Getty Imagesپاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب میں 900 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ (فائل فوٹو)
’درخت کے اوپر کوبرا سانپ تھا اور نیچے 10 سے 12 فٹ گہرا سیلاب کا پانی اور اگر میں سانپ کو بھگانے کی کوشش کرتا ہوں تو اس کے ڈسنے سے میریموت یقینی ہے اور اگر درخت کو چھوڑ کر پانی میں چھلانگ لگاتا ہوں تو ڈوب کر مرجاؤں گا۔‘
یہ الفاظوزیر آباد کے علاقے رسول نگر کے رہائشی اسد مجید کے ہیں جو 28 اگست کی رات کو دریائے چناب میں آنے والی سیلابی پانی کے ریلے میںچوبیس گھنٹے تک ہر لمحہ جیتے اور مرتے رہے۔
ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں اتنی زیادہ ہیں کہ متاثرہ لوگوں کو اپنے جانی اور مالی نقصان کے غم سے باہر نکلنے میں ایک عرصہ درکار ہو گا لیکن ایسی صورت حال میں کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جس میں لوگیقینی موت کے منھ سے زندگی کھینچ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اسد مجید نے اپنی روداد سناتے ہوئےکہا کہ وہ اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور انھوں نے جانوروں کے لیے دریا کے ساتھ والے علاقے جسے ’بیلا‘ کہتے ہیں، میں ڈیرہ بنایا ہوا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ 28 اگستکو جس وقت دریائے چناب میں سیلاب آیا اسی وقت یہ سیلابی پانی اچانک بیلے میں بھی داخل ہوگیا۔ ’اس وقت ڈیرے پر مجھ سمیت نو افراد موجود تھے اور ہم نے کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک کشتی بھی رکھی ہوئی تھی۔‘
اسد مجید کا کہنا تھا کہ ’صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں نے باقی لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ کشتی میں بیٹھ کر چلے جائیں میں وہاں سے مویشیوں کو کھول کر ان کے اوپر بیٹھ کر گاؤں پہنچ جاؤں گا‘۔
وہ بتاتے ہیں انھیں تیراکی بھی آتی ہے۔
Getty Imagesاسد مجید کے مطابق ان کے پاس 33 بھینسیں تھیں جو سیلابی ریلے میں بہہ گئیں
اسد مجید نے بتایا کہ ان کے پاس 33 بھنیسیں تھیں۔ ’جب میں اپنے جانوروں کے پاس پہنچ کر ان کے گلے میں ڈالی گئی رسیوں کو کھولنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اتنی دیر میں بیلے میں پانی کا لیول چند منٹوں میں ہی آٹھ سے دس فٹ ہو چکا تھا جس کی وجہ سے تمام مویشی پانی میں بہہ گئے۔‘
انھوں بتایا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے جانور کے لیے محفوظ کی گئی توڑی کے بڑے ڈھیر پر چڑھ گئے جہاں پر کچھ دیر تو انھوں نے اپنے آپ کو محفوظ تصور کیا۔ ’پھر پانی کی رفتار تیز ہونےکی وجہ سے یہ توڑی بہہ گئی اور میں بھی توڑی کے ٹیلے کے ساتھ بہہ گیا۔‘
اسد مجید کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ ایک تیراک تھے لہذا اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے وہ پانی میں تیر کر کچھ فاصلے پر موجود شیشم کے ایک درخت پر چڑھ گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے دیگر بھائی اور ڈیرے پر کام کرنے والے افراد دور کھڑے ہو کر دیکھ رہے تھے کہ میں (اسد مجید) درخت پر چڑھ گیا ہوں اور جیسے ان کو تسلی ہوئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ڈیڑھ گھنٹے تک میں رُکا رہا اور اسی دوران پانی کا ایک تیز ریلا آیا اور وہ درخت جڑوں سے اکھڑ کر پانی میں گر گیا جس پر کنارے پر کھڑے ہوئے بھائی اور دیگر افراد نے چیخ و پکار شروع کر دی اور میں دیکھتے ہی دیکھتے ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا جس کی وجہ سے ان کے گھر والوںکو یہ یقین ہو چلا تھا کہ اس (اسد مجید) کا بچنا بہت ہی مشکل ہے۔‘
