’40 لاکھ موبائل فونز کی نگرانی ایک ساتھ‘: پاکستان میں ’عام شہریوں کی نگرانی کے نظام‘ پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کیا دعویٰ کیا گیا؟

بی بی سی اردو  |  Sep 09, 2025

Getty Imagesایمنٹسی نے اپنی تازہ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ 'پاکستان نگرانی اور سنسرشپ کا یہ نظام چینی، یورپی اور شمالی امریکی کمپنیوں کی مدد سے چلا رہا ہے‘

انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں ’کروڑوں شہریوں کی چينی ساختہ فائروال اور فون ٹیپنگ نظام کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے۔‘

ایمنٹسی نے اپنی تازہ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’پاکستان نگرانی اور سنسرشپ کا یہ نظام چینی، یورپی اور شمالی امریکی کمپنیوں کی مدد سے چلا رہا ہے، جس کے ذریعے سوشل میڈیا سے تنقیدی مواد اور اختلافی آوازوں کو سینسر کیا جا سکتا ہے جو ریاستی نگرانی کی ایک بڑی مثال ہے۔‘

اس رپورٹ پر اب تک حکومت پاکستان کی جانب سے ردعمل سامنے نہیں آیا ہے جبکہ ایمنٹسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسے اس رپورٹ سے متعلق حکومت پاکستان نے کسی بھی خط کا جواب نہیں دیا۔

بی بی سی نے حکومتی مؤقف جاننے کے لیے وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ اور وزیر برائے آئی ٹی شزا فاطمہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم یہ خبر چھپنے تک ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم ایک عدالتی سماعت کے بعد گذشتہ برس ہی21 اگست کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے کہا تھا کہ 'وفاقی حکومت نے فائر وال لگانے کا حکم دیا ہے، پی ٹی اے اس پر عمل کر رہا ہے۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’لا فل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم کے ذریعے کم از کم 40 لاکھ موبائل فونز ایک ساتھ ٹیپ کیے جا سکتے ہیں، جبکہ انٹرنیٹ کے مواد کو فلٹر اور سنسر کرنے کے لیے استعمال ہونے والا ویب منیجمنٹ سسٹم 2.0 فائروال ایک مرتبہ میں 20 لاکھ انٹرنیٹ سیشنز کو بلاک کر سکتا ہے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان میں چینی فائروال کے استعمال کی خبریں گذشتہ برس بھی میڈیا میں گردش میں رہیں تھیں، جب انٹرنیٹ کی رفتار میں شدید کمی کی شکایات سامنے آئی تھیں۔ اس معاملے پر عدالتی سماعت کے دوران یہ معلومات بھی سامنے آئیں کہ پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیاں ’لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم‘ نامی ایک مخصوص نظام کے تحت خفیہ اداروں کو صارفین کا ڈیٹا فراہم کرتی ہیں۔

یورپی ٹیلی کمیونیکیشن سٹینڈرڈز انسٹٹیوٹ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق ’لا فُل انٹرسیپشن‘ کی اصطلاح کا مطلب نجی کمیونیکیشن جیسے کہ ٹیلی فون کالز یا ای میل میسجر تک سرکار یا حکومت کو رسائی دینا ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسا نظام ہے جسے پاکستانی صارفین کی فون کالز، پیغامات اور دیگر ڈیٹا تک رسائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایمنسٹی کی رپورٹ میں کیا دعویٰ کیا گیا ہے؟

ایمنسٹی کے مطابق ’تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح پاکستانی حکام نے جدید ترین نگرانی اور سنسرشپ ٹولز کی خفیہ عالمی سپلائی چین کے ذریعے غیر ملکی کمپنیوں سے ٹیکنالوجی حاصل کی ہے، خاص طور پر نیا فائر وال ’ویب مانیٹرنگ سسٹم‘ جسے ڈبلیو ایم ایس 2.0 کا نام دیا گیا۔‘

رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایم ایس فائر وال ابتدائی طور پر کینیڈا کی کمپنی سینڈوائن کی طرف سے فراہم کردہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھائی گئی۔

رپورٹ کے مطابق ’سنہ 2023 میں سینڈوائن کی تحلیل کے بعد چین میں مقیم ’گیج نیٹ ورکس‘ کی نئی ٹیکنالوجی، امریکہ سے نیاگرا نیٹ ورکس اور فرانس سے تھیلز کی طرف سے فراہم کردہ ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے، فائر وال کا ایک نیا ورژن بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔‘

’پاکستان کا ڈبلیو ایم ایس اور لمس واچ ٹاورز کی طرح کام کرتے ہیں اور عام شہریوں کی مسلسل جاسوسی کرتے رہتے ہیں۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل ایگنس کیلامارڈ نے بیان میں کہا کہ ’پاکستان کا ویب مانیٹرنگ سسٹم اور قانونی انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم عام شہریوں کی زندگیوں پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان میں، آپ کے ٹیکسٹ، ای میلز، کالز اور انٹرنیٹ تک رسائی سب کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ لیکن لوگوں کو اس مسلسل نگرانی کا کوئی علم نہیں ہے۔ یہ خوفناک حقیقت انتہائی خطرناک ہے کیونکہ یہ سایے میں کام کرتی ہے، اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کو شدید طور پر محدود کرتی ہے۔‘

’ثابت ہوا کہ نظام میں شفافیت، نگرانی اور احتساب نام کی کوئی چیز نہیں‘Reutersپاکستان میں چینی فائروال کے استعمال کی خبریں گذشتہ برس بھی میڈیا میں گردش میں رہیں تھیں

