرح پُرتشدد مہمات کا شکار نہیں ہوئے تھے۔

آر پٹائی کی مرتب کردہ کتاب ’دی کمپلیٹ ڈائریز آف تھیوڈور ہرزل‘ میں اس پیشکش پر سلطان عبدالحمید کے ہرزل سے کہے گئے الفاظ یوں بیان کیے گئے ہیں: ’میں ایک بالشت زمین بھی نہیں بیچ سکتا۔ میری قوم نے اس سلطنت کو اپنے خون سے حاصل کیا ہے اور اسے سیراب کیا ہے۔ ہم دوبارہ اپنے خون سے اسے ڈھانپ دیں گے، اس سے پہلے کہ کوئی اسے ہم سے چھین سکے۔‘

اوکے کے مطابق چونکہ سلطان کے نزدیک معیشت کی بحالی اور فلسطین الگ الگ معاملات تھے، چنانچہ یہ مذاکرات ناکام ہوئے اور بعد میں بھی ہرزلسلطان کا دل نہ جیت سکے۔

عبدالحمید ثانی خود کو خلیفہ کہلوانا زیادہ پسند کرتے تھے کیوںکہ مسلمانوں کے لیے مقدس ترین تین شہر مکہ، مدینہ اور یروشلم، اُن کی سلطنت یا خلافت کا حصہ تھے۔

اویاد روبن نے اپنی کتاب ’باؤنڈڈ انٹیگریشن‘ میں لکھا ہے کہ عبدالحمید ثانی نے اسلام اور اسلامی شناخت کو ایسی مرکزیت بخشی جو طویل عرصے سے اس سطح پر نہیں رہی تھی۔

’اپنی حکومت کے آغاز میں انھوں نے آئینی اصلاحات کیں۔ سلطنت کا پہلا آئین جاری ہوا اور پہلی بار عثمانی پارلیمان کے لیے عام انتخابات ہوئے۔ آئین میں انفرادی حقوق، ٹیکس نظام میں تبدیلیوں اور سلطان کی طاقت پر حدود کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن روس کے ساتھ تباہ کن جنگ کے بعد عبدالحمید ثانی نے آئین کو معطل کرتے ہوئے اپنی حکومت کو مستحکم کیا، جس کی بنیادی خصوصیت مذہب کی طرف واپسی تھی۔‘

متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہسلطان محمد ثانی: قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا

روبن لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے اسلامی یکجہتی اور شناخت کو فروغ دیا۔ اس سمت میں ایک قدمدمشق اور مدینہ کے مقدس شہر کے درمیان ریل کی تعمیر تھا۔ پان اسلام ازم کے نظریے کو سلطنت کے مسلمانوں اور غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیتوں کے لیے شناخت کے ایک ماخذ کے طور پر دوبارہ زندہ کیا اور مدرسہ نظام تعلیم اور طریقتی سلسلوںکو فروغ دیا۔‘

انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق اس کے بعد 30 سال تک ’عبدالحمیدثانی نے پان اسلام ازم کو اندرونی طور پر اپنی مطلق العنان حکومت کو مضبوط کرنے اور سلطنت سے باہر مسلم رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کیا تاکہ یورپی استعماری طاقتوں کو اُن کی مسلم نوآبادیات میں مشکلات کا سامنا ہو۔ حجاز ریلوے، جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی مالی معاونت سے تعمیر ہوئی تھی، ان کی پالیسی کا ایک ٹھوس مظہر تھی۔‘

’اُن کی سب سے ہمہ گیر اصلاحات تعلیم میں تھیں جس کے تحت انھوں نے 18 پیشہ ورانہ سکول قائم کیے۔ دارالفنون (جو بعد میں یونیورسٹی آف استنبول کے نام سے مشہور ہوئی) 1900 میں قائم کی گئی، اور ثانوی، ابتدائی اور فوجی سکولوں کا ایکجال سلطنت بھر میں پھیلایا گیا۔وزارتِ انصاف کو دوبارہ منظم کیا گیا اور ریلوے اور ٹیلی گراف کے نظام کو ترقی دی گئی۔‘

’سنہ 1881میں تیونسیا پر فرانسیسی قبضے اور1882 میں مصر میں برطانوی تسلط کے بعد عبدالحمید نے جرمنوں سے تعاون کی راہ اختیار کی۔ اس کے بدلے میں جرمنی کو مراعات دی گئیں جو بالآخر 1899 میں بغداد ریلوے کی تعمیر کی اجازت پر منتج ہوئیں۔ بعد ازاں 1894 میں آرمینیائی بغاوت کو کچلنے اور کریٹ میں شورش، جس نے 1897 کی یونان، ترکی جنگ کو جنم دیا، نے ایک بار پھر یورپی مداخلت کو دعوت دی۔‘

’تاہم عبدالحمید کی مطلق العنان حکمرانی کے خلاف ناراضی اور بلقان میں یورپی مداخلت کے خلاف ردِعمل نے 1908 میں ینگ ترکوں کے فوجی انقلاب کو جنم دیا۔ اپریل 1909 میں ایک قلیل مدتیبغاوت کے بعد عبدالحمیدثانی کو معزول کر دیا گیا اور ان کے بھائی کو سلطان محمد پنجم کے طور پر تخت پر بٹھایا گیا۔‘

