سجاد حیدر کی قیادت میں چھ ستمبر 1965 کی صبح پشاور ایئر بیس سے اُڑے چھ طیارے سیالکوٹ کے قریب اپنے ہدف سے پانچ منٹ ہی دور تھے کہ انھیں حکم ملا کہ وہ سرحدی گاؤں اٹاری کا رخ کریں جہاں پچھلی رات انڈیا کے ٹینک پاکستانی علاقے میں آکر لاہور میں داخل ہونے کو ہیں۔
اپنی کتاب ’فلائٹ آف دی فالکن: ڈیمالِشنگ مِتھس آف انڈو پاک وارز1965-1971‘ میں سکواڈرن 19 کے کمانڈر سجاد حیدر لکھتے ہیں کہ ’لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں کہ جب یہ خبر ملی کہ پاکستان کے دل پر حملہ ہونے کو ہے تو ہمارے دلوں پر کیا قیامت ٹوٹی۔‘
’لاہور کا لفظ سن کر یوں لگا جیسے بجلی کا بہت بڑا جھٹکا لگا ہو۔ رگوں میں خون کی گردش پہلے ہی طوفانی تھی۔ وہ ریڈیو پیغام گویا چنگاری بن کر گرا اور ہمارے وجود کو شعلہ بنا گیا۔‘
کتاب میں وہ لکھتے ہیں ’اچانک میری نظر کئی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں پر پڑی جو سڑک پر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے چیخ کر کہا ’یہ انڈین ٹینک ہیں! ان کا کام تمام کرو۔ راکٹ جوڑوں میں فائر کرو۔‘
’میں نے ’ٹارگٹ نائن او کلاک‘ کی پکار لگائی اور پہلی بار راکٹ فائر کیے۔ فوراً نمبر تین نے اطلاع دی کہ ’لیڈر! ٹینک ہوا میں اڑ گیا۔ ہر ضرب کے بعد آگ اور پگھلتی ہوئی دھات کے شعلے آسمان کو چھو رہے تھے۔ ہم اتنی کم بلندی پر تھے کہ دھماکوں کے ملبے میں سے گزرنا پڑتا، جیسے اینٹی ایئرکرافٹ فائر کے بیچ اڑ رہے ہوں۔‘
وہ لکھتے ہیں ’دوسری یلغار میں سکواڈرن لیڈر مروِن مڈل کوٹ ایف-104 پر پہنچے تو میں نے نمبر پانچ اور چھ کو دوبارہ فارمیشن میں بلا لیا، کہ اب ہمیں فضائی تحفظ حاصل تھا۔‘
’میں نے توپ بردار گاڑی کو نشانہ بنایا، پھر ایک اور ٹینک کو پیچھے سے مشین گنوں سے چھید ڈالا۔ یاد آیا کہ نوشہرہ سکول میں، میں نے اور عمر خان آفریدی نے سیکھا تھا کہ انجن گرِل ہی ٹینک کا سب سے کمزور حصہ ہے۔ نتیجہ فوراً سامنے آ گیا، نمبر دو نے تصدیق کی کہ ٹینک جل رہا ہے۔‘
کتاب میں وہ لکھتے ہیں ’یہ میرا چھٹا اور آخری حملہ تھا اور جیسے ہی میں علاقے سے باہر نکل رہا تھا، میں نے ایک جھنڈے والی جیپ دیکھی جس پر میں نے فائرنگ کی۔ فائر لگنے سے پہلے میں نے دیکھا کہ ایک شخص کود کر باہر نکلا۔ مجھے فضائی جنگ کے مورخ پشپیندر سنگھ نے بتایا کہ واہگہ پر میں نے میجر جنرل نرنجن پرساد کی فلیگ جیپ کو نشانہ بنایا تھا، جو اپنی ڈویژن کو چھوڑ گئے تھے۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں’16سے 17 منٹ کے بعد میں نے واپسی کا حکمتب دیا جب گولہ بارود ختم اور ایندھن خطرناک حد تک کم ہو گیا۔‘
Getty Images
