پاکستان کی ’قومی مصنوعی ذہانت پالیسی‘ اور ’2030 تک 35 سے 40 لاکھ نوکریاں‘: ’انھیں خطرہ ہو گا جو اے آئی استعمال کرنا نہیں جانتے‘

بی بی سی اردو  |  Aug 06, 2025

Getty Images

کیا آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کی وجہ سے میری نوکری جا سکتی ہے؟ کیا میرا ڈیٹا اور ذاتی معلومات محفوظ ہیں؟ کیا اے آئی چیٹ باٹس کی دی ہوئی معلومات پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

یہ وہ چند خدشات ہیں جو آج نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں ہر اُس شخص کے ذہن میں ہیں جو مصنوعی ذہانت کے ٹولز استعمالکر رہا ہے۔

انھی خدشات کے بیچ حال ہی میں پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ’نیشنل آرٹیفیشل انٹیلیجنس‘ پالیسی منظور کی ہے۔

سنہ 2030 تک مصنوعی ذہانت کے شعبے میں 35 سے 40 لاکھ نوکریوں کا اضافہ ہو یا اے آئی کی مدد سے جی ڈی پی میں سات سے 12 فیصد تک کا متوقع اضافہ، یہ وہ چند بڑے اور ’پُرعزم‘ اہداف ہیں جن کا اعلان پاکستانی حکومت نے اس پالیسی کے تحت کیا ہے۔

لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ آخر حکومت آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو لے کر اتنا پُرامید کیوں ہے؟

اکثر آس پاس بیٹھا شخص جب بھی مصنوعی ذہانت کا نام سنتا ہے تو فوراً ’چیٹ جی پی ٹی‘ یا ’ڈیپ سیک‘ ان کے ذہن میں آتے ہیں۔ لیکن آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی دنیا ان چیٹ باٹس سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔

سادہ الفاظ میں سمجھیں تو اے آئی کا دل ہے ’مشین لرننگ‘ یعنی یہ بالکل ویسے ہے جیسے ایک بچہ اپنے مختلف تجربات سے نئی چیزیں سیکھتا ہے۔

فرق یہ ہے کہ ہم چند تجربات سے سیکھتے ہیں جبکہ مشین لاکھوں کروڑوں مثالوں سے۔ جتنا زیادہ ڈیٹا اسے ملتا ہے یہ ٹیکنالوجی اُتنی بہتر فیصلہ سازی اور تجزیہ کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اے آئی کی طاقت عام ٹیکنالوجیز سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ بیک وقت نہ صرف بہت بڑا ڈیٹا محفوظ کر سکتی ہے بلکہ اس سے سیکھ کر نئی چیزیں بھی تخلیق کر سکتی ہے۔

Getty Imagesاے آئی کی طاقت عام ٹیکنالوجیز سے کہیں زیادہ ہےدنیا بھر میں اے آئی کا طوفان

آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے بنی تصاویر کو ٹریک کرنے والے ادارے ’ایوری پکسِل جرنل‘ کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ تین کروڑ 40 لاکھ تصاویر اے آئی سے بنائی جا رہی ہیں۔

بزنس ڈیٹا اور مارکیٹ ریسرچ کرنے والی کمپنی ’سٹیٹسٹا‘ کا اندازہ ہے کہ عالمی اے آئی سروسز کی مارکیٹ ویلیو رواں سال 243 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

انٹرنیشنل کنسلٹنگ کمپنی میکنزی اینڈ کو کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کی 78 فیصد کمپنیاں کم ازکم ایک شعبے میں اے آئی کو استعمال کر رہی ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے تقریباً 70سے زائد ممالک کے پاس اپنی اے آئی پالیسی یا کم از کم کوئی فریم ورک موجود ہے اور اب پاکستان بھی اسی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

BBCحکومت کا ماننا ہے کہ نئی پالیسی پاکستان کو اے آئی کی عالمی دوڑ میں شامل کر سکتی ہےپاکستان کی نیشنل اے آئی پالیسی میں کیا کچھ شامل ہے؟

حکومت کا ماننا ہے کہ نئی پالیسی پاکستان کو اے آئی کی عالمی دوڑ میں شامل کر سکتی ہے۔ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ سٹارٹ اپس اور مصنوعی ذہانت سے متعلق لوگوں کے خیالات میں مدد دی جائے گی۔

