یورپ میں غیرقانونی داخلہ روکنے کے لیے سخت اقدامات، ’لوگ مزید خطرات مول لیں گے‘

اردو نیوز  |  Aug 17, 2025

غیرقانونی طور پر یورپ جانے والوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دیتا۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزرے برسوں کی طرح رواں برس بھی اب تک بے شمار افراد یورپ جانے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں، جس کے بعد سمندری راستوں کی نگرانی سخت کی جا رہی ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ دنیا کے کئی ممالک میں جنگیں چل رہی ہیں جبکہ معاشی مسائل بھی لوگوں کو درپیش ہیں۔

اس لیے نگرانی سخت کیے جانے کے بعد بھی یورپ جانے کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے کیونکہ لوگ اس کے لیے مزید خطرات مول لینے کو بھی تیار دکھائی دے رہے ہیں۔

یورپی یونین کی بارڈر ایجنسی فرونٹیکس کے اعداد و شمار کے مطابق سال کے پہلے چھ ماہ میں لوگوں کی آمد میں 20 فیصد کمی دیکھی گئی یہ 2024 میں شروع ہونے والے رجحان کا تسلسل ہے اور اس کمی کو ٹرانزٹ ممالک کے رابطوں اور تعاون کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

2015 میں غیرقانونی طور پر یورپ میں 10 افراد کے داخل ہونے کے بعد یورپی یونین کی جانب سے اس معاملے پر سخت موقف اختیار کیا گیا۔

تاہم دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے ہونے والے سخت اقدامات کے بعد انسانی سمگلرز کے توسط سے نئے اور مزید خطرناک راستے تلاش کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق اگرچہ مجموعی طور پر اعداد وشمار میں کمی آئی ہے تاہم یورپ کی طرف جانے والے تمام راستوں کے استعمال کی شرح میں کمی نہیں آئی اور کئی ایسی راہداریاں سامنے آئی ہیں جن کو سمگلرز استعمال کر رہے ہیں۔

تحقیقاتی ادارے مکسڈ مائیگریشن سینٹر سے وابستہ جینیفر ویلنٹائن کا کہنا ہے کہ ’جیسے ہی ایک راستہ بند ہوتا ہے تو دوسرے سامنے آ جاتے ہیں۔‘

ماہرین کا خیال ہے کہ جنگوں اور معاشی حالات سے پریشان لوگ یورپ جانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

غیرقانونی طور پر داخل ہونے کی شرح 2024 میں دو لاکھ 40 تک آ گئی تھی جبکہ 2022،23 میں یہ تعداد تین لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی تھی جو کہ 2016 کے بعد سے بلند ترین تعداد تھی۔

اس کم ہوتے رجحان کے دوران ایک نئی سمندری راہداری ابھر کر سامنے آئی جو کہ لیبیا اور یونوان کے درمیان ہے اور اسی کے راستے ہی رواں برس سات ہزار سے زائد افراد کریٹ شہر پہنچے۔

یونانی حکومت نے غیرقانونی داخلہ روکنے کے لیے ایک نیا قانون متعارف کرایا ہے اور عارضی طور پر سیاسی پناہ کی درخواستوں پر پابندی عائد کی ہے۔

جینیفر ویلنٹائن کے مطابق ’سخت اقدامات سے دوسرے ممالک کی طرف جانے کی خواہش نہیں رکے گی اور کچھ لوگوں کے پاس کو پورا کرنے کا واحد راستہ غیرقانونی راستہ ہی ہے، اس لیے سمگلرز کی سروسز کی مانگ برقرار رہے گی۔‘

بحیرہ روم کے راستے داخل ہونے کے علاوہ یونان اور ترکی کے زمین راستے کے ذریعے آمد کے لیے مختلف مقامات پچھلی دہائی کے دوران استعمال ہوتے رہے ہیں۔

یورپی ممالک کی جانب سے غیرقانونی آمد کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے استعمال میں تبدیلی ہوئی ہے کیونکہ لوگ بڑھتی ہوئی نگرانی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یورپین پالیسی سینٹر تھنک ٹینک سے وابستہ ہیلیا ہان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین نے اہم داخلی پوائنٹس کو بند کرنے کی کوشش کی ہے۔

بلاک نے لیبیا، تیونس اور مصر کے ساتھ تارکین کی آمد روکنے کے حوالے سے معاہدے کیے ہیں کیونکہ یہیں سے زیادہ تر تارکین روانہ ہوتے ہیں۔ ان معاہدوں میں ان ممالک کو تیز رفتار کشتیوں کی فراہمی کے علاوہ دوسری سہولتیں دی گئی ہیں۔

14 اگست کو اٹلی کے لامپے جزیرے کے قریب دو کشتیاں ڈوب گئی تھیں، جس کے نتیجے میں 26 افراد ہوئے تھے۔

دونوں کشتیاں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے روانہ ہوئی تھیں۔ کوسٹ گارڈ کے بیان کے مطابق ایک کشتی میں پانی بھرنے لگا تو اس پر سوار افراد دوسری کشتی پر چڑھ گئے جو زیادہ وزن کی وجہ سے الٹ گئی۔

خیال رہے پاکستان سمیت دوسرے ممالک سے ہر سال لوگ غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی کوشش میں کئی بار جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More