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر نے بی بی سی کی ثنا آصف کو بتایا کہ اس رپورٹ میں نگرانی کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے لیے فرضی نام استعمال ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق ’ان ناموں سے ٹیکنالوجی کے بارے میں درست معلومات حاصل نہیں ہوتی ہیں۔‘

آئی ٹی ماہر کے مطابق لا فل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم (لمس) کا نام دیا گیا ہے اور کینیڈین ٹیکنالوجی کے بعد جب چینی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہوا تو اس ورژن کو محض ویب مینجمنٹ سسٹم 2.0 کا نام دے دیا گیا جبکہ اس سے فائر وال کی حقیقت نہیں بدلی۔

ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ڈیجٹیل رائٹس فاونڈیشن‘ کی ایگزيکٹِو ڈائریکٹر نگہت داد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ایمنسٹی کی اس رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ اس حوالے سے پائے جانے والے خدشات بے بنیاد نہیں تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہمارے نظام میں شفافیت اور اس عمل کی نگرانی اور احتساب کے عمل میں کتنی کمی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر سیاسی کارکنان کو احتجاج میں شرکت کرنے پر گرفتار تک کیا گیا۔‘

نگہت داد کے مطابق ’لمس نامی ٹیکنالوجی زیادہ پریشان کن ہے جسے نام تو لافل کا دیا گیا مگر ہے یہ سب غیرقانونی۔‘ ان کے مطابق اس رپورٹ سے ’عوام میں اپنے حقوق سے متعلق بھی لاعلمی آگاہی کے نہ ہونے کے بارے میں پتا چلتا ہے۔‘

قومی سلامتی کو خطرہ یا پی ٹی آئی کا بیانیہ، پاکستانی حکومت نے ایکس پر پابندی کیوں لگائی؟پاکستان میں خفیہ اداروں کو شہریوں کی کالز اور پیغامات تک کیسے رسائی ملتی ہے؟سرد جنگ کے دوران جب پاکستانی فضائی اڈہ امریکہ کے زیراستعمال ہونے کا راز کھلاسوویت یونین کا دیا تحفہ جو برسوں تک امریکہ کی جاسوسی کرتا رہا’اس طرح کی ٹیکنالوجی کی خرید و فروخت پر کوئی پابندیاں بھی ہونی چاہییں‘

ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کی شریک بانی فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ 'ایمنسٹی کی رپورٹ گذشتہ برس کی قیاس آرائیوں کی تصدیق کرتی ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کرنے کے لیے کوئی وائر وال نصب کی گئی ہے۔

ان کے مطابق ’لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم‘ کے بارے میں بھی انکشاف ہوا تھا اور نگرانی کے اس نظام کو 'سرویلنس کیپٹلزم' بھی کہتے ہیں۔

فریحہ کے مطابق یہ اب ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بیرونی ممالک سے خرید کر یہاں نصب کی گئی ہے۔

ان کے مطابق ’اس ٹیکنالوجی کی خریدوفروخت پر یہ بحث بھی ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی پر کوئی پابندی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے انسانی حقوق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔‘ ان کی رائے میں ’جس طرح یہ ٹیکنالوجی حکومتوں کو فروخت کی جاتی ہے اور جس طرح استعمال کی جاتی ہے اس سے پرائیویسی اور آزادی اظہار رائے متاثر ہوتی ہے کیونکہ اس سے آپ کو سنا جا رہا ہے اور اس سے آپ کے 'ذرائع' کی شناخت محفوظ نہیں رہ سکتی۔‘

ان کے مطابق اس حوالے سے خدشات ابھی بھی موجود ہیں کیونکہ ’ٹارگٹڈ سرویلنس ہوتی ہے اور یہاں ایک ’ماس سرویلنس‘ سسٹم بھی موجود ہے۔‘

’فائر وال کے ذریعے یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ کس چیز تک رسائی ہو اور کس تک نہ ہو کیونکہ ہم نے دیکھا کہ لوڈنگ پر سسٹم رہتا ہے اور پھر وی پی این کے ذریعے رسائی حاصل کی جاتی مگر پھر یہ بھی سامنے آیا کہ وی پی این کو بھی بلاک کیا جاتا رہا ہے۔‘

فریحہ کے مطابق اس رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا کہ وہ کون سی کمپنیاں ہیں جنھوں نے اپنا سافٹ ویئڑ اور ہارڈ ویئر بیچا۔

پاکستان میں خفیہ اداروں کو شہریوں کی کالز اور پیغامات تک کیسے رسائی ملتی ہے؟ڈیپ فیک پورن: ’جب طلبا میری طرف دیکھتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ کہیں انھوں نے میری تصویر تو نہیں دیکھ لی‘حکومت پاکستان کو ’ڈیجیٹل قوم‘ کیوں بنانا چاہتی ہے اور اس پر ماہرین کو کیا تحفظات ہیں؟یوٹیوب پر ویوز اور آمدن سے متعلق وہ راز جو ایک کمپیوٹر نے اُگل دیےپاکستان میں ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک رسائی متاثر: ’اب تو وی پی این تبدیل کر کے بھی کچھ نہیں ہو رہا‘انڈیا میں 190 کروڑ روپے کا ڈیجیٹل فراڈ جو ایک خاتون کی کال اور لوکیشن ٹریس کرنے پر بے نقاب ہوا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More