Getty Images’احسن آباد کے نالے میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے سے تین، چار گھنٹے پہلے گلیشیئر سے اچانک آئس (بڑے اور سخت ٹھوس برف کے گولے) گرنا شروع ہو گئے تھے‘
پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں حالیہ مون سون سیزن کے دوران سیلابی ریلوں کےکم از کم 20 چھوٹے، بڑے سیلاب واقعات پیش آئے ہیں جن میں حکام کے مطابق کم از کم 25 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ نقصانات کا تخمینہ 25 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
حکام کے مطابق اسی دورانیے میں لینڈ سلائیڈنگ کے بھی بہت سے واقعات رونما ہوئے جس کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ گلگت بلتستان کی حکومت اور ماہرین کے مطابق ان واقعات کی بڑی وجہ گلیشیئر جھیلوں کا پھٹنا، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا اور مختلف مقامات پر موسلا دھار بارشیں ہیں۔
حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان کے سیاحتی مقام ہنزہ کے قریب احسن آباد کے مقام پر شیشپر گلیشیئر میں پیش آئے واقعے اور ہنزہ ہی کے علاقے گوجال اور گلمت میں دریائے ہنزہ کے بپھرنے سے نالے میں آنے والی شدید طغیانی کے باعث دو مختلف مقامات پر شاہراہ قراقرم ہر قسم کی ٹریفک کے لیے تاحال بند ہے۔
اسی طرح بلتستان کے علاقے شگر میں چھ مختلف مقامات پر سیلابی ریلوں کے باعث شاہراہ کے ٹو بھی بند ہو چکی ہے۔ ان آفات کے پیش نظر خطے میں سیاحتی سرگرمیاں بڑی حد تک متاثر ہوئی ہیں جس کے باعث ہونے والے نقصانات کا تخمینہ کروڑوں روپے میں ہے۔ اس صورتحال کے باعث مقامی لوگ بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
’اتنا تیز پانی پہلے کبھی نہیں دیکھا‘
اعجاز علی احسن آباد (ہنزہ) کے علاقے شیر آباد کے رہائشی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’احسن آباد کے نالے میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے سے تین، چار گھنٹے پہلے گلیشیئر سے اچانک آئس (بڑے اور سخت ٹھوس برف کے گولے) گرنا شروع ہو گئے تھے۔ یہ صورتحال ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس کے بعد احسن آباد نالے میں پانی رُکگیا اور پھر جب اس میں سے پانی آنا شروع ہوا تو یہ سیلابی صورتحال تھی۔ پانی کا بہاؤ انتہائی خوفناک حد تک تیز تھا، ایسا ہم نے اس سے پہلے نہیں دیکھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مقامی افراد نے نزدیکی علاقوں سے بھاگ کر جان بچائی تھی۔ ’میرے گھر کو معمولی نقصان پہنچا ہے جبکہ علاقے میں تین گھر قابل استعمال نہیں رہے ہیں۔ زرعی زمینوں اور باغات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔‘
اسی طرح گلمت کے رہائشی نوشادکا کہنا تھا کہ ’یہ سیلابی ریلا اُس نالے میں آیا ہے جو گلمت علاقے کے درمیان سے گزرتا ہے۔ پانی بہت زیادہ تھا جو جلد ہی شاہراہ قراقرمپر آ گیا جس کی وجہ سے یہ شاہراہ تاحال بند ہے۔‘
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اب پانی کا بہاؤ دیکھ کر امید کی جا رہی ہے کہ چند گھنٹوں میں یہ پانی اُتر جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’پانی سے بہت تباہی ہوئی ہے۔ کم از کم چار ایریگیشن چینل ختم ہو چکے ہیں اور پانی کا سسٹم تباہ ہو چکا ہے۔ اصل نقصانات کا اندازہ تو پانی اُترنے کے بعد ہی ہو گا۔‘
پاکستان کے پگھلتے گلیشیئرز کیسے پہاڑوں پر بسنے والی زندگیاں نگل رہے ہیںشیشپر گلیشئیر کی جھیل پھٹنے سے چار سال میں پانچ مرتبہ سیلاب آیا مگر ’حکومتی وعدے آج بھی پورے نہیں ہوئے‘موسمیاتی تبدیلی اور ’زمین کی موت‘: چترال کا وہ ’جنت نظیر گاؤں‘ جہاں کے خوشحال کاشتکار راتوں رات کنگال ہو گئے’انسانی ناکامی کی مایوس کن داستان‘: پاکستان، انڈیا میں گرمی کے ریکارڈ ٹوٹنے کے امکانات 100 گنا زیادہ