حیدر نے اپنی کتاب میں جنرل لچھمن سنگھ، جنرل سکھونت سنگھ اور مورخین جگن موہن اور سمیر چوپڑا کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’کرنل ڈیسمنڈ ہائیڈ کی قیادت میں پیش قدمی کرنے والی بٹالین، تین جٹ کو پاکستانی فضائیہ کے سیبرز نے مشین گن اور راکٹوں سے نشانہ بنایا۔ یونٹ نے اپنے تمام توپ خانے اور شرمن ٹینک کھو دیے۔ جنرل لچھمن سنگھ کے مطابق دشمن نے تقریباً 15 منٹ تک ہماری ہر گاڑی کو نشانہ بنایا اور ہماری فائرنگ سے بالکل بےپروا رہے۔‘
سجاد حیدرنے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ ’انڈین حملہ آور فوج کی اگلی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ جنرل سکھونت سنگھ کے بقول بٹالین کا کمانڈنگ آفیسر بٹالین کو چھوڑ کر صرف ایک جراب اور ایک جوتے میں بھاگ نکلا، اس کا نائب بھی پیچھے پیچھے سائیکل پر فرار ہو گیا اور امرتسر جا کر پناہ لی۔‘
فیصلہ کن معرکہ
جنگی مورخ کرنل اعظم قادری کے مطابق یہ فیصلہ کن معرکہ تھا۔
کرنل قادری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لاہور کا دفاع کرنے والی زمینی افواج کے پوزیشن سنبھالنے سے پہلے ہی پاکستانی فضائیہ نے دشمن کی پیش قدمی کرنے والی ڈویژنز کو تباہ کر کے لاہور کو بچا لیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’سجاد حیدر کے ساتھ فلائٹ لیفٹیننٹ محمد اکبر، ارشد سمیع، خالد لطیف، دلاور اور غنی اکبر نے اس دن لاہور اور بالآخر پاکستان کو بچا لیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہر پائلٹ نے چھ چھ حملے کیے اور یہ فارمیشن تقریباً سترہ منٹ تک ہدف پر موجود رہی تاکہ دشمن کا وار پوری طرح ناکام بنا دیا جائے۔ جب وہ واپس پلٹے تو میدان میں پگھلتا لوہا اور بلند ہوتے شعلے دشمن کی شکست کی گواہی دے رہے تھے۔‘
سجاد حیدر نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ ’اسی شام اپنے تیسرے مشن میں ہم نے پٹھان کوٹ میں انڈین فضائیہ کے اڈے کو تباہ کر دیا اور 13 لڑاکا طیارے برباد کیے۔ اگر وہ منصوبہ، جس کی بھرپور مشق کی گئی تھی اور جس میں پاکستانی فضائیہ کے بہترین طیارے اور پائلٹ شامل تھے، مکمل طور پر کامیاب ہوتا تو انڈین فضائیہ کے 50 سے زائد طیارے ناقابلِ تردید طور پر ختم ہو جاتے۔‘
’آدمپور پر ایم ایم عالم کی قیادت میں حملہ منصوبے کے مطابق نہ ہو سکا جبکہ ہلواڑہ پر سرفراز رفیقی کی قیادت میں حملہ انڈین فضائی نگرانی کے باعث ممکن نہ رہا۔ فضائی جھڑپ میں دو انڈین ہنٹر تباہ ہوئے، ان کے پائلٹ بچ نکلے، مگر دونوں پاکستانی پائلٹ (جن میں رفیقی بھی شامل تھے) جان سے گئے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ سیسِل چوہدری بحفاظت واپس لوٹ آئے۔‘
