پاکستان سے غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کے واقعات اور اس دوران حادثات کے نتجیے میں جانی نقصان کے بعد انسانی سمگلرز کے خلاف کریک ڈاون اور گرفتاریوں کے واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں۔
لیکن انسانی سمگلنگ کو مکمل طور پر روکا نہیں جا سکا اور اب نئے نئے طریقے اپناتے ہوئے غیرقانونی راستوں سے غیرممالک بھجوایا جا رہا ہے۔
گوجرانوالہ میں ایف آئی اے کی تازہ کارروائی نے ایک ایسے فریب کا پردہ چاک کیا ہے جس نے نوجوانوں کے بیرونِ ملک کھیل کے خواب کو انسانی سمگلنگ کے جال میں بدل ڈالا۔
انسانی سمگلنگ کے مرکزی ملزم ملک وقاص پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کی جعلی وابستگی اور وزارتِ خارجہ کے جعلی این او سی بنا کر نوجوانوں کو جاپان بھجوایا گیا۔
جاپانی امیگریشن نے 22 رکنی ’فٹبال ٹیم‘ کو دستاویزات مشتبہ پانے پر ایئر پورٹ سے واپس کر دیا، جس کے بعد ایف آئی اے نے گوجرانوالہ میں گرفتاری عمل میں لاتے ہوئے مقدمات درج کیے اور اس سارے معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے
یہ سوال اس خبر کا سب سے اہم پہلو ہے۔ دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی ہے کہ گوجرانوالہ سے فٹ بال ٹیم کے روپ میں انسانی سمگلنگ کا یہ واقعہ پہلا نہیں ہے بلکہ یہی ایجنٹ اس سے پہلے بھی ایک کامیاب کارروائی کر چکا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق ملزم نے جنوری 2024 میں بھی17 افراد کو اسی طریقۂ واردات کے تحت جاپان بھجوایا تھا تاہم یہ معلومات ابھی سامنے آئی ہیں۔
سال 2024 والے گروپ کے ’اسی وقت‘ پکڑے جانے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی الٹا حالیہ واقعے کے بعد یہ معاملہ بھرپور طریقے سے کھلا اور پھر گرفتاری عمل میں آئی۔
دوسرے لفظوں میں پہلے بھی لوگ جاپان بھیجے گئے تھے مگر گرفتاری اور ڈی پورٹیشن صرف اس گروپ کی ہوئی ہے۔
جعل سازی کیسے کی گئی؟
تفتیشی رپورٹس کے مطابق جعلی کلب/ٹرائل کے نام پر نوجوانوں کو ’کِٹس‘ پہنا کر بطور کھلاڑی پیش کیا گیا۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن سے منسوب جعلی خطوط اور وزارتِ خارجہ کےجعلی این او سی دکھا کر ویزے لیے گئے۔
لیکن جاپانی امیگریشن نے ایئرپورٹ پر ہی کاغذات مشکوک پا کر فٹ بال کے میچز کا ریکارڈ نکلوایا تو ایسا کوئی کلب میچ نہیں ہو رہا تھا جس کے بعد پوری ’ٹیم‘ کو واپس بھیج دیا۔ اسی سلسلے میں ایف آئی اے نے گوجرانوالہ سرکل میں ملزم کو گرفتار کیا اور مقدمات قائم کیے۔
رواں کیلنڈر سال میں پاکستانی میڈیا نے ملک کے مختلف حصوں میں انسانی سمگلنگ یا غیر قانونی نقل مکانی سے جڑی کئی کارروائیاں رپورٹ کی ہیں۔
یورپ جاتے ہوئے کشتیوں کے ڈوبنے کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد پاکستان حکومت نے ایجنٹ مافیا کے خلاف گھیرا تنگ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں 56 سے زائد افراد انسانی سمگلروں کو گرفتار کیا گیا۔
تاہم فٹ بال ٹیم کے روپ میں جاپان لے جانے کا یہ انوکھا واقعہ پہلی باری رپورٹ ہوا ہے۔
جاپان میں پاکستانی برادری: تناظر کیوں اہم ہے؟
یورپ کے علاوہ جاپان جانا بھی پاکستانیوں کی ترجیح میں شامل رہتا ہے اور اسی کا انسانی سمگلر فائدہ اٹھاتے ہیں: فائل فوٹو اے ایف پی
اس معاملے کی حساسیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جاپان میں پاکستانی برادری کی تعداد مستقل بڑھ رہی ہے۔
جاپان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق 2023 میں جاپان میں مقیم پاکستانی شہری 25 ہزار سے زائد تھے جبکہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں رجسٹرڈ پاکستانیوں کی تعداد 30 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ اعداد قانونی رہائشیوں کے ہیں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی تعداد اس میں شامل نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت، بے روزگاری اور تیز تر معاشی بہتری کی خواہش اکثر نوجوانوں کو ایسے راستوں کی طرف دھکیل دیتی ہے جہاں جعلی کاغذات، جعلی ادارہ جاتی شناختیں اور غیر قانونی راستے ’شارٹ کٹ‘ کے طور پر بیچے جاتے ہیں۔
جاپان کیس نے واضح کیا کہ کھیلوں کی آڑ میں بھی سمگلنگ نیٹ ورکس سرگرم ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ادارہ جاتی دستاویزات کی ڈیجیٹل ویریفکیشن، امیگریشن سسٹمز کے مابین ڈیٹا شیئرنگ، اور عوامی سطح پر خبردار کرنے والی مہمات اشد ضروری ہیں۔ اسی کے ساتھ، قانونی و محفوظ راستوں کی بروقت آگاہی اور بیرونِ ملک روزگار کے حقیقی پروسِسز پر رہنمائی بھی درکار ہے تاکہ نوجوان فراڈ کا شکار نہ ہوں۔