معزولی کی رات ہی انھیں اُن کے اہلِخانہ سمیت 38 دیگر افراد کے ساتھ جدید یونان کے شہر تھیسالونیکی بھیج دیا گیا۔تین سال بعد، یکم نومبر 1912 کو عبدالحمید ثانیکواستنبول واپسلایا گیا جہاںوہ 10 فروری 1918 کو بیلر بیئی محل میں وفات پا گئے۔عبدالحمید ثانیکے کم از کم 23 حرم، آٹھ بیٹے اور کم از کم 13 بیٹیاں تھیں۔

Getty Imagesبگھی میں سوار عبدالحمید ثانی

بینجمن فورٹنا ’دی کیمبرج ہسٹری آف ترکی‘ میں لکھتے ہیں کہ سلطان عبدالحمید ثانی کی حیثیتِ تاریخ میں اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ متنازع۔ ’عثمانی دور کے اواخر میں ان کا دورِ حکومت واحد ایسا دورِ حکومت ہے جو اپنے سلطان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ’حمیدی دور‘ (1876–1908) اور یہ انیسویں اور بیسویں صدی کی ترک تاریخ کے دیگر ادوار کے مقابل نمایاں ہے۔‘

’ان کی میراث کے بارے میں آرا غیر معمولی تضادات کی عکاسی کرتی ہیں۔ بعض مصنفین نے انھیں ’غیر جمہوری‘ اور آمر قرار دیا ہے تو بعض نے انھیں ’جمہوری‘ اور اتفاقِ رائے قائم کرنے والے کے طور پر پیش کیا ہے، کبھی وہ ’خونخوار سلطان‘ کہلائے اور کبھی ’آخری' یا ’عظیم سلطان‘ کے طور پر انھیں سراہا گیا۔‘

’اُن کی حیثیت پر بحث آج بھی جاری ہے، بالخصوص ترکی میں۔ یہاں تک کہ یلدز محل میں سلطان کی لائبریری کی بعد کی قسمت بھی تنازع کا باعث بنی، جہاں کٹر کمالی (کمال اتاترک) نظریات رکھنے والوں نے اس کے ذخیرے کو بکھیرنے کی کوشش کی تاکہ عبدالحمید کی یادگار کو ’شرمندگی کا باعث‘ سمجھ کر مٹا دیا جائے۔

فورٹنا لکھتے ہیں کہ ’چاہے عبدالحمیدثانی کو ایک رجعت پسند آمر قرار دیا جائے یا عثمانی سلطنت کا ایک اہم جدید کار اور مغرب کی دراندازیوں کے مقابل اسلام کا آخری دفاع کار، ان کا دورِ حکومت ترکی اور جدید مشرقِ وسطیٰ کو متاثر کرنے والی کئی اہم پیش رفتوں کے لیے فیصلہ کن تھا۔‘

ایف اے کے یسامی کی رائے میں وہ عزم و ہچکچاہٹ، بصیرت و خیال آرائی کا ایک حیرت انگیز امتزاج تھے۔

’انھیں بے پناہ عملی احتیاط اور طاقت کے بنیادی اصولوں کی فطری سمجھ نے یکجا کر رکھا تھا۔ انھیں اکثر کم تر سمجھا گیا تاہم اگر ان کے ریکارڈ کی بنیاد پر پرکھا جائے تو وہ ایک نہایت زبردست سیاست دان اور مؤثر سفارت کار تھے۔‘

وہ کئی علاقے کھونے کے باوجود مؤرخ رچرڈ اووری کے مطابق بکھرتی ہوئی عثمانی سلطنت پر مؤثر کنٹرول رکھنے والے آخری سلطان تھے۔

سلطان عبدالحمید نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ ہرزل نے اُن کی سلطنت کے ساتھ زمین پر اپنے اصل عزائم چھپانے کی کوشش کی۔ ان شبہات کی تصدیق اس وقت ہوئی جب ہرزل نے یہ جان کر کہ ان سے کچھ حاصل نہ ہو گا، برطانیہ سے اتحاد کر لیا۔

اوکے نے عاطف حسین بے کے حوالے سے لکھا ہے کہ تخت سے محرومی اور جلاوطنی کے برسوں میں بھی عبدالحمید ثانی فلسطین کے بارے میں فکرمند رہے۔ سنہ 1911 میں انھوں نے اپنے ذاتی معالج سے کہا: ’صیہونیوں کی اب تک کی کامیابیاں اصل کہانی نہیں، یہ محض ایک دیباچہ ہے۔ وقت کے ساتھ وہ ضرور اپنی ریاست قائم کر لیں گے۔‘

اور آگے چل کر فلسطین میں نوآبادیوں کی صورت ایک ایسا مضبوط گڑھ بنا جو بعد میں ریاستِ اسرائیل کی بنیاد بنا۔

سلطان محمد ثانی: قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولاعبد المجید دوم: آخری عثمانی خلیفہ جن کی تدفین مرنے کے 10 سال بعد پاکستان کے گورنر جنرل کی سفارش پر ہوئی’مسلمانوں کو متحد‘ کرنے کا ریل منصوبہ جو کبھی مکمل نہ ہو سکامتنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہبرطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان: کیا اس سے مسئلہ فلسطین حل ہونے کا امکان ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More