راولپنڈی سے پیرس، فرانس کے آخری اخبار فروش جن کے گاہکوں میں صدر میکخواں بھی شامل

بی بی سی اردو  |  Aug 10, 2025

BBC

وہ فرانس یا یورپ کے آخری نیوز پیپر ہاکر (اخبار فروش) ہو سکتے ہیں۔ علی اکبر پیرس میں نصف صدی سے اپنی بغل میں اخبار دبائے گھومتے رہے اور شہ سرخیاں سناتے رہے۔

اب سرکاری سطح پر فرانسیسی ثقافت میں ان کی خدمات کو سراہنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں جو کبھی خود زمانہ طالبعلی میں علی اکبر سے اخبار خریدتے تھے، انھیں اگلے ماہ ملک کے ایک اعلی سول ایوارڈ ’آرڈر آف میرٹ‘ سے نوازیں گے۔

علی اکبر کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے سنہ 1973 میں پہلی بار یہاں اخبار بیچنا شروع کیا تو پیرس میں اس وقت 35 سے 40 ہاکرز تھے۔‘

ان کے مطابق ’اب یہ کام بہت مایوس کن ہو گیا ہے۔ سب کچھ ڈیجیٹل ہو گیا ہے۔ اب لوگ فون سے ہی سب کر لیتے ہیں۔‘

ان دنوں سینٹ جرمین کے فیشن ایبل کیفے پر جا کر علی اکبر اخبار ’لی موند‘ کی تقریباً 30 کاپیاں فروخت کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ وہ اخبار کو آدھی قیمت پر فروخت کرتے ہیں اور انھیں اس کے بدلے کوئی پیسے نہیں ملتے۔

انٹرنیٹ کے دور سے قبل وہ اخبار کی سہ دوپہر کی اشاعت کے پہلے گھنٹے کے اندر 80 کاپیاں فروخت کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پرانے زمانے میں لوگ اخبار خریدنے کے لیے میرے اردگرد جمع ہو جاتے تھے۔ اب میں خود لوگوں کے پیچھے جا کر اخبار بیچنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 73 سالہ پاکستانی شہری علی اکبر کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ 1973 سے شہر کے پوش علاقے لیٹن کوارٹر کی سڑکوں، ریستورانوں اور دوسرے مقامات پر اخبارات فروخت کرتے آ رہے ہیں۔

ٹی وی اور انٹرنیٹ پر آن لائن ایڈیشن آنے کے بعد جب اخبارات کی مانگ میں کمی ہوئی تو انھوں نے فروخت کے لیے مزاح اور بعض دوسرے ایسے اقدامات سے کام لیا جن کی بدولت لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔

Reuters

اخبار کی فروخت میں کمی بمشکل ہی علی اکبر کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ یہ کام اپنے شغل کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں خوش مزاج شخص ہوں اور میں آزاد ہوں۔ اس کام کے ساتھ میں مکمل طور پر آزاد ہوں۔ اس کام میں کوئی ایسا نہیں ہے جو مجھ پر اپنا حکم چلائے۔ یہی وجہ ہے کہ میں یہ کام کر رہا ہوں۔‘

72 برس کے علی اکبر اپنے علاقے میں جانی پہچانی اور بہت پسند کی جانے والی شخصیت ہیں۔ ایک خاتون ان کےبارے میں کہتی ہیں کہ ’میں یہاں پہلی بار 1960 کی دہائی میں آئی تھی اور میں علی اکبر کے ساتھ بڑی ہوئی ہوں۔ وہ ایک بھائی کی طرح ہیں۔‘

ایک اور خاتون نے کہا کہ ’وہ ہر کسی کو جانتے ہیں۔ اور وہ بہت ہی دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔‘

’پہلے لوگ اخبار کا انتظار کرتے تھے، اب اخبار لوگوں کا منتظر رہتا ہے‘انٹرنیٹ کی وجہ سے اخبار فروش پریشان’کوئی پاکستانی کہتا ہے، کوئی انڈین‘: 16 سال قبل پاکستان سے انڈیا منتقل ہونے والے ڈاکٹر جو اب کسی ملک کے شہری نہیںایک خانہ بدوش سمگلر جس نے پاکستان میں یورپ جانے کے خواب کو گھناؤنے کاروبار میں بدل دیا

علی اکبر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور 1960 کی دہائی کے آخر میں یورپ آ گئے۔ پہلے وہ ایمسٹرڈیم آئے جہاں انھوں نے ایک کروز لائنر میں کام شروع کیا۔

سنہ 1972 میں جہاز فرانسیسی شہر روئن کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہو گیا اور یوں وہ ایک سال بعد پیرس میں تھے۔ انھیں 1980 کی دہائی میں مستقل رہائش کے کاغذات مل گئے۔

Reuters

اپنے خاص انداز میں ہنستے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میں اس وقت ہِپی تو نہیں تھا، لیکن میں بہت سے ہپیز کو جانتا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں یورپ جاتے ہوئے افغانستان میں تھا تو میں ایک گروپ کے ساتھ اترا تو انھوں نے مجھے چرس پلانے کی کوشش کی۔

’میں نے ان سے معذرت کر لی اور کہا کہ میری زندگی میں ایک مقصد ہے اور وہ یہ نہیں کہ اگلا مہینہ کابل میں سو کر گزاروں۔‘

سینٹ جرمین کے ایک فکری مرکز میں انھیں کئی مشہور شخصیات اور لکھاریوں سے ملنے کا موقع ملا۔ معروف گلوکار ایلٹن جان نے انھیں ایک بار دودھ پتی پلائی تھی۔

سائنسز پو یونیورسٹی جیسے اداروں کے سامنے اخبارات فروخت کرنے سے ان کی دعا سلام ملک کے مستقبل کے سیاسی رہنماؤں جیسے فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں سے ہوئی۔

جب وہ اخبار لی موند کو اپنی آواز بلند کر کے بیچتے تھے اس عرصے میں یہاں کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں؟

اس کے جواب میں انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ماحول ویسا نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس وقت پبلشرز اور لکھاری، اداکار اور موسیقار ہر طرف مل جاتے تھے۔ اب یہ جگہ محض سیاحوں کا مرکز بن کر رہ گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب روح چلی گئی ہے۔۔۔‘ اور پھر وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنس دیے۔

’پہلے لوگ اخبار کا انتظار کرتے تھے، اب اخبار لوگوں کا منتظر رہتا ہے‘انٹرنیٹ کی وجہ سے اخبار فروش پریشان’کوئی پاکستانی کہتا ہے، کوئی انڈین‘: 16 سال قبل پاکستان سے انڈیا منتقل ہونے والے ڈاکٹر جو اب کسی ملک کے شہری نہیںایک خانہ بدوش سمگلر جس نے پاکستان میں یورپ جانے کے خواب کو گھناؤنے کاروبار میں بدل دیابیوی کی جانب سے ’چہرہ دھکیلنے‘ کی ویڈیو جس پر فرانس کے صدر میکخواں کو وضاحت دینا پڑی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More