Sun Picturesرجنی کانت چار بہن بھائیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا بچپن غربت میں گزرا۔ ان کے والد پولیس کانسٹیبل تھے۔
شوبز میں طویل عرصے تک جگہ بنائے رکھا ایک مشکل کام ہے۔
انڈین سپر سٹار رجنی کانت کے لیے فلموں کے 50 سال محض نام بنائے رکھنے تک محدود نہیں بلکہ وہ مسلسل راج کی علامت ہیں۔ انھوں نے سینیما گھروں کو مندروں میں بدل دیا جہاں ناظرین عقیدت مندوں کی طرح ان کے گُن گاتے ہیں۔
ان کا زیادہ تر کام تمل فلم انڈسٹری میں رہا جہاں ان کی فلموں نے کئی نسلوں کو لطف اندوز کیا ہے۔
1975 میں ایک نوجوان ’شیواجی راؤ گیکواڑ‘، جو بعد میں رجنی کانت کے نام سے مشہور ہوئے، مدراس (اب چنئی) کے فلم ’اپوروا راگنگل‘ کے سیٹ پر پہنچے۔ وہاں انھوں نے ایک مختصر لیکن یادگار کردار میں ایک دبنگ شخص کا کردار ادا کیا۔
تقریباً پانچ دہائیوں اور 170 فلموں کے بعد رجنی کانت کی نئی فلم ’کولی‘ رواں برس 14 اگست کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ان کے فلمی سفر کا جشن منایا گیا ہے اور اس کی کہانی کچھ حصوں میں ان کی اپنی زندگی سے مماثلت رکھتی ہے۔
اس میں وہ ایک مزدور طبقے کے ہیرو کا کردار ادا کرتے ہیں جو ایک دولت مند اور جابر ولن سے مقابلہ کرتا ہے۔
74 سالہ یہ سپر سٹار اپنے آپ میں ایک عظیم رجحان ہیں۔ ان کے لیے مندر بنائے گئے ہیں، فلم پروموشنز کے دوران ان کی تصاویر جہازوں پر سجائی جاتی ہیں اور دور دراز جاپان میں انھیں وہی محبت ملتی ہے جو عام طور پر مقامی ستاروں کے لیے مخصوص ہے۔
رجنی کانت کی کہانی ایک ’باہر سے آنے والے‘ شخص کی کہانی ہے جو انڈین سینیما کا سب سے محبوب ستارہ بن گیا۔ ایک مزدور طبقے کا ہیرو جس کے مداح زبان، طبقے اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہیں۔
ان کی زندگی غربت سے لے کر بے مثال شہرت تک کا ایک غیر معمولی سفر ہے، جس نے انھیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ (انڈیا کا سب سے بڑا فلمی اعزاز) اور پدم بھوشن (دوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز) دلایا۔
لاکھوں مداحوں اور تقریباً 50 ہزار فین کلبوں کے لیے یہ سالگرہ ان کے ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک اور موقع ہے۔
ان کے لیے وہ ایک دیوتا کی مانند ہیں جن کی عظمت افسانوی ہے۔ ایک پرجوش مداح اے راجندرن کہتے ہیں ’دیوتاؤں کو کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہونا پڑتا ہے۔ رجنی کانت کے اندر وہ طاقت ہے جو ہمیں ان کی طرف متوجہ کرتی ہے۔‘
AFP via Getty Imagesرجنی کانت کے فین کلچر میں ہر فلم کی ریلیز ایک مذہبی رسم کی طرح ہوتی ہے۔ پردے پر سکے اچھالے جاتے ہیں، کافور جلایا جاتا ہے، پھول برسائے جاتے ہیں، بڑے بڑے کٹ آؤٹس پر دودھ چڑھایا جاتا ہے اور مداح ان کا نام لے کر چلاتے ہیں۔
نمن رام چندرن جو Rajinikanth: A Definitive Biography کے مصنف ہیں، لکھتے ہیں کہ رجنی کانت کے مداح وال سٹریٹ کے بینکرز سے لے کر تمل ناڈو کی دھوبن تک پھیلے ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق رجنی کانت کے پردے پر جادو کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ عام آدمی کے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔ یہ خواب کہ اپنی انسانیت کو برقرار رکھتے ہوئے تمام مشکلات پر قابو پایا جائے۔
2015 میں ان پر بننے والی دستاویزی فلم ’فار دا لو آف آ مین‘ (رنکو کلسی اور جوئوجیت پال کی بنائی ہوئی) نے اس جنون کو پردے پر بخوبی دکھایا۔ جس میں مداح اپنے گھر گروی رکھتے ہیں، خاندانی زیورات بیچتے ہیں اور فلم کی ریلیز کو زندگی کا سب سے بڑا تہوار سمجھتے ہیں۔