اسد مجید کے بقول درخت کے گرنے کے بعد انھوں نے دوبارہ تیرنا شروع کر دیا ’تین سو میٹر کے فاصلے پر ایک اور درخت نظر آیا جس کی شاخیں سیلابی پانی کو چھو رہی تھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے ان شاخوں کو پکڑ کر درخت پر چڑھنے کی کوشش کی تو درخت کی اوپر والی شاخ جو پانی میں نہیں تھی اس پر سات سے اٹھ فٹ لمبا کوبرا سانپ بیٹھا ہوا تھا اور مجھے دیکھ کر وہ پھنکارنے لگا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ سانپ ابھی مجھ پر حملہ کر دے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایک لمحے کے لیے تو مجھے ایسا لگا کہ سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے میری موت یقینی ہے لیکن اگر میں پانی میں چھلانگ لگا دوں تو ہو سکتا ہے کہ میری جان بچ جائے‘ لیکن جب انھوں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تودور دور تک کوئی درخت نظر نہیں آیا جس کا وہ سہارا لے کر اپنے آپ کو بچا سکیں لہذا اگر سانپ کے ڈسنے سے ان کی موت نہ بھی ہوتی تو ڈوبنے سے تو موت یقینی تھی۔
پنجاب وائلڈ لائف اینڈ پارکس ڈپارٹمنٹ کے مطابق سیاہ کوبرا سانپ صوبے کے دیہی علاقوں خصوصاً کھیتوں، جنگلوں اور دیگر زرعی زمینوں پر پایا جاتا ہے۔
’واش رومز میں پانی نہیں، جوان بچیوں کو کہاں سلاؤں‘: ملتان میں حکومتی کیمپس کے اندر اور باہر سیلاب متاثرین کس حال میں ہیں؟سیلاب متاثرین کو بھوکے مویشیوں کی فکر: ’ہمارے لیے کھانا نہ لائیں، جانوروں کے چارے کا انتظام کر دیں‘ لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سیلاب: کیا یہ گھر اب رہنے کے قابل رہیں گے؟چنیوٹ کے دیہات میں سیلابی ریلے اور ریسکیو اہلکاروں کی مشکلات: ’متاثرین کے پاس پہنچتے تو وہ کہتے گھر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے‘
اسد مجید کے بقول انھوں نے اپنے اعصاب کو قابو میں رکھا اور یہ سوچ کر اسی درخت کے تنے کو پکڑ کر رکھا جس درخت کی ایک شاخ پر کوبرا سانپ بیٹھا ہوا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے جسم کا نیچےکا حصہ پانی میںڈوبا ہوا تھا لیکن اس کے پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھےکیونکہ وہاں پر پانی 10 فٹ سے زیادہ گہرا تھا اس لیے انھوں نے درخت کے تنے کے اردگر ہی اپنی بانہوں سے حصار بنایاہوا تھا۔
سانپ کی پھنکار اور جنگلی چوہوں کی آوازیں
انھوں نے کہا کہ جس درخت کے تنے کو انھوں نے اپنی بانہوں کے حصار میں لیا ہوا تھا اسی درخت کی ایک شاخ پر کوبرا سانپ تھا جبکہ درخت کی دوسری شاخ پر آٹھ دس جنگلی چوہے بیٹھے ہوئے تھے جو کہ نامعلوم مقام سے اس سلابی پانی میں بہہ کر آئے تھے۔
