لاہور میں چار، چھ اور نو برس کے تین بچوں کے خلاف ’جان سے مارنے کی دھمکی‘ سمیت سنگین الزامات پر مقدمہ درج ہونے کا معاملہ سامنے آیا ہے، جس نے نہ صرف پولیس کے تفتیشی عمل پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کم عمر بچوں کو فوجداری مقدمات میں شامل کرنا قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاقے شاد باغ میں باپ اور اس کے تین کم عمر بیٹوں پر پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے۔
ملزموں میں 4 سالہ عثمان غنی، 6 سالہ محمد اذان اور 9 سالہ محمد حذیفہ شامل ہیں جبکہ ان کے والد حسنین رضا ولد محمد شفیق بھی ملزموں میں شامل ہیں۔
یہ مقدمہ 10 ستمبر 2025 کو تھانہ شاد باغ میں درج کیا گیا۔ مقدمہ میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 506، 147، 148 اور 186 شامل کی گئی ہیں۔
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 506 جان سے مارنے کی دھمکی کے تحت لگائی جاتی ہے جبکہ دفعہ 186 کارِ سرکار میں مداخلت اور خلل ڈالنے سے متعلق ہے۔
تھانہ شاد باغ میں انسدادِ ڈینگی چیکنگ ٹیم کے سپروائزر محمد شفیق اظہر کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
انہوں نے مقدمے میں الزام عائد کیا ہے کہ ’ان کی ٹیم جب شاد باغ میں ایک گودام کی چیکنگ کے لیے پہنچی تو گودام کے مالک حسنین رضا نے گالم گلوچ شروع کر دی اور ہاتھاپائی پر اتر آئے۔‘
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’حسنین رضا کے تین بیٹوں نے بھی موقع پر پہنچ کر میری ٹیم کے ساتھ بدتمیزی اور ہاتھاپائی کی۔‘
پولیس حکام نے مقدمے میں نامزد ملزموں کی ضمانت ہونے کی تصدیق کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
محمد شفیق اظہر نے مزید الزام عائد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ’وہ جب خود موقع پر پہنچے تو حسنین رضا اور ان کے بیٹوں نے ان پر بھی حملہ کیا، تھپڑ مارے، گالیاں دیں اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ملزموں نے ان کے دفتری کاغذات اور ڈیوٹی کارڈز بھی چھین لیے جس کے بعد منت سماجت کر کے انہوں نے اپنی جان چھڑائی۔‘
مقدمہ میں نامزد حسنین رضا کے تینوں بیٹے کم عمر ہیں تاہم ایف آئی آر میں باقاعدہ ان کے تین بیٹوں کا ذکر شامل کیا گیا ہے۔
حسنین رضا نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ڈینگی چیکنگ ٹیم نے ان کے والد کے ساتھ بدتمیزی کی اور رشوت مانگی۔ ہم نے جب رشوت دینے سے انکار کیا تو ٹیم نے سپروائزر کو بلایا اور اس نے بھی ہمارے ساتھ بدتمیزی کی۔‘
حسنین رضا کے مطابق اس بدتمیزی پر انہوں نے ہاتھ اٹھایا لیکن ان کے بچوں کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’پولیس نے ان کے تین کم عمر بیٹوں کے نام بھی ایف آئی آر میں شامل کر لیے ہیں۔‘
ماہرین کے مطابق بچوں کے نام فوجداری مقدمات میں شامل کرنا غیر قانونی ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)
حسنین رضا مقدمہ سے قبل مقدمہ کے مدعی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’انہوں نے جب مجھ سے بچوں کے بارے میں پوچھا تو میں نے صرف یہ بتایا کہ میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ میرے بچوں پر بھی مقدمہ درج ہو چکا ہے۔‘
پولیس حکام نے مقدمے میں نامزد ملزموں کی ضمانت ہونے کی تصدیق کی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ایف آئی آر ابتدائی رپورٹ ہوتی ہے جو مدعی کے بیان کے مطابق درج کی جاتی ہے۔
تفتیشی افسر امتیاز نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس نے مدعی کے بیان کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی ہے لیکن تفتیش کے دوران حقائق واضح ہوں گے۔ مدعی نے ممکنہ طور پر غلط فہمی کی بنیاد پر حسنین رضا کے تین بیٹوں کا ذکر کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کے والد شفیق اور بھائیوں کا حوالہ دینا چاہتے تھے۔‘
انہوں نے تسلیم کیا کہ ’کم عمر بچوں کے خلاف مقدمہ درج ہونا قانونی طور پر درست نہیں اور پیشی کے بعد ہی یہ معاملہ واضح ہو گا۔‘
کم عمر بچوں کو مقدمات میں شامل کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ نومبر 2024 میں سیالکوٹ کے تھانہ صدر پولیس نے 4 سالہ بچے سمیت 13 افراد کے خلاف دیوار گرانے اور فائرنگ کے الزامات میں مقدمہ درج کیا تھا۔
اسی طرح بلوچستان کی مکران ڈویژن میں گزشتہ ماہ 7 سالہ بچے پر سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کرنے کے الزام میں دہشت گردی کی معاونت کا مقدمہ درج کیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ مدثر چوہدری اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’بچوں کے نام فوجداری مقدمات میں شامل کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ ان کے مستقبل کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔‘
بچوں کے خلاف مقدمہ تھانہ شاد باغ میں انسدادِ ڈینگی چیکنگ ٹیم کے سپروائزر محمد شفیق اظہر کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)
انہوں نے اس معاملے کے قانونی پہلو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’ایف آئی آر میں نام آنے سے بچوں کے کریکٹر سرٹیفیکیٹ پر منفی اثر پڑتا ہے جو ان کی ملازمت اور بیرون ملک سفر کے مواقع کو متاثر کرتا ہے۔ ماضی میں لاہور ہائی کورٹ نے اس حوالے سے واضح احکامات جاری کیے ہیں کہ کیریکٹر سرٹیفیکیٹ میں ایسی تفصیلات شامل نہ کی جائیں لیکن یہ سلسلہ اس کے باوجود جاری ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 82 کے مطابق 7 سال سے کم عمر کے بچے مجرمانہ ذمہ داری سے مستثنیٰ ہیں جبکہ دفعہ 83 کے تحت 7 سے 12 سال کی عمر کے بچوں پر مقدمہ اسی صورت میں درج کیا جا سکتا ہے جب عدالت کو یقین ہو کہ بچہ ذہنی طور پر بالغ ہے اور اپنے فعل کی نوعیت کو سمجھتا ہے۔‘
پاکستان میں جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے تحت بچوں کے جرائم میں ملوث ہونے کی صورت میں الگ عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔
ایڈووکیٹ مدثر چوہدری اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’پاکستان اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (UNCRC) پر دستخط کر چکا ہے۔ اس کنونشن کی شق 7، 37 اور 40 کے مطابق پہلے تو بچوں پر مقدمہ درج کرنا غیر قانونی ہے۔ تاہم 18 سال سے کم عمر بچوں کے خلاف اگر فوجداری مقدمات درج ہوں تو اس میں خصوصی طریقہ کار اختیار کرنا ضروری ہے۔‘