جب چین کی شمولیت کے خدشے پر امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے ذریعے انڈیا اور پاکستان میں جنگ بندی کروائی1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور ایوب خان کا خفیہ دورۂِ چین1965 کی جنگ میں ’جب پاکستان فضائیہ کی بمباری سے ڈر کر انڈین کمانڈر کھیتوں میں چھپ گئے‘کیا انڈیا اور پاکستان جنگ کے متحمل ہوسکتے ہیں؟چھ ستمبر سے پہلے کے معرکے
انڈین اور پاکستانی جنگی تاریخ کی کتابوں اور تجزیوں سے پتا چلتا ہے کہ جنگ کا فضائی مرحلہ یکم ستمبر 1965 کو شروع ہوا تھا جب انڈینفضائیہ نے پاکستانی فوج کے ’آپریشن گرینڈ سلَیم‘ کو روکنے کے لیےحملے کیے۔ اس پر پاکستانی فضائیہ نے دو ایف-86 سیبر طیارے روانہ کیے، جنھیں نمبر فائیو سکواڈرن کے سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی اور نمبر 15 سکواڈرن کے فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز بھٹی اڑا رہے تھے۔
چھمب کے اوپر ہونے والی اس فضائی جھڑپ میں رفیقی نے انڈین فارمیشن لیڈر اور ان کے وِنگ مین کو نشانہ بنایا، جبکہ بھٹی نے دوسرے دو طیارے مار گرائے۔
انڈینفضائیہ نے تقریباً 130 ویمپائر اور 50 سے زائد اوراگون طیارے محاذ سے ہٹا لیے۔
دونوں طرف سے دو ستمبر کو زمینی افواج کو فضائی مدد ملی مگر کوئی بڑا معرکہ نہ ہوا۔
ایئرکموڈورقیصر طفیل کے مطابق پی اے ایف کے سیبر طیاروں کے مقابلے کے لیے انڈیانے نیٹ لڑاکا طیارے پٹھان کوٹ بھیجے۔
انھوںنے اپنے ایک مضمون ’رن ، اٹس ا ے 104‘ میں لکھا ہے کہ تینستمبر کو سکواڈرن لیڈر ٹریور کیلور نے ایک سیبر مار گرانے کا دعویٰ کیا اور ویر چکر پایا مگر طیارہ بچ نکلا اور پائلٹ یوسف علی خان ستارہ جرات کے حق دار ٹھہرے۔ اسی دوران میں ایک انڈین نیٹ طیارہ غلطی سے پاکستان میں اترا اور پکڑا گیا۔
چار ستمبر کو ایک سیبر طیارہ گر گیا، جسے پی اے ایف فالکنز ویب سائٹ کے مطابقپاکستان نے اپنی زمینی فائرنگ جبکہ انڈیا نے اپنے حملے کا نتیجہ قرار دیا۔
Getty Imagesچھ ستمبر کے بعد
قیصر طفیل کے مطابق پائلٹ ایم ایم عالم نے سات ستمبر کو سرگودھا پر ایک ہی منٹکے اندر پانچ انڈین ہاکر ہنٹر طیارے گرانے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ انھوں نے تیس سیکنڈ میں چار پر فتح حاصل کی۔ تاہم انڈین فضائیہ نے اس دعوے کی تردید کی۔
سجاد حیدر اور انڈین مورخ پشپندر سنگھ چوپڑا کے مطابق اُس دن ایم ایم عالم کی دو مصدقہ فضائی فتوحات تھیں۔ پی اے ایف کے مطابق جنگ کے اختتام تک ان کے نام نو طیارے مار گرانے اور دو کو نقصان پہنچانے کا سہرا تھا۔
ایئر کمبیٹ انفارمیشن گروپ کے مطابق سرگودھا پر 33 انڈین حملے پسپا کیے گئے، کئی ہنٹر اور مسٹیئر طیارے تباہ ہوئے اور ایک انڈین پائلٹ قیدی بنایا گیا۔ سات ستمبر کو انڈیا کے فلائٹ لیفٹیننٹ کُک نے ایک سیبر مار گرایا۔ 10 ستمبر کو دریائے بیاس پر فضائی جھڑپ ہوئی جس میں ایک انڈین مسٹیئر گرا۔
