بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں صوبائی محکموں کے آڈٹ پیراز اور مالی امور پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں اراکین کمیٹی رحمت صالح بلوچ، ولی محمد نورزئی، زابد علی ریکی اور صفیہ بی بی سمیت اعلیٰ سرکاری حکام نے شرکت کی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ مالی سال 22-2021 میں وفاق نے بلوچستان کو ڈیوزایبل پول سے کئی ارب روپے کم فراہم کیے جسے آئین اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ اراکین کمیٹی نے محکمہ خزانہ کی عدم دلچسپی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے کی کٹوتی کے معاملے پر فوری طور پر اسلام آباد جا کر رقم کی واگزاری کو یقینی بنایا جائے۔
مزید انکشاف ہوا کہ نیشنل بینک اور ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسرز کے درمیان تقریباً 6 ارب 99 کروڑ روپے کے مالیاتی فرق کی نشاندہی ہوئی۔ کمیٹی نے واضح کیا کہ متعلقہ افسران کو کوئٹہ بلا کر معاملہ فوری طور پر حل کیا جائے دوسری صورت میں دیگر ذمہ داران کو او ایس ڈی بنا دیا جائے گا۔
سالانہ اکاؤنٹس میں 5 ارب روپے کے منفی بیلنس، 58 کروڑ روپے کی غلط ادائیگیاں اور 39 کروڑ روپے کی بے ضابطہ چیک ادائیگیوں پر بھی کمیٹی نے شدید تشویش ظاہر کی اور ہدایت دی کہ آئندہ تمام ادائیگیاں قواعد کے مطابق کی جائیں۔
سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ 33 کروڑ 46 لاکھ روپے کی سرکاری واجبات اب تک وصول نہیں کی گئیں اور بلوچستان ہاؤس اسلام آباد اور وی آئی پی فلیٹس سے متعلق سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی بھی کی گئی۔ کمیٹی نے ریٹائرڈ افسران سے سرکاری گاڑیاں اور واجبات فوری واپس لینے کا حکم دیا۔
اجلاس میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایک حکومتی طیارہ 2013 سے غیر فعال ہے اور اب تک نیلام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کمیٹی نے دو ماہ میں طیارے کی نیلامی یا اسے قابل استعمال بنانے کی ہدایت دی۔
کمیٹی نے مجموعی طور پر مالی نظم و ضبط یقینی بنانے، فیصلوں پر عمل درآمد اور ذمہ دار افسران کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی تاکہ صوبائی وسائل کو شفاف اور مؤثر انداز میں استعمال کیا جا سکے۔