گلگت بلتستان شعبہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل سید بقدر شاہ کا کہنا تھا کہ اِسوقت گلگت بلتستان واضح طور پر موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’سردیوں میں بارشیں اور برفباری کم ہوئی اور اب اس سیزن میں بھی اوسط بارشیں کم تھیں، جس کی وجہ سے درجہ حرارت اوسط سے کافی زیادہ رہا۔ ہمارے اندازوں کے مطابق درجہ حرارت اوسط سے چار، پانچ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا تھا،جس کے نتائج اب ہمارے سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر خطے میں بارشیں کم ہوئیں مگر کچھ علاقوں میں تھوڑے دورانیے میں ہونے والی موسلا دھار بارشوں نے سیلابی صورتحال پیدا کی جیسا کہ بابو سر ٹاپ کے علاقے میں ہوا ہے۔
سید بقدر شاہ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مختلف الرٹس بھی جاری ہوئے تھے۔ ’اس سیزن میں جو سیلابی صورتحال دیکھئی گئی ہے وہ اس سے پہلے نہیں تھی۔ امید ہے کہ ستمبرمیں درجہ حرارت اوسط پر چلا جائے گا جس سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔مگر اگست کے ماہ میں یہ خدشہ موجود رہے گا کہ دوبارہ گلیشیئر پگھلنے اور دریاوں میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہونے سے سیلابی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔‘
’آئی سی آئی ایم او ڈی‘ سے منسلک گلیشیئرز کے ماہر ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے باعث صرف گلیشیئر جھیلپھٹنے کے واقعات نہیں ہوتےبلکہ گلیشیئرز بھی زیادہ پگھل رہے ہیں، جس سے سیلابی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شیشپر گلیشیئر میں دو سال پہلے جھیل پھٹنے کا جو واقعہ ہوا ہے، وہ اس دفعہ پیش آئے واقعے سے مختلف تھا۔
Getty Images’گلگت بلتستان کو جن موسمی حالات کا سامنا ہے وہ انسانوں کے کیے گئے اقدامات کی ہی وجہ سے ہی ہیں‘’احسن آ باد نالہ برف کے ٹکڑوں کی وجہ سے بند ہوا‘
ڈاکٹر شیر محمد کا کہنا تھا کہ شیشپر گلیشیئر پر جو حالیہ صورتحال ہوئی ہے وہ رواں برس اپریل اور جولائی میں سامنے آنے والی صورتحال سے منفرد تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ 'اپریل کے مہینے میں بہت زیادہ گرمی تھی اور اُس موقع پر دیکھا گیا تھا کہ گلیشیئر سے آئس (ٹھوس برف کے ٹکڑے) گرے تھے۔ پھر دوبارہ جولائی کے ماہ میں ایسا ہوا تھا۔'
ڈاکٹر شیر محمد کا کہنا تھا کہ ابھی حالیہ دنوں میں دوبارہ ایسے ہی ہوا ہے، مگر اس مرتبہ یہ دورانیہ دو گھنٹے سے زائد کا تھا۔ گلیشیئر میں ٹنل بنی ہوئی تھی جہاں سے پانی کا اخراج ہوتا تھا۔ ٹنل سے بھی پانی کا راستہ بند ہو گیا،اور جب گرمی زیادہ ہوئی تو پھر ٹنل سے پانی کا اخراج بڑھا جو سیلابی صورتحال کا باعث بنا۔
ڈاکٹر شیر محمد کا کہنا تھا کہشگر میں بھی درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے زیادہ برف پگھلی اور اس سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’جولائی ہی کے ماہ میں، میں نے اپنے دورے کے دوران دیکھا کہ اپر ہنزہ کے علاقوں میں پانی کا بہاو زیادہ ہے اور زمین کا کٹاو شروع ہو چکا تھا۔ بجلی کے کھمبے اور عمارتوں کے کچھ حصے اسی وقت پانی کی لپیٹ میں آنا شروع ہو گئے تھے۔‘
’سیاحت خطرے کا شکار ہے‘
