ہمارے ذہن میں اکثر کچھ آوازیں کیوں گونجتی ہیں اور ان کا مطلب کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 07, 2025

BBCچنئی کے کچھ شرکا نے یہ بھی کہا کہ وہ ان آوازوں سے ڈرتے ہیں

کانوں میں طرح طرح کی آوازیں آنا آپ کی سوچ سے زیادہ عام ہے۔

کئی دہائیوں پر محیط مطالعوں سے پتا چلا ہے کہ حیران کن طور پر بہت سے ایسے افراد جن کی ذہنی بیماری کی کوئی باقاعدہ تشخیص نہیں ہوئی ہوتی ہے ان میں سے اکثر اور بعض اوقات تین چوتھائی سے بھی زیادہ لوگ نامعلوم ذرائع سے آوازیں سننے کا اعتراف کرتے ہیں۔

مغربی نفسیات میں ان آوازوں کو ’آڈیٹری ہیلوسینیشنز‘ یعنی سماعت کا وہم کہا جاتا ہے۔ اسے نفسیاتی بیماریوں کی بنیادی علامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان بیماریوں سے منسلک سماجی مشکلات کی وجہ سے بہت کم لوگ کھلے عام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذہن میں آوازیں سنتے ہیں۔

لیکن کچھ ثقافتوں میں ان آوازوں کو نہ صرف قبول کیا جاتا ہے بلکہ ان کا جشن بھی منایا جاتا ہے۔ ان آوازوں کو رہنمائی فراہم کرنے والی یا انسان کو محفوظ رکھنے والی چیز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

تو کیا ہم مختلف ثقافتوں سے ذہنی صحت کے بارے میں کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ اور کیا ہم ان افراد کو، جو آوازیں سنتے ہیں، ایک مختلف زاویے سے دیکھ سکتے ہیں؟

امریکی یونیورسٹی سٹینفورڈ کی بشریات کی پروفیسر ٹینیا لورمنکا کہنا ہے کہ اس بات کا انحصار بھی اس ماحول، ثقافت اور لوگوں پر ہوتا ہے جن کے درمیان ہم پرورش پاتے ہیں۔ یہ سب عوامل طے کرتے ہیں کہ کوئی شخص جو آوازیں سنتا ہے، اُسے بیمار سمجھا جائے یا نہیں۔

ٹینیا لورمن ’آور موسٹ ٹرابلڈ میڈنس‘ یعنی ہماری سب سے پریشان کن دیوانگی نامی کتاب کی شریک مصنفہ ہیں۔

BBCنشہ آور اشیا کے استعمال سے پیدا ہونے والے ہیلوسینیشنز بھی مختلف ثقافتوں میں مختلف معانی رکھتے ہیں

امریکہ میں ذہنی امراض کی تشخیص کے لیے ایک معیاری کتاب استعمال کی جاتی ہے جسے ڈائیگانسٹک اینڈ سٹیٹیکل مینویل آف مینٹل ڈس آردر ( ڈی ایس ایم-5) کہتے ہیں۔ اس کتاب میں آوازیں سننا شیزوفرینیا اور سائیکوسس (یعنی شدید ذہنی خلل) کی بنیادی علامت کے طور پر درج ہے۔

تاہم مغربی ممالک میں بھی کچھ اقسام کی ہیلوسینیشنز کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ قبول کیا جاتا ہے۔ مثلاً، 80 فیصد تک غمزدہ امریکی اور یورپی لوگ یہ کہتے ہیں کہ انھیں اپنے فوت شدہ قریبی رشتہ داروں کی آوازیں، موجودگی یا شبیہہ کا احساس ہوتا ہے۔

اس کے برعکس، ایکواڈور میں اچور نامی قبائل مرنے والوں کا سوگ منانے کی اجازت نہیں دیتے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والوں کے خواب یا ان کے نظارے زندہ لوگوں کی روحوں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔

نشہ آور اشیا کے استعمال سے پیدا ہونے والے ہیلوسینیشنز بھی مختلف ثقافتوں میں مختلف معنی رکھتے ہیں۔