جیسا کہ ہدایتکارہ کلسی نے کہا ’یہ محض فین ہونا نہیں، یہ ایک شناخت ہے۔ رجنی وہی ہیں جو یہ لوگ بننا چاہتے ہی۔ سادہ، بااخلاق، مگر وقت آنے پر طاقتور۔‘
چنئی میں ان کا گھر ہزاروں مداحوں کے لیے ایک مزار کی حیثیت رکھتا ہے جہاں لوگ صرف ایک جھلک دیکھنے، دعا لینے یا نومولود کے نام کی دعا کروانے کے لیے آتے ہیں۔
شاہ رخ خان کا ’بازی گر‘ سے ’جوان‘ تک کا سفر: ایک اینٹی ہیرو جو پہلے ’کِنگ آف رومانس‘ اور پھر سُپرسٹار بنا’کروڑوں کی ڈیل‘ جس پر سلمان خان نے مقبول کاروباری شخصیت کو ٹی وی پر ’دوغلے پن‘ کا طعنہ دیاامریش پوری: بالی وڈ کے خطرناک ولن ’موگیمبو‘ جو فلم کے ہیرو سے بھی زیادہ مشہور ہوئےبلاک بسٹر فلمیں، تنہائی اور نیند کی گولیاں: عظیم فلمساز گرو دت کی زندگی کا وہ پہلو جس کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں
2016 میں ایئر ایشیا نے ان کی فلم کبالی کی ریلیز کے موقع پر ایک طیارے پر ان کی تصویر لگائی۔ گویا ان کی شبیہ فلم کو آسمانوں تک لے گئی ہو۔
رجنی کانت کے فین کلبوں کا جنون اکثر سماجی خدمت میں بھی جھلکتا ہے۔
خون کے عطیات والے کیمپ، ریلیف ڈرائیوز اور کمیونٹی ایونٹس ان کے نام پر منعقد کیے جاتے ہیں۔
ان کی بیٹی ایشوریا رجنی کانت اپنی کتاب Standing on an Apple Box میں لکھتی ہیں: ’میرے والد گھر پر کبھی سپر سٹار کی طرح برتاؤ نہیں کرتے۔ وہ صرف فلموں کی شوٹنگ کے دوران اداکار والا برتاؤ کرتے ہیں۔‘
رجنی کانت کے فین کلچر میں فلم اور زندگی کی حدیں دھندلا جاتی ہیں۔ ہر فلم کی ریلیز ایک مذہبی رسم کی طرح ہوتی ہے۔ میں نے خود بطور نئی رپورٹر کئی بار پہلے دن کے پہلے شو پر یہ جنون دیکھا ہے۔
پردے پر سکے اچھالے جاتے ہیں، کافور جلایا جاتا ہے، پھول برسائے جاتے ہیں، بڑے بڑے کٹ آؤٹس پر دودھ چڑھایا جاتا ہے اور مداح ان کا نام لے کر چلاتے ہیں۔
رجنی کانت کی فلم دیکھنا محض ایک شو نہیں بلکہ ایک میلے جیسا تجربہ ہے جس میں سٹریٹ کریڈ، مزدور طبقے کا فخر، اجتماعی خوشیاں اور جنون نظر آتا ہے۔
تین گھنٹے تک چلنے والے اس سفر میں مافوق الفطرت انصاف، مزاح، رومانس اور انتقام دکھایا جاتا ہے اور جیسے ہی فلم ختم ہوتی ہے، سینما ہال پاپ کارن سے ایسے بھر جاتے ہیں جیسے کنفیٹی پھینکی گئی ہو۔ باہر سڑکوں پر مداح خوشی کے نعرے لگاتے اور جشن مناتے نکل آتے ہیں۔
اس سال یہ جوش اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ مدورائی ضلع میں ایک مداح نے رجنی کانت کے لیے باقاعدہ مندر تعمیر کیا ہے جسے 5500 سے زیادہ پوسٹروں اور تصویروں سے سجایا گیا ہے اور وہاں ان کے مجسمے کی پوجا کی جاتی ہے۔
رجنی کانت چار بہن بھائیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا بچپن غربت میں گزرا۔ ان کے والد پولیس کانسٹیبل تھے۔
رجنی کانت یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’جب میں نے کالج چھوڑا تو میرے والد نے مجھے قلی (پورٹر) کا کام کرنے بھیج دیا۔‘
بعد ازاں ایک رشتہ دار نے ان کے لیے بس کنڈکٹر کی نوکری کا بندوبست کیا۔
تھیٹر کے لیے ان کا شوق دیکھ کر ایک دوست نے چندہ جمع کیا تاکہ انھیں سرکاری ادارے ’مدراس فلم انسٹی ٹیوٹ‘ میں داخلہ دلوایا جا سکے۔ یہیں تمل فلم ساز کے بالا چندر نے ان کے فن کو پہچانا اور 1975 میں انھیں پہلا کردار دیا۔