پاکستانی محقق، مصنف اور دفاعی امور کے تجزیہ کار، طاہر نیاز کے ایک مضمون کے مطابق 13 ستمبر کو ایک نیٹ پاکستانی سیبر کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ رات کو انڈین کینبرا طیارے پشاور پر بمباری کی بجائے غلطی سے مال روڈ پر بم گرا بیٹھے۔ 16 تا 19 ستمبر مزید جھڑپوں میں دونوں طرف کے کئی طیارے تباہ ہوئے؛ انڈیا کے نیٹ کو سیبر سلیئر کہا گیا۔
ادتیا گپتانےاپنے مضمون ’ریڈ آن بدین‘ میں لکھا ہے کہ اکیسستمبر کو انڈین کینبرا طیاروں نے بدین ریڈار پر حملہ کیا۔ اسی روزسرگودھا سے واپسیپر ایئر کمبیٹ انفرمیشن گروپ کے مطابق ایک کینبرا پاکستانی سٹار فائٹر کے ہاتھوں مارا گیا۔
وجے کمار سنگھ نے اپنی کتاب ’لیڈر شپ ان دی انڈین آرمی‘ میں لکھا ہے کہ اسی دوران میں انڈیا کی فوج کے پہلےسربراہ کے ایمکاریاپا کے بیٹے کو قیدی بنایا گیا۔ پاکستان کے صدر ایوب خان نے رہائی کی پیشکش کی مگر کاریاپا نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئےجواب دیا: ’یا سب قیدی رہا کریں یا کسی کو نہ کریں۔‘
20 ستمبر کی دوپہر سکواڈرن لیڈر شربت علی چنگیزی کی قیادت میں چار سیبرز لاہور- قصور محور کے لیے اڑے۔ کچھ دیر بعد سکیسر ریڈار نے دشمن کی چار پروازوں کی اطلاع دی۔ انڈین فضائیہ نے ہنٹر اور نیٹ طیاروں کا ایک سکواڈرن لاہور کی سمت بھیجا۔
مورخ ایئر کموڈور قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ لاہور کی فضاؤں میں چھڑنے والی یہ ڈاگ فائٹ پتنگ بازی کی یاد دلاتی تھی۔ لوگ چھتوں پر چڑھ کر نعرے لگا رہے تھے۔ چنگیزی نے ایک ہنٹر کو نشانہ بنا کر مار گرایا جبکہ فلائٹ لیفٹیننٹ انورالحق ملک دشمن کی گولیوں کا شکار ہو کر ایجیکٹ کرنے پر مجبور ہوئے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ نذیر جیلانی نے ایک اور ہنٹر کو نقصان پہنچایا جبکہ نیٹس نے انڈینپائلٹ شرما کو بچایا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’یہ جھڑپ پاکستان ایئرفورس کی فضائی برتری کی شاندار جھلک تھی۔ نتیجہ 2-1 سے پاکستان کے حق میں رہا، مگر انور ملک کے نقصان کے باعث کسی پائلٹ کو انفرادی تمغہ نہ ملا۔ اس کے برعکس انڈین فضائیہ کو ہنٹرز کے بھاری نقصان نے ہلا کر رکھ دیا اور لاہور والوں کا نعرہ ’بو کاٹا‘ واقعی ایک فتح کی گونج بن گیا۔‘
دو دن بعدیعنی 22 ستمبر کی رات جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔
Getty Imagesکون جیتا، کون ہارا
انڈیا کے بریگیڈیئر امرچیمہ اپنی کتاب ’دی کرمزن چنار‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ جنگ پہلی ’مکمل‘ جنگ تھی جس میں انڈیا اور پاکستان دونوں نے بھرپور لڑاکا کارروائیاں کیں۔ پاکستانی فضائیہ نے 2364 لڑاکا پروازیں کیں جبکہ انڈینفضائیہ نے 3937 پروازیں کیں۔‘