ہل ٹاپ ہوٹل، کریم آباد (ہنزہ) کے مالک عالم شاہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ہوٹل میں 40 کمرے ہیں۔ ’گذشتہ دو برسوں میں صورتحال یہ تھی کہ اس سیزن میں ہمارے ہوٹل کے روم مکمل بُک ہوتے تھے اور جگہ نہیں ملتی تھی۔ ایسی ہی صورتحال اس علاقے کے دیگر ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں تھی۔ مگر فی الحال آج کے روز میرے ہوٹل کے 31 کمرے خالی ہیں۔ اس سے پہلے کے دنوں میں بھی کبھی ایک تو کبھی دو کمرے ہی بُک ہوئے ہیں۔‘
اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے ہوٹل میں جولائی اور اگست کی نوے فیصد ایڈوانس بکنگ منسوخ کروائی گئی ہے۔ ’تقریباً سب ہی ہوٹلوں میں یہی صورتحال ہے۔ اس صنعت سے وابستہ کئی لوگ اب اپنے ہاں کام کرنے والے عارضی ملازمین، جن کی خدمات بہت پہلے حاصل کر لی جاتی ہیں، کو فارغ کرنے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ کاروبار نہیں ہو گا توتنخواہیں کہاں سے دیں گے؟‘
گلگت بلتستان کی آبادی تقریبا 17لاکھ ہے اور محکمہ سیاحت گلگت بلتستان کے مطابق گذشتہ سال دس لاکھ سے زائد لوگوں نے سیاحت کی غرض سے اس خطے کا رُخ کیا تھا۔
محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر محمد اقبال کے مطابق گلگت بلتستان میں سیاحوں کے لیے تقریباً 1100 سے زائد ہوٹل و گیسٹ ہاؤسز ہیں اور مجموعی طور پر تقریباً 20 ہزار لوگوں کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔
’قدرت اپنا بدلہ لے رہی ہے‘
محمد اقبال کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے اس صورتحال میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنزہ میں مزید کمرشل تعمیرات پر پابندی ہے جبکہ سکردو میں بھی اس نوعیت کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اِس وقت ماحول دوست بلڈنگ کوڈ پر کام ہو رہا ہے جو اس خطے میں جلد ہی متعارف کروا دیے جائیں گے۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کا کہنا ہے کہاس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گلگت بلتستان کو جن موسمی حالات کا سامنا ہے وہ انسانوں کے کیے گئے اقدامات کی ہی وجہ سے ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’پانی کے راستوں پر تعمیرات ہوئیں، پہاڑوں کو بیدردی سے کاٹا گیا اور جگہ جگہ بغیر کسی اصول ضابطے کے تعمیرات ہوئیں۔ سرمایہ کاری ہوئی مگر اس سب میں ماحول اور قدرتی نظام کو تباہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب گلگت بلتستان اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ جب بابو سر ٹاپ اور ہنزہ جیسی آفات آئیں گئی تو پھر سیاح علاقے کا رخ کیوں کریں گے؟
انھوں نے کہا موسمی حالات کی وجہ سے جو تباہی ہوئی ہے وہ لوگوں کی سوچ سے بھی زیادہ ہے جس کے بدترین اثرات کچھ عرصے میں ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’ایک طرف سیلابی صورتحال ہے تو دوسری جانب اِس وقت پھلوں کا موسم ہے مگر باغات کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے۔ 'زرعی زمینیں کٹاؤ کا شکار ہیں، گلگت بلتستان اپنی ہی زمین کھو رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے مل کر قدرتی نظام میں مداخلت کی اور اس کی قدر نہیں کی تو اب قدرت ہم سے بدلہ لے رہی ہے۔‘
موسمیاتی تبدیلی اور ’زمین کی موت‘: چترال کا وہ ’جنت نظیر گاؤں‘ جہاں کے خوشحال کاشتکار راتوں رات کنگال ہو گئےشیشپر گلیشئیر کی جھیل پھٹنے سے چار سال میں پانچ مرتبہ سیلاب آیا مگر ’حکومتی وعدے آج بھی پورے نہیں ہوئے‘پاکستان کے پگھلتے گلیشیئرز کیسے پہاڑوں پر بسنے والی زندگیاں نگل رہے ہیںپاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات سفارتکاری کا محور کیوں نہ بن سکے؟’انسانی ناکامی کی مایوس کن داستان‘: پاکستان، انڈیا میں گرمی کے ریکارڈ ٹوٹنے کے امکانات 100 گنا زیادہبائبل میں جس طاعون کا ذکر ہے، کیا وہ آنے والا ہے؟