اسلام آباد : ڈائریکٹوریٹ جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹس (ڈی جی آئی اینڈ پی) کے سربراہ مصطفیٰ جمال کاظمی کی مدتِ ملازمت میں پاسپورٹ سروسز کی ڈیجیٹائزیشن اور ریجنل پاسپورٹ دفاتر کے توسیعی اقدامات سامنے آئے، تاہم یہ کوششیں عوامی بے چینی اور سنگین انتظامی ناکامیوں کے باعث دب کر رہ گئیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران ملک بھر میں مبینہ طور پر لاکھوں شہریوں کو پاسپورٹ کے حصول میں شدید تاخیر کا سامنا رہا۔ حتیٰ کہ ایگزیکٹو اور ارجنٹ فیس ادا کرنے والے درخواست گزار بھی کئی ہفتوں تک پاسپورٹ کے منتظر رہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف عوامی سطح پر غصے کو جنم دیا بلکہ ڈائریکٹوریٹ کی کارکردگی پر سنگین سوالات بھی کھڑے کر دیے۔
حالیہ دنوں میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ نے معاملات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ رپورٹ میں امیگریشن اینڈ پاسپورٹس ڈائریکٹوریٹ پر غیر ملکی پوسٹنگز کے قوانین کی خلاف ورزی اور سرکاری ضابطوں کو نظر انداز کرنے کے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق 46 افسران اپنی غیر ملکی پوسٹنگ مکمل کرنے کے باوجود وطن واپس نہیں آئے اور وہ اب بھی مکمل تنخواہیں، الاؤنسز اور دیگر سہولیات وصول کررہے ہیں، جو قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی ہے۔
وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ڈائریکٹر جنرل مصطفیٰ جمال کاظمی کی کارکردگی سے سخت نالاں ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ محسن نقوی خاص طور پر 29 فروری 2024 کو جاری کیے گئے ان احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر برہم ہیں، جن میں امیگریشن اینڈ پاسپورٹس افسران اور اہلکاروں کی غیر ملکی تعیناتیوں کے حوالے سے ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق وزارتِ داخلہ نے اس حوالے سے مزید سخت اقدامات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی پر غور شروع کردیا ہے۔
قبل ازیں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس نے اپنے موجودہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) مصطفیٰ جمال کاظمی کی مدتِ اعانت (ڈیپوٹیشن) میں باضابطہ طور پر توسیع کی درخواست کی تھی۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ درخواست خود ڈی جی پاسپورٹ کی ہدایات پر ڈائریکٹوریٹ نے وزارتِ داخلہ کو ارسال کی، جس میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کو مزید کارروائی کے لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھجوایا جائے۔
تاہم اس اقدام نے وزارتِ داخلہ کے بعض حلقوں میں تحفظات کو جنم دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ جمال کاظمی مئی 2026 میں ریٹائرمنٹ کے اہل ہو رہے ہیں۔ اس تناظر میں اگر ان کی مدتِ اعانت میں توسیع بھی منظور کرلی جاتی ہے تو ان کے پاس عملی طور پر آٹھ ماہ سے بھی کم عرصہ باقی بچے گا۔
اسی محدود مدت کے باعث وزارت کے اندر اس معاملے پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ناقدین کا مؤقف ہے کہ جب بقیہ مدت اتنی مختصر ہو تو توسیع کے کیا حقیقی فوائد حاصل ہوں گے اور اس کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں؟
ادھر، بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف رسمی کارروائی تک محدود نہیں بلکہ اس کے محرکات اور وقت کا انتخاب بھی کئی حلقوں کے لیے توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اس حوالے سے حتمی فیصلہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی سفارشات اور حکومت کی منظوری کے بعد ہی سامنے آئے گا۔