امرچیمہ لکھتے ہیں کہ ’انڈین ایئر کموڈور جَa جیت سنگھ کے مطابق پاکستانی فضائیہ تکنیکی طور پر انڈین فضائیہ سے برتر تھی، خصوصاً ریڈار سسٹم اور جدید آلات کے بہتر استعمال کی وجہ سے۔ اس کے برعکس انڈین فضائیہ توسیع کے مرحلے میں اور غیر یقینی کیفیت کا شکار تھی۔‘
’انڈیا کی سرکاری جنگی تاریخ کے مطابق کسی فریق کو فیصلہ کن فتح نہ ملی۔ اگرچہ عام تاثر یہی ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے جنگ جیتی۔‘
امرچیمہ لکھتے ہیں ’جس جیت سنگھ اس نتیجے پر سوال اٹھاتے ہیں اور اسے انڈین فضائیہ کی سیاسی قیادت اور محتاط حکمتِ عملی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔‘
امرچیمہ لکھتے ہیں کہ ’پاکستانی فضائیہ نے سرگودھا اورپشاور کو مرکزِ ثقل بنایا جہاں سب سے زیادہ دفاعی وسائل مرکوز کیے گئے۔ منصوبہ یہ تھا کہ انڈین فضائی اڈوں پر پیشگی حملوں سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے مگر چھ ستمبر کے نقصان کے بعد یہ حکمتِ عملی ترک کر دی گئی۔‘
فضائی جنگ میں دونوں جانب متضاد دعوے سامنے آئے۔
مارٹن وان کریویلڈ نے اپنی کتاب ’دی ایج آف ایئرپاور‘ میں لکھا ہے کہ پاکستان کا دعویٰ تھا کہ اس نے انڈیا کے 104 طیارے تباہ کیے جبکہ اس کے اپنے 19 طیارے ضائع ہوئے۔ دوسری طرف انڈیا کا کہنا تھا کہ اس نے پاکستان کے 73 طیارے گرائے اور اپنے 35 کھوئے۔‘
انڈین فضائیہ کے مارشل ارجن سنگھ کا کہنا تھا کہ کم تر معیار کے باوجود اُنھوں نے تین دن میں فضائی برتری حاصل کر لی۔
لیکن مورخ کینیَتھ ویریل کے مطابق پاکستانی فضائیہ نے عمدہ کارکردگی دکھائی اور شاید اسے سبقت بھی حاصل رہی۔
ویریل اپنی کتاب ’سیبرزاوورمِگزایلے‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انڈیا کے پاس زیادہ جدید طیارے تھے مگر پاکستان کے پاس سیبر کے استعمال کا ایک دہائی کا تجربہ اور ماہر پائلٹ تھے۔‘
جان فرِکر اپنی کتاب ’بیٹل فار پاکستان: دی ایئر وار آف 1965‘ میں لکھتے ہیں کہ پاکستانی فضائیہ ممکنہ جنگ کے لیے تیار تھی اور اس کے سربراہ نور خان نے مکمل آزادانہ اختیار کا مؤثر استعمال کیا تاکہ انڈیا کی کسی بڑی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔‘
جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیا1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور ایوب خان کا خفیہ دورۂِ چینجب چین کی شمولیت کے خدشے پر امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے ذریعے انڈیا اور پاکستان میں جنگ بندی کروائی1965 کی جنگ میں ’جب پاکستان فضائیہ کی بمباری سے ڈر کر انڈین کمانڈر کھیتوں میں چھپ گئے‘کیا انڈیا اور پاکستان جنگ کے متحمل ہوسکتے ہیں؟