تعلیم، صحت اور زراعت میں اے آئی کو شامل کرنے کے حکومتی دعوے بھی شامل ہیں۔ مثلاً کسان کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کون سی فصل بہتر ہے یا مریض گھر بیٹھے ڈاکٹر سے مشورہ کر سکیں گے۔ ساتھ ہی حکومت یہ بھی یقین دلاتی ہے کہ شہریوں کا ڈیٹا محفوظ رکھا جائے گا۔

وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو اب سروسز کے علاوہ پراڈکٹس اور جدت پر زور دینا ہے‘ جس کے لیے انھوں نے آئندہ چند برسوں میں ایک ہزار مصنوعی ذہانت کے پراڈکٹ پیٹنٹ کرنے کا ہدف طے کیا ہے۔

پالیسی کے تحت حکومت نے ایک نیشنل اے آئی فنڈ اور وینچر فنڈ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ جدت اور سٹارٹ اپس کو فروغ دیا جا سکے۔

شزہ فاطمہ نے بتایا کہ اگلے پانچ برسوں میں ٹریننگز کے ذریعے دس لاکھ اے آئی پروفیشنلز تیار کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔ ’ہم صرف ورکرز پیدا نہیں کرنا چاہتے بلکہ اپنی نوجوان نسل کو وہ مہارت دینا چاہتے ہیں جس سے وہ آنے والے وقت میں عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں۔‘

آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہمارے پینے کے پانی کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے؟کیا آپ کے پاس وہ نوکری ہے جس کو فی الحال مصنوعی ذہانت سے کوئی خطرہ نہیں کیا مصنوعی ذہانت ’مقدس صحیفوں‘ اور نئے مذہبی فرقوں کو جنم دے سکتی ہے؟مصنوعی ذہانت کی دلچسپ لیکن ’ڈرا دینے والی‘ شکل ’جنریٹیو اے آئی‘ کیا ہے؟

اس پالیسی پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے دیگر ماہرین سمیت بی بی سی نے خرم راحت سے بھی بات کی جو حکومت اور نجی شعبے میں مختلف سطحوں پر اے آئی پالیسی اور اس کے عملی استعمال میں کردار ادا کر چکے ہیں اور کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی ’ایک اچھا پہلا قدم ہے۔‘

خرم راحت کے مطابق پالیسی میں لوگوں کو مہارت فراہم کرنے جیسے مثبت اقدامات شامل ہیں لیکن یہ کوئی حتمی دستاویز نہیں بلکہ ایک ایسا فریم ورک ہے جس میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔

عامر جہانگیر، مشعل پاکستان کے سی ای او اور قومی اے آئی پالیسی ڈرافٹ کرنے والی کمیٹی کے رُکن رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے پہلے پاکستان کے پاس کوئی واضح سمت نہیں تھی لیکن ’اب یہ ایک سمت دیتی ہے کہ انڈسٹری کو کیسے آگے بڑھانا ہے۔‘ ان کے مطابق ’اگر اس پر مؤثر طریقے سے عمل ہو تو 2030 تک جی ڈی پی میں سات فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔‘

جاز کے چیف ڈیٹا اور سٹریٹیجی آفیسر علی نصیر کے مطابق ’بزنس کرنا حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ اچھی پالیسی کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ حکومت پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرے۔‘

یہ پالیسی کیا مواقع پیدا کر سکتی ہے؟

’تصور کریں کہ گوجرانوالہ میں ایک شخص رات کے پہر پریشان بیٹھا ہے، اس کی والدہ اچانک بیمار ہو گئی ہیں اور اسے سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کرے۔ ہماری ہیلتھ ایپ پر وہ اپنی والدہ کی جو ابتدائی علامات بتائے گا اس کی بنیاد پر ایپ پر موجود طبی ماہر یہ فیصلہ کرے گی کہ فوراً ہسپتال جانا ضروری ہے یا گھر پر دوا دے کر انتظار کیا جا سکتا ہے۔‘

علی نصیر کے مطابق یہ صرف ایک جھلک ہے کہ کس طرح مصنوعی ذہانت پاکستان میں صحت کے شعبے میں انقلاب لا سکتی ہے۔