ایمازون کے سیونا قبیلے کے نزدیک ایسی آوازیں ایک متبادل حقیقت کا تجربہ ہیں جبکہ شوار قبیلہ یہ سمجھتا ہے کہ روزمرہ کی زندگی ایک دھوکہ ہے اور اصل حقیقت وہی ہے جو ہیلو سینیشنز کے دوران نظر آتی ہے۔

کسی شخص کا اپنی ہی ذہنی آواز پر ردِعمل بھی مختلف ثقافت کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے۔ امریکہ، گھانا اور جنوبی انڈیا کے مریضوں پر کی گئی ایک تحقیق میں پایا گیا کہ امریکی افراد عام طور پر ان آوازوں سے نفرت کرتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ وہ آواز کس کی ہے۔

لیکن انڈیا کے شہر چنئی اور گھانا کے شہر ایکرا کے مریض اکثر ان آوازوں کو خدا یا خاندان کے افراد کی آواز سمجھتے ہیں اور ہمیشہ ان سے پریشان بھی نہیں ہوتے۔

’امریکی ان آوازوں کو فرضی یا خیالی سمجھتے ہیں‘

چنئی میں مطالعے میں شریک آدھے سے زیادہ لوگوں نے کہا کہ وہ خاص رشتہ داروں کی آوازیں سنتے ہیں، جیسے والدین، ساس یا بہنیں۔ یہ آوازیں روزمرہ کے کاموں کے متعلق مشورے دیتی تھیں، جیسے بازار جانا، کھانا بنانا، یا نہانا وغیرہ۔

ایک شخص نے کہا: 'یہ ایسی آوازیں ہیں جیسے بڑے چھوٹوں کو مشورہ دے رہے ہوں' جبکہ ایک دوسرے نے کہا کہ 'یہ مجھے وہ سکھاتی ہیں جو مجھے نہیں آتا۔'

چنئی کے شرکا کے لیے یہ آوازیں زیادہ حقیقت سے قریب لگتی تھیں، اور صرف چند افراد ہی ایسے تھے جنھوں نے کہا کہ وہ ان آوازوں کو نہیں پہچانتے۔

ایکرا کے کچھ لوگوں نے تو یہ تک کہا کہ یہ آوازیں ان کی زندگی پر مثبت اثر ڈالتی ہیں۔ ایک شخص نے لورمن کو بتایا: ’یہ مجھے صرف صحیح کام کرنے کا کہتی ہیں۔ اگر یہ آوازیں نہ ہوتیں تو میں کب کا مر چکا ہوتا۔‘

اس کے برعکس، امریکی شرکا ان آوازوں کو فرضی یا خیالی سمجھتے تھے۔ ایک امریکی نے کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ کچھ ہے، بس میرا دماغ ہی اس طرح کام کرتا ہے۔‘

چنئی کے کچھ شرکا نے یہ بھی کہا کہ وہ ان آوازوں سے ڈرتے ہیں، اور انھیں ڈانٹنے والی آوازیں ناپسند ہیں. لیکن بعض اوقات یہ آوازیں ہنسی مذاق بھی کرتی ہیں، جو نہ امریکہ اور نہ ہی گھانا کے لوگوں کے بیانات میں نظر آیا۔

لورمن کے مطابق غیر مغربی ثقافتوں کے افراد اپنے ذہن کو دوسروں سے جڑا ہوا سمجھنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر گھانا کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا وجود ان کے تعلقات کے ذریعے دوسروں سے جڑا ہوا ہے اور اگرچہ ایکرا کے شرکا مانتے ہیں کہ آوازیں سننا ذہنی بیماری کی علامت ہو سکتی ہے، تب بھی ان کے لیے یہ سماجی طور پر زیادہ قابل قبول ہے۔

تاہم، لورمن کا کہنا ہے کہ گھانا میں لوگ بعض اوقات تنقیدی یا پرتشدد آوازوں کا ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ مقامی طور پر جادو ٹونے سے متعلق بدنامی کا خوف ہوتا ہے۔

