تھائیرائیڈ کی بیماریوں کے شکار افراد کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز متوازن اور درست غذا ہے۔ یہ غدود جسم کے میٹابولزم کو قابو میں رکھتا ہے، اسی لیے جو کچھ ہم کھاتے ہیں، وہ براہِ راست ہارمونی توازن پر اثر ڈالتا ہے۔ بعض غذائیں دواؤں کے اثر کو کم کر دیتی ہیں یا علامات کو مزید بڑھا دیتی ہیں، اس لیے محتاط انتخاب ناگزیر ہے۔
تھائیرائیڈ اور کھانے کا تعلق
ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ چکنائی، سوڈیم اور ریفائنڈ شوگر والی اشیاء تھائیرائیڈ کے لیے خطرناک ہیں۔ اسی طرح چند خاص خوراکیں جیسے سویا مصنوعات، پراسیسڈ فوڈز، اور زیادہ کیفین بھی بیماری کو پیچیدہ بنا سکتی ہیں۔
سویا مصنوعات، اعتدال ضروری
ٹوٖفو، سویا دودھ اور دیگر اشیاء صحت مند پروٹین کا ذریعہ ہیں، مگر ان میں موجود اجزاء ہارمونی توازن بگاڑ سکتے ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو آیوڈین کی کمی کا شکار ہیں، ان کے لیے احتیاط لازمی ہے۔
گلوٹن اور آٹوامیون مسائل
بریڈ، پاستا اور دیگر گلوٹن والی خوراک بعض افراد میں آنتوں میں سوزش بڑھا دیتی ہے اور دواؤں کے اثر کو کم کر دیتی ہے۔ آٹوامیون تھائیرائیڈ کے مریضوں کے لیے گلوٹن کم کرنا فائدہ مند رہ سکتا ہے۔
پراسیسڈ اور تلی ہوئی غذائیں
زیادہ نمک اور تیل والی اشیاء جیسے فاسٹ فوڈ، بلڈ پریشر اور میٹابولزم دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یہ تھائیرائیڈ ہارمونز کی کارکردگی کو کمزور کر سکتی ہیں۔
ریفائنڈ شکر اور میٹابولزم
کیک، مٹھائیاں اور میٹھے مشروبات نہ صرف شوگر لیول بگاڑتے ہیں بلکہ وزن بڑھانے اور سستی جیسی علامات کو بھی بدتر کرتے ہیں۔
الکحل اور کیفین
الکحل تھائیرائیڈ ہارمون کو دبانے کا سبب بنتی ہے، جبکہ کافی اور چائے میں موجود کیفین دواؤں کے جذب میں رکاوٹ ڈالتی ہے اور دل کی دھڑکن بڑھا سکتی ہے۔
کچی سبزیاں اور پھل
بروکلی، بند گوبھی اور برسلز اسپراوٹس کو کچا کھانے سے اجتناب کریں، کیونکہ یہ آیوڈین جذب میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان سبزیوں کو پکا کر کھانا بہتر ہے۔ اسی طرح آڑو اور اسٹرابیری زیادہ مقدار میں کھانے سے بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
ڈیری مصنوعات اور آیوڈین
دودھ اور پنیر میں آیوڈین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ غذائی ضرورت پوری کرتے ہیں، لیکن ہائپر تھائیرائیڈ کے مریضوں کے لیے اس کی زیادتی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
تھائیرائیڈ کے مریضوں کو اپنی غذا کا محتاط انتخاب کرنا چاہیے۔ کم چکنائی، کم گوئٹروجین اور متوازن خوراک بیماری کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ کسی بھی بڑی تبدیلی سے پہلے معالج سے مشورہ کرنا سب سے محفوظ راستہ ہے۔