BBCجاز کے چیف ڈیٹا اور سٹریٹیجی آفیسر علی نصیر کے مطابق اچھی پالیسی کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ حکومت پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرےڈیٹا سینٹرز اور ’لارج لینگوئج ماڈلز‘

علی نصیر کہتے ہیں کہ موجودہ ’لارج لینگوئج ماڈل‘ (ایل ایل ایمز) زیادہ تر مغربی ڈیٹا پر بنے ہیں اس لیے ان کے جوابات بھی مغربی معاشرے، ثقافت اور اقدار کے مطابق ہوتے ہیں اور وہ پاکستان کی سماجی، ثقافتی، مذہبی اور حتیٰ کہ قومی سلامتی کی حساسیت سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ایل ایل ایم ایک ایسی اے آئی مشین ہے جو کروڑوں جملے پڑھ کر انسانوں کی طرح زبان سمجھنے اور جواب دینے کا فن سیکھتی ہے جیسے چیٹ جی پی ٹی، جیمینائی اور ڈیپ سیک۔

علی نصیر کے مطابق جاز نے اسلام آباد کی نسٹ یونیورسٹی کے ساتھ پارٹنرشپ کی ہے تاکہ ایک مقامی ایل ایل ایم بنایا جا سکے جو پاکستانیوں کی زبان اور حساسیت کو سمجھے اور زیادہ مفید اور محفوظ ہو۔

لیکن ایسے ایل ایل ایمز کے لیے بڑے ڈیٹا سینٹرز درکار ہوتے ہیں اور عامر جہانگیر کے مطابق پاکستان کے پاس نہ تو ’وہ کمپیوٹنگ پاور ہے نہ وسائل اور نہ ہی پانی کی وہ وافر مقدار جو ان سینٹرز کے لیے ضروری ہوتی ہے۔‘

Getty Imagesایل ایل ایم ایک ایسی اے آئی مشین ہے جو کروڑوں جملے پڑھ کر انسانوں کی طرح زبان سمجھنے اور جواب دینے کا فن سیکھتی ہے جیسے چیٹ جی پی ٹی، جیمینائی اور ڈیپ سیک’تعداد نہیں، معیار پر توجہ ضروری ہے‘

خرم راحت کا ماننا ہے کہ پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے خصوصی توجہ اے آئی پراڈکٹس پر دینی ہے جنھیں پیٹنٹ کیا جا سکے۔ ’ہمارے ہاں یونیورسٹیوں میں ریسرچ تو بہت ہوتی ہے لیکن اس کی کمرشل حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔‘

خرم راحت کا ماننا ہے کہ حکومت کو ٹریننگ کے اعتبار سے تعداد کے بجائے معیار کو ترجیح دینی چاہیے۔

’اگر آپ دس لاکھ لوگوں کو صرف بنیادی ٹولز سکھا دیں تو زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن اگر صرف دس ہزار لوگوں کو ایڈوانس یا اعلی معیار کی اے آئی ٹریننگ بھی دے دی جائے تو وہ ایسی پراڈکٹس بنانے کے اہل ہوں گے جو عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں۔‘

اسی تناظر میں انھوں نے اپنی کمپنی بوٹناسٹک سلوشنز کی مثال دی جس نے اے آئی پر مبنی کیریئر کاؤنسلنگ سروس بنائی ہے جسے دنیا کے تقریباً 100 ممالک میں صارفین استعمال کر رہے ہیں۔

خدشات اور چیلنجز: کیا اے آئی کی وجہ سے میری نوکری خطرے میں ہے؟

آج عام لوگوں کا سب سے بڑا خدشہ یہی ہے کہ کہیں اے آئی ان کی نوکری نہ چھین لے۔ لیکن ماہرین کی رائے میں اصل چیلنج نوکریاں ختم ہونا نہیں بلکہ ہر شعبے میں اس ٹیکنالوجی کو اپنانا ہے۔

وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگ کئی دہائیوں سے ایک ہی طریقے سے کام کر رہے ہیں اور اچانک ان کے لیے نئی ٹیکنالوجی کو اپنانا آسان نہیں ہوگا۔‘