روحانیت، مذہب یا مستقبل میں جھانکنے کی کوشش: دنیا میں علمِ نجوم میں دلچسپی کیوں بڑھ رہی ہے؟کیا آپ کی تاریخ پیدائش آپ کی آنے والی زندگی اور قسمت پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟’روحانی پیروں‘ کا مسائل کے حل اور جِن نکالنے کے نام پر خواتین کا ریپ اور جنسی استحصال کرنے کا انکشاف’ایک راہب نے میرا ریپ کیا، پھر مجھے حمل گرانے پر مجبور کیا‘

لورمن کہتی ہیں کہ کچھ ثقافتیں اسے بیماری کے طور پر نہیں دیکھتیں۔ وہ نہ صرف انھیں قبول کرتی ہیں بلکہ بعض اوقات ان کا جشن بھی مناتی ہیں۔ وہ گھانا کے لوگوں کی مثال دیتی ہیں کہ ان کے نزدیک یہ آوازیں دراصل خدا سے رابطے کا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔

لورمن کہتی ہیں: 'دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مرنے والوں کو دیکھیں، روحوں سے بات کریں، یا پریوں سے رابطہ کریں۔'

جب بیسویں صدی میں مغربی ماہرینِ نفسیات اس بات پر متفق ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ ذہنی بیماریوں کی تعریف اور تشخیص کیسے کی جائے، تب رُوتھ بینیڈکٹ اور جین مرفی جیسے ماہرینِ بشریات یہ مشاہدہ کر رہے تھے کہ غیر مغربی ثقافتوں میں انہی علامات کے حامل افراد کو قبول کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ ان کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر، جین مرفی نے نائجیریا کے مغربی علاقے کے یوروبا زبان بولنے والے ایگبا یوروبا قبیلے کے ساتھ وقت گزارا۔ وہاں انھوں نے لوگوں کو آوازیں سنتے دیکھا، جو دوسروں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے کہ یہ آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں، حالانکہ وہ ذریعہ کسی اور کو دکھائی یا سنائی نہیں دیتا تھا۔

مرفی نے لکھا کہ یہ تجربہ ایگبا یوروبا لوگوں میں کافی عام تھا اور اس سے نہ تو سننے والے شخص کو کوئی پریشانی ہوتی تھی، اور نہ ہی آس پاس کے لوگوں کو۔

لورمن کہتی ہیں کہ زیادہ تر ثقافتوں میں ایسے خیالات کے لیے الفاظ موجود ہیں جو ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ انگریزی میں ہم انھیں 'ٹیلی پیتھی'، 'جادو' یا 'الہام' جیسے الفاظ سے بیان کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انسانوں کو عام طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے خیالات نجی ہوتے ہیں، لیکن ہم میں سے اکثر نے کبھی نہ کبھی ایسا تجربہ کیا ہوگا جو اس احساس کے خلاف جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: 'کبھی کبھی کوئی طاقتور خواب ایسا لگتا ہے جیسے وہ باہر سے کوئی پیغام دے رہا ہو۔ کبھی آپ کسی پر شدید غصہ ہوں، جو آپ کے آس پاس موجود نہ ہو، اور آپ دل میں اسے کوسیں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بات واقعی اُس تک پہنچ سکتی ہے۔'

BBCمغربی نفسیات میں ان آوازوں کو ’آڈیٹری ہیلو سینیشنز‘ یعنی سماعت کا وہم کہا جاتا ہے’برطانوی مریضوں کو خودکشی کے احکامات دینے والی آوازیں سنائی دیتی تھیں‘

دو شخصی خصوصیات ہیں جنھیں 'پوروسٹی اور ایبسورپشن کہا جاتا ہے، وہ یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہیں کہ کچھ لوگ بیرونی آوازوں اور ماورائی تجربات کو زیادہ آسانی سے کیوں قبول کرتے ہیں۔‘