اسد مجید کا کہنا تھا کہ ’جب میرے ہاتھ درختکے تنے کو پکڑ کر تھک جاتے اور میں اپنے ایک ہاتھ کو کچھ دیر کے لیے آرام دینے کی غرض سے چھوڑتا تو سانپ یہ سمجھتا شاید میں اس پر حملہ آور ہونے لگا ہوں اور وہ زور سے پھنکارتا جبکہ جنگلی چوہے بھی آوازیں نکالنا شروع کر دیتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک مرتبہ سانپ نے اپنا پورا جسم شاخ کے ساتھ لپیٹ کراپنا پھن پھیلائے پہلے تو زور سے پھنکارا اور پھر اس نے اپنے منہ سے پانی نما چیز نکال کر میری طرف پھینکی لیکن میں اس سے بچ گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بعد میں لوگوں نے بتایا کہ کوبرا سانپ کو جب کسی سے کوئی خطرہ محسوس ہو تو وہ اس کی آنکھوں میں زہر پھینکتا ہے۔‘
اسد مجید نے کہا کہ ’اسی کشمکش میں ایک ایک لمحہ گھنٹوں پر محیط محسوس ہو رہا تھا اور اسی صورت حال میں سورج بھی غروب ہو گیا اور پھر رات کا اندھیرا چھا گیا جس میں مجھے اوپر والی شاخ پر بیٹھا ہوا سانپ نظر آنا بند ہو گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ان کے ذہن میں بہت سے خیالات آ رہے تھے کہ ’اگر سیلابی پانی میں کوئی اور سانپ ہوا اور اس نے مجھے پانی میں ہی ڈس لیا تو ان حالات میں بھی موت یقینی ہے۔‘
Getty Imagesاسد مجید کہتے ہیں کہ خوف میں وہ سانپ سے بھی باتیں کرتے رہے
اسد مجید نے کہا کہ جب وہ ’اپنے ایک ہاتھ کو آرام دینے کی غرض سے درخت کے تنے سے الگ کرتے تو سانپ کی پھنکار سے اندازہ ہو جاتا تھا کہ سانپ اپنی جگہ پر ہی موجود ہے یا کہیں اور چلا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’رات کی خاموشی میں سیلابی پانی کی آواز بڑی بھیانک سنائی دیتی تھی اور اس کے لیے ایسے حالات میں اپنے اعصاب پر قابو رکھنا انتہائی مشکل دیکھائی دے رہا تھا۔‘
اسد مجید کا کہنا تھا کہ ’جب رات کی تاریکی اپنے عروج پر تھی اور پانی کے بہاؤ کی آواز میں تیزی آتی جارہی تھی تو میں نے اپنا دھیان ان چیزوں سے ہٹانے کے لیے سانپ سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔‘
اسد مجید کے بقول انھوں نے سانپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اسے جس ہستی نے پیدا کیا ہے مجھے بھی اسی ہستی نے زمین پر بھیجا ہے لہذا ہم ایک دوسرے سے وعدہ کریں کہ نہ تم مجھے نقصان پہنچاؤ اور نہ میں تمہیں نقصان پہنچاؤں گا۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ سانپ کو مخاطب کرتے ہوئے اس وقت تکباتیں کرتے رہے جب تک دن کے آغاز کی کرنیں پانی اور درختوں پر پڑنا شروع نہ ہو گئیں۔
اسد مجید کا کہنا تھا کہ ’دن کی روشنی میں ، میں نے دیکھا کہ کوبرا سانپ اور چوہے انھی شاخوں پر موجود ہیں جہاں پر وہ سورج ڈھلنے کے وقت دیکھے گئے تھے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس عرصے کے دوران ان کے ذہن میں اپنے والدین یا بیوی بچوں کا بھی خیالآیا تو25 سالہ اسد مجید کا کہنا تھا کہ ’میں اٹھارہ گھنٹے تک درخت کے تنے کے گرد حصار بنا کر وہاں پر موجود رہا اور اس عرصے کے دوران صرف دو شخصیات میری آنکھوں کے سامنے تھیں: ایک میری والدہ اور دوسری میری بیٹی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میرے ذہن میں یہی کچھ آرہا تھا کہ اگر میں مر گیا تو میری بیٹی یتیم ہو جائے گی اور دوسرا یہ کہ میری بوڑھی والدہ شاید اپنے بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت نہ کرسکیں۔‘
’ان لمحوں کے بارے میں سوچ کر روح کانپ جاتی ہے‘