رجنی کانت اس وقت کے تمل سنیما کے روایتی ہیروز سے بالکل مختلف تھے۔ ایم جی رام چندرن جیسے افسانوی ہیروز گوری رنگت اور نرم لہجے کے مالک تھے۔ لیکن رجنی کانت کی سانولی رنگت، دیہی لب و لہجہ اور اسٹریٹ سٹائل ہی ان کی فلمی شناخت کا خاصہ بن گئی۔
رجنی کانت کی اس مقبولیت کا ایک بڑا راز ان کے کہانیوں کے انتخاب اور ادا کیے گئے کرداروں کی وسعت میں چھپا ہے۔
انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اینٹی ہیرو اور ولن کے کرداروں سے کیا جو فلموں اپوروا راگنگل، موندرو مدچو اور پتھینارو ویتھینیلے میں مقبول ہوئے۔ بعد میں وہ اخلاقی پیچیدگی والے کرداروں میں نظر آئے جیسے اوارگل، جانی، ملوم مالارم، اور جذباتی کرداروں میں بھی جیسے بھوانا اورو کیل ویکوری۔
1980 میں بلاک بسٹر بِلا نے رجنی کانت کو ایکشن ہیرو کے طور پر متعارف کروایا۔ بعد میں وہ ہٹ تمل فلموں، کئی مشہور بالی وڈ فلموں اور یہاں تک کہ امریکی فلم بلڈ سٹون میں بھی نظر آئے۔
1990 کی دہائی سے وہ بڑے اور منفرد ہیرو کے کردار اور روحانی شخصیات جیسے شری راگھووندھرار اور بابا کے کرداروں لیے مشہور ہوئے۔ 1998 میں ان کی فلم موتھو جاپان میں غیر متوقع طور بہت مقبول ہو گئی۔
ان کی فلمیں جیسے سواجی اور اینترین جس میں انھوں نے روبوٹ کا کردار ادا کیا، بھی بلاک بسٹر ثابت ہوئیں۔ صحت کے مسائل کے باوجود ان کی فلمیں ہمیشہ ہی شاندار کامیابی حاصل کرتی رہیں۔
ایک وقت تھا جب رجنی کانت کے سگریٹ پھینکنے والے انداز، دھوپ کے چشمے کی ٹوئسٹ اور طنزیہ مزاح سے بھرپور ڈائیلاگز کی وجہ سے نقاد انھیں صرف ’سٹائل کنگ‘ کے طور پر دیکھتے تھے۔
لیکن ان کے کرداروں میں شامل اصول، وفاداری، حوصلہ، مزاح اور انصاف، یہ چیزیں ہمیشہ سے ہی سب کے لیے اہم اور قابل احترام رہی ہیں۔
فلم ساز ایس پی مٹھورامان جن کے ساتھ انھوں نے 25 فلموں میں کام کیا، ان کی کامیابی کا راز ’محنت، لگن، نیک نیتی اور ساتھی اداکاروں، پروڈیوسرز اور ڈسٹری بیوٹرز کے ساتھ ذمہ دارانہ رویے‘ کو قرار دیتے ہیں۔
تمل ناڈو میں جہاں ان کے بہت سے فلمی ساتھی سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں، رجنی کانت نے بھی اس میدان میں ہلکی پھلکی دلچسپی دکھائی لیکن کبھی اپنی سیاسی جماعت بنائی اور نہ ہی انتخابات میں حصہ لیا۔ اس طرح وہ ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ وہ مکمل طور پر سیاستدان نہیں لیکن اپنے مداحوں کے لیے ہمیشہ ایک اخلاقی رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔
فلمی مورخ تھیوڈور باسکاران کہتے ہیں کہ تمل سنیما کے سب سے بڑے ستارے ایسے مقام پر ہوتے ہیں جو کبھی عوامی دیوتاؤں کا ہوا کرتا تھا۔
رجنی کانت صرف ایک مشہور شخصیت نہیں بلکہ ان کا اثر ان مداحوں کی عقیدت میں نظر آتا ہے جو صبح سویرے دودھ اور مالا لے کر قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کا ہیرو نہ صرف ان کے خوابوں کو رنگین بنا سکتا ہے بلکہ ان کی زندگی میں جادو بھی بھر سکتا ہے۔
شاہ رخ خان کا ’بازی گر‘ سے ’جوان‘ تک کا سفر: ایک اینٹی ہیرو جو پہلے ’کِنگ آف رومانس‘ اور پھر سُپرسٹار بنابلاک بسٹر فلمیں، تنہائی اور نیند کی گولیاں: عظیم فلمساز گرو دت کی زندگی کا وہ پہلو جس کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں’کروڑوں کی ڈیل‘ جس پر سلمان خان نے مقبول کاروباری شخصیت کو ٹی وی پر ’دوغلے پن‘ کا طعنہ دیاشاہ رخ خان کے اپنی آمدنی اور نام کے بارے میں مداحوں کو دلچسپ جواببالی وڈ فلموں کے ’بے رحم اور شیطان صفت‘ ولن جو اصل زندگی میں نرم مزاج اور ہنس مکھ ہیں