عامر جہانگیر نے اس پر مزید کہا کہ ’مصنوعی ذہانت آپ کی نوکری نہیں لے گی لیکن وہ شخص ضرور آپ کی نوکری لے گا جو اے آئی استعمال کرنا جانتا ہے۔‘

ان کے مطابق سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں اے آئیکا شامل ہونا خوش آئند ہے لیکن یہ صرف طلبہ تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ عدلیہ، سول سروس اور سرکاری افسران کو بھی اے آئی کی سمجھ ہونی چاہیے۔

BBCعامر جہانگیر، مشعل پاکستان کے سی ای او اور قومی اے آئی پالیسی ڈرافٹ کرنے والی کمیٹی کے رُکن رہے ہیںکمپیوٹنگ پاور اور ڈیٹا پرائیویسی

ایک اور بڑا خدشہ ہے اے آئی کو بغیر قوانین اور حفاظتی اقدامات کے استعمال کرنا ہے جس سے ڈیٹا کی سکیورٹی اور لوگوں کا اعتماد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

مثال کے طور پر آپ نے دیکھا ہوگا کہ ڈیپ فیک ویڈیوز کس طرح سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہیں۔ کبھی کسی سیاستدان کی جعلی تقریر تو کبھی کسی عام شہری کی ایڈٹ شدہ ویڈیو۔ اسی طرح فیک نیوز یا جھوٹی معلومات پھیلانا اب پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو گیا ہے۔

عامر جہانگیر کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں سب سے بڑا خطرہ ڈس انفارمیشن ہے اور اے آئی نے اس خطرے کو اور بھی سنگین دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے واضح قوانین اور میکنزم بنائے۔

ساتھ ہی وہ اس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے پاس فی الحال اتنی کمپیوٹنگ پاور نہیں ہے جتنی اے آئی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے خاص مشینیں چاہییں جنھیں جی پی یوز (GPUs) کہتے ہیں۔

عامر جہانگیر کے مطابق ’دنیا بھر میں ان کی شدید کمی ہے اور ان کے لیے لمبی (انتظار کی) قطاریں ہیں اور کئی بار دو دو سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘

اس حوالےسے انھوں نے امریکہ کی سخت پالیسیوں کا ذکر کیا جن کے تحت وہ ان جی پی یوز کو فروخت کرنے میں بہت محتاط رہتا ہے۔

ان کی نظر میں پاکستان کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ یہ مشینیں کیسے خریدے اور ملک میں استعمال کے لیے لائے۔

اے آئی ریڈینیس انڈیکس میں پاکستان 109ویں نمبر پر

دنیا تیزی سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی دوڑ میں آگے بڑھ رہی ہے اور سوال یہ ہے کہ حکومتیں کتنی تیار ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کو پبلک سروس کے لیے استعمال کر سکیں۔ برطانوی تھنک ٹینک ’آکسفورڈ انسائٹس‘ نے 188 ممالک کا تجزیہ کیا اور 2024 کے ’اے آئی ریڈینیس انڈیکس‘ میں پاکستان 109ویں نمبر پر تھا۔

وسطی اور جنوبی ایشیا کے ملکوں کی درجہ بندی میں آرمینیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش سمیت آٹھ ملک پاکستان سے اوپر ہیں اور وہ نویں پوزیشن پر ہے۔

آکسفورڈ انسائٹس کی ہی ایک رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کا استعمال تو بڑھ رہا ہے لیکن زیادہ تر ابتدائی اور کم معیار کے کاموں تک محدود ہے۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر فلٹرز کے ذریعے مواد تیار کرنا یا چیٹ جی پی ٹی پر سطحی مواد لکھوانا۔

اس رجحان سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں اے آئی کا استعمال تو بڑھا ہے مگر یہ زیادہ تر بہت بنیادی کاموں تک محدود ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کی نئی آرٹیفیشل انٹیلیجنس پالیسی کا آنا یقیناً ایک خوش آئند بات ہے لیکن ملک کو مصنوعی ذہانت کو صحیح معنوں میں اپنانے کے لیے ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی دلچسپ لیکن ’ڈرا دینے والی‘ شکل ’جنریٹیو اے آئی‘ کیا ہے؟مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ’30 کروڑ نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں‘آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہمارے پینے کے پانی کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے؟