اسد مجید نے کہا کہ اٹھارہ گھنٹوں کے بعد جب پانی تھوڑا سا کم ہوا تو انھوں نے آوازیں دینا شروع کر دیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں کچھ ہی فاصلے پر ایک اور ڈیرہ موجود تھا جو اونچی جگہ پر واقع ہے، وہاں موجود لوگوں نے ان کی آواز کو سنا اور جس جانب سے آواز آرہی تھی وہ اس جانب کشتی لے کر آ گئے اور انھیں ریسکیو کیا۔
انھوں نے کہا کہ جب وہ درخت سے اتر کر کشتی میں بیٹھے تو انھوں نے ریسکیو کے لیے آنے والے افراد کو وہسانپ اور چوہےبھی دیکھائے جو اسی درخت کی شاخوں پر ہی موجود تھے۔
انھوں نے کہا کہ پانی میں اتنی دیر رہنے کی وجہ سے اس کے جسم کا نیچے والہ حصہ گل چکا تھا تاہم علاج معالجہ کروانے کی وجہ سے وہ اب بہت بہتر ہے۔
اسد مجید کا کہنا تھا کہ ’اب بھی میں ان گزرے ہوئے لمحوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو میری روح کانپ جاتی ہے۔‘
اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ پاکستان اور انڈیا کی ورکنگ باونڈری کے پاس گاؤں جھن مان سنگھ میں پیش آیا۔
’لاش نہ ملی تو گھر والوں کو سکون نہیں ملے گا‘
جھن مان سنگھ کے رہائشی فیصل رفیق بتاتے ہیں کہ ’جب میرےگھر کی دیواریں آہستہ آہستہ پانی کے دباؤ کی وجہ سے سرک رہی تھیں تو مجھے یہ یقین ہو چلا تھا کہگھر کی چھت کسی وقت بھی گر سکتی ہے اور میری موت یقینی ہے لیکن خوف اس بات کا تھا کہ اگر میری لاش گھر والوں کو نہ ملی تو نہ میرے بچوں کو سکون ملے گا اور نہ ہی میری بوڑھے والدین کو۔‘
فیصل رفیق نے تین دن گھر کی چھت پر گزار دیے کیونکہ سیلابی پانی اتنا زیادہ تھا کہ پورا گاؤں ہی پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔
یہ علاقہ ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ورکنگ باونڈری پر واقع ہے اور جب بھی انڈیا کی جانب سے دریائے راوی میں پانی چھوڑا جاتا ہے تو جھن مان سنگھ سے ہی پانی سب سے پہلے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور اس علاقے سے انڈین بارڈر ایک کلو میٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔
فیصل رفیق نے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئےبتایا کہ ’یہ 31 اگست کی رات تھی جب گاؤں والے سکون کی نیند سو رہے تھے کہ اچانک رات تین بجے کے قریب گاؤں کی دو مساجد میں اعلان ہوا کہ انڈیا نے دریائے راوی میں پانی چھوڑ دیا ہے لہذا اپنی فیملی اور اپنے جانوروں کو لے کر جتنی جلدی ممکن ہو سکے محفوظ مقام پر منتقل ہو جائیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کے گاؤں میں تین سو کے قریب مکانات ہیں۔
فیصل رفیق نے کہا کہ جب اس گاؤں کے مکینوں نے مساجد میں یہ اعلانات سنے تو انھوں نے جلدی جلدی جتنا سامان اٹھا سکتے تھے وہاں سے اٹھایا اور قریبی علاقے کوٹ نیناں میں چلے گئے جو کہ ان کے گاؤں کے مقابلے میں اونچی جگہ پر واقع ہے۔
فیصل رفیق کا کہنا تھا کہ ’گاؤں کے جن بزرگوں نے سنہ 1988 میں اس علاقے میں آنے والے سیلاب کو دیکھا تھا انھوں نے اٹھائیس اگست سے ہونی والی موسلادھار بارشوں کو دیکھتے ہوئے اپنی فیملی اور جانوروں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔‘
’اور باقی جنھوں نے صرف اس بارے میں سن رکھا تھا وہ شاید اس خوش فہمی میں تھے کہ اس سیلاب کو گزرے 35 سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اور دنیا بہت ترقی کر چکی ہے اس لیے اب اگر سیلاب آیا بھی تو اس طرح کی تباہی نہیں لے کر آئے گا جس طرح کی 1988میں ہوئی تھی۔‘
تیس سالہفیصل رفیق کا کہنا تھا کہ مساجد میں اعلانات کے بعد وہ بھی اپنے والدین اور بہن بھائیوں اور اپنی گائے بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کےساتھمحفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
انھوں نے کہا کہ اپنے گھر سے تو وہ نکل آئے تھے لیکن ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اور اس کے اور ان کےایک بھائی کے بچے بھی چھوٹے تھے اس لیے انھوں نے سوچا کہ گھر جا کر اپنے گھر والوں اور ان چھوٹے بچوں کے لیے کھانے کے لیے کچھ لانا چاہیے۔
فیصل رفیق کے مطابق ’میرے ساتھ گاؤں کا ایک دوست ظہیر اقبال بھی چل پڑا جس کا گھر میرے گھر سے آدھا کلو میٹر دور تھا اور وہ بھی اپنے گھر والوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں لانا چاہ رہا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ گھر سے نکلے تھے تو اس وقت گاؤں میں پانی تین فٹ کے قریب تھا لیکن جب دوبارہ گاؤں میں پہنچے تو اس وقت پانی چار فٹ تک پہنچ چکا تھا جو دیکھتے ہی انھوں نے سوچا کہ پانچ سے دس منٹ میں کھانے پینے کا سامان اٹھا کر پانی کی سطح مذید بڑھنے سے پہلے پہلے وہ گاؤں سے نکال جائیں گے۔
Getty Imagesاسد مجید 72 گھنٹوں سے زیادہ اپنے گھر کی دیوار پر کھڑے رہے
فیصل رفیق کا کہنا تھا کہ ’ابھی ہم دونوں اپنے اپنے گھروں میں داخل ہی ہوئے تھے کہ پانی کا ایک تیز ریلا آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پانی کا لیول چھ فٹ تک چلا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے وہ فوری طور پر گھر کی چھت پر چڑھ گئے اور چند ہی لمحوں میں ان کا پورا گھر نہ صرف پانی میں ڈوبا ہوا تھا بلکہ یہسیلابی پانی گھر کیچھت کو بھی چھو رہا تھا۔
فیصل رفیق نے کہا کہ ایسی ہی صورت حال ان کے دوست ظہیر اقبال کے ساتھ بھی تھی اور ’ان کے گھر میں بھی پانی کا لیول اٹھ سے دس فٹ پہنچ چکا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’گاؤں میں دو سے تین کلومیٹر کی حدود میں پانی کا لیول آٹھ سے دس فٹ تک پہنچ چکا تھا اور پانی کا یہ لیول اڑتالیس گھنٹوں تک برقرار رہا۔‘
فیصل رفیق کا کہنا تھا کہ انھوں نے موبائل پر اپنے عزیزو اقارب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے دوست ظہیر اقبال بھی اپنی چھت پر موجود تھے ’لیکن ہم دونوں ایک دوسرے کے پاس نہیں جا سکتے تھے کیونکہ ایک تو پانی کا لیول بہت زیادہ تھا اور دوسرا یہ کہ ہم دونوں تیراک نہیں تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’رات کو ہم ایک دوسرے کا نام اونچی آواز میں پکارتے تھے تاکہ دوسرے کو اندازہ ہو سکے کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔‘
فیصل رفیق کا کہنا تھا کہ ایک رات تو انھوں نے اس امید پر گزار لی کہ اگلی صبح انھیں ریسکیو کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ضرور آئے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور ’کوئی بھی ریسکیو کرنے کے لیے نہیں آیا اور دوسری رات بھی بھوکے رہ کر گزار دی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دو ستمبر کو پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا اور اس دفعہ انڈیا کی جانب سے سیلابی پانی میں درخت بہت زیادہ بہہ کر آئے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ان میں سے دو تین درخت میرے گھر کی دیوار کے ساتھ اٹک گئے اور جب پانی کی شدت میں اضافہ ہوتا تو وہ درخت میرے اور ساتھ والوں کے گھر کی دیوار کے ساتھ ایسے ٹکراتے جیسے کوئی مزدور دیوار توڑنے کے لیے وزنی ہتھوڑا استعمال کر ر ہا ہو۔
’موت ہر وقت میری انکھوں کے سامنے گھوم رہی ہوتی تھی‘
فیصل رفیق کا کہنا تھا کہ’گذشتہ 72 گھنٹوں کے دوران گھروں کی بنیادیں اور دیواریں پانی کے اندر تھیں اور پھر ان درختوں کے ٹکرانے کی وجہ سے گھر کی بنیادیں اور دیواریں کمزور ہوتی جارہی تھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کے گھر کیبنیادوں اور دیواروں میں چنی ہوئی اینٹیں، ریت اور سیمنٹ سمیت اپنی جگہ سے سرکتی جا رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کچھ دیر کے بعد ان کے ساتھ والے گھر کی دو دیواریں گر گئیں جس کے بعد ان کو یقین ہو چلا تھا کہ اب ان کے گھر کے گرنے کی باری ہے اور ایسے حالات میں یا تو وہ اپنے گھر کے ملبے تلے ہی دب جائیں گے اور یا پھر ان کی موت پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ’موت ہر وقت میری انکھوں کے سامنے گھوم رہی ہوتی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس دوران یہی خیال آتا تھا کہ اگر میں پانی میں بہہ گیا اور میری لاش بھینہ ملی تو میری فیملی اور والدین نہ زندوں میں ہوں گے اور نہ ہی مردوں میں۔‘
انھوں نے کہا کہ یہی سوچ کر ان پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی۔
فیصل رفیق کا کہنا تھا کہ تیسرے دن جب پانی کا لیول پانچ فٹ تک آ گیا تو وہ گھر سے نکلے اور ایک اونچے مقام پر کھڑے ہو گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’سو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے تین سے چار سانپمیرے قریب سے گزرے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ اونچے مقام پر پہنچ کر انھوں نے آوازیں دینا شروع کیں تو کچھ دیر کے بعد ہی علاقے کے چند نوجوان وہاں پر پہنچ گئے اور انھیں اور ان کے دوست کو ریسکیو کرنے کے بعد دونوں کو محفوظ مقام پر پہننچایا۔
فیصل رفیق کا کہنا تھا کہ جب پانی کا لیول مذید کم ہوا اور وہ اپنے گھر کو دیکھنے کے لیے گئے اور گھر کاوہیحصہ منہدم ہو چکا تھا جس پر کھڑے ہو کر انھوں نے 72 گھنٹے گزارے تھے۔
’واش رومز میں پانی نہیں، جوان بچیوں کو کہاں سلاؤں‘: ملتان میں حکومتی کیمپس کے اندر اور باہر سیلاب متاثرین کس حال میں ہیں؟سیلاب متاثرین کو بھوکے مویشیوں کی فکر: ’ہمارے لیے کھانا نہ لائیں، جانوروں کے چارے کا انتظام کر دیں‘ چنیوٹ کے دیہات میں سیلابی ریلے اور ریسکیو اہلکاروں کی مشکلات: ’متاثرین کے پاس پہنچتے تو وہ کہتے گھر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے‘ایک ٹیوب کے ذریعے حافظ آباد کے درجنوں لوگوں کو بچانے والے ’ملنگ‘: ’میرے لیے ایک ہزار روپے انعام کروڑوں سے بہتر ہے‘لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سیلاب: کیا یہ گھر اب رہنے کے قابل رہیں گے؟