پوروسٹی سے مراد ذہن میں بیرونی خیالات کے داخل ہونے کے لیے آمادگی ہے۔ جبکہ ایبسورپشن کا مطلب ہے کہ انسان اپنے موجودہ حقیقی ماحول سے ہٹ کر تخیل کی دنیا میں کھو جائے، جس سے باطنی اور ظاہری تجربات کے درمیان کی لکیر دھندلا جاتی ہے۔

ایسے افراد کسی تجربے کو فوری طور پر غیر حقیقی نہیں مانتے، بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس تجربے سے کیا سیکھا جا سکتا ہے۔

ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انڈیا کے ذہنی مریضوں میں ایک سال بعد منفی علامات کم پائی گئیں اور وہ سماج میں طور پر بہتر کام کر رہے تھے، چاہے وہ دوا پر ہوں یا نہیں۔

آوازوں کو قبول کرنے اور ان سے بات چیت کرنے پر آمادگی شاید مختلف ثقافتوں میں ذہنی بیماری سے صحت یابی کے فرق کی وضاحت کرتی ہے۔

نائجیریا اور برطانیہ کے شیزوفرینیا کے مریضوں پر کی گئی ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ برطانوی مریض زیادہ تر سخت اور بدتمیز آوازیں سنتے تھے۔ ایک اور تحقیق میں، پاکستانی اور برطانوی مریضوں کا موازنہ کیا گیا تو برطانوی مریضوں کو خودکشی کے احکامات دینے والی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔

جب کچھ افراد ان آوازوں کو انتہائی منفی انداز میں محسوس کرتے ہیں، تو اس کے طبی اثرات ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں آوازیں سننا ایک سنجیدہ، اور بلاشبہ، بیماری کی علامت بن جاتا ہے۔ امریکی مریضوں پر کیے جانے والے کئی مطالعات میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ اکثر کہتے ہیں کہ جو آوازیں وہ سنتے ہیں ان کے ارادے پرتشدد ہوتے ہیں۔ کچھ مریضوں نے لورمن کو بتایا کہ انھیں سنائی دینے والی آوازیں انھیں دوسروں کو اذیت دینے اور ان کا خون پینے کا کہتی ہیں، جب کہ بعض افراد نے کہا کہ آوازیں انھیں لڑائی میں شامل ہونے کی دعوت دیتی ہیں۔

لورمن تجویز کرتی ہیں کہ معاشرتی عوامل اس فرق کی کچھ حد تک وضاحت کر سکتے ہیں۔ امریکہ میں بندوقوں سے متعلق تشدد کی شرح دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ وہاں ذہنی بیمار افراد کے بے گھر ہونے اور تشدد کا شکار ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔

لورمن نے شکاگو کے ایک ایسے علاقے میں کام کیا جہاں جیلوں کے علاوہ، شیزوفرینیا کے مریضوں کی سب سے زیادہ آبادی موجود ہے۔ وہاں وہ اس بات میں دلچسپی لینے لگیں کہ کس طرح ثقافت انسانوں کے ذہنی بیماری کے تجربے کو متاثر کرتی ہے۔

کچھ مریض مختلف اداروں کے درمیان مسلسل منتقل ہوتے رہتے ہیں، جیسے کہ جیل، ہسپتال، سڑک، اور شیلٹر ہاؤسز کے درمیان۔ اسے 'انسٹی ٹیوشنل سرکٹ' کہا جاتا ہے۔

لورمن کہتی ہیں: ’وہ ایسی آوازیں سنتے ہیں جو کہتی ہیں کہ لوگ ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘

اور بعض اوقات اس ادارہ جاتی دائرے میں واقعی کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان کا پیچھا کرتے ہیں، ان کا مذاق اڑاتے ہیں یا ان کی تضحیک کرتے ہیں۔

BBC

تنقیدی یا پرتشدد آوازیں اس بات کی سب سے بڑی پیش گوئی کرتی ہیں کہ آیا کسی کو نفسیاتی عارضے کی طبی تشخیص دی جائے گی۔

ثقافتی فرق اس بات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے کہ لوگ بیماری سے کیسے صحت یاب ہوتے ہیں۔

چنئی سے آوازیں سننے والے مریضوں اور کینیڈا کے مونٹریال کے ایک گروپ کی ایک اور تحقیق میں، جن کی پانچ سال کے عرصے میں نگرانی کی گئی، انڈین مریضوں نے ایک سال کے بعد اپنی دواؤں کو بند کرنے کا انتخاب کیا۔

انڈین مریضوں میں بھی کم منفی علامات اور معاشرے میں کام کرنے کی بہتر صلاحیت تھی، قطع نظر اس کے کہ وہ اپنی دواؤں پر تھے یا بند کر رہے تھے۔

مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اشوک مالا کہتے ہیں کہ معاشرے میں کام کرنے کی انڈیا اور کینیڈا میں مختلف تعریف ہو سکتی ہے۔

اُن کے بقول انڈیا میں گھر چلانا اور بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کرنا بھی اہم ہوتا ہے۔ لیکن مغرب میں نوکری نہ کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

ادویات اور کیس مینجمنٹ کے لحاظ سے علاج تقریباً ایک جیسے تھے۔

مالا بتاتے ہیں کہ اگرچہ اینٹی سائیکوٹک دوائیں کارآمد ہوتی ہیں، لیکن وہ بیماری کی علامات کو دور کرنے کے ہی کام آتی ہیں۔

مالا کہتی ہیں کہ ’اینٹی سائیکوٹک ادویات واقعی صرف مثبت علامات کے لیے کام کرتی ہیں، جو ایسی چیزیں ہیں جو وہاں نہیں ہونی چاہییں، جیسے وہم یا فریب۔

مالا نے مشورہ دیا کہ انڈیا اور کینیڈا کے درمیان سماجی اختلافات علاج کی کامیابی میں فرق کی وضاحت کرنے کے لیے کسی نہ کسی طریقے سے چلتے ہیں۔

مثال کے طور پر چنئی میں شیزوفرینیا والے لوگوں میں بے گھر ہونا کم عام ہے۔

مالا اس بات کو ان خاندانوں کے سامنے رکھتے ہیں جو دماغی بیماری کو گھر کے اندر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ خاندان کے کسی فرد کو شیزوفرینیا کے ساتھ ہونے سے منسلک کسی بھی بدنما دھبے سے محفوظ رکھا جائے۔

مالا بتاتے ہیں کہ کینیڈا میں خاندان اپنےبیٹوں اور بیٹیوں، بھائیوں اور بہنوں کی دیکھ بھال میں اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں، جتنی کہ وہ انڈیا میں ہیں۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کے ساتھ رابطے اور رازداری کی جدید ترین قانونی حیثیت ایک مسئلہ ہو سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ شمالی امریکہ میں ایک نوجوان بالغ زیادہ آسانی سے گھر سے نکل سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو رابطہ منقطع کر سکتا ہے۔

سائیکوسس سے صحت یابی کو بہتر بنانے میں خاندانی مداخلتیں کارآمد ثابت ہوئی ہیں۔

مالا کہتی ہیں کہ ’چنئی میں، کوئی مریض شاید ہی کبھی اپنے خاندان کے کسی فرد کے بغیر کلینک میں آتا ہو۔‘

اگر بڑھتی عمر کے ساتھ یادداشت کی کمزوری سے بچنا ہے تو یہ چار عادات فوراً چھوڑ دیںکیا آپ کی تاریخ پیدائش آپ کی آنے والی زندگی اور قسمت پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟پوپ فرانسس کی وفات کو ایک نجومی کی 500 سال پرانی پیشگوئیوں سے کیوں جوڑا جا رہا ہے؟’روحانی پیروں‘ کا مسائل کے حل اور جِن نکالنے کے نام پر خواتین کا ریپ اور جنسی استحصال کرنے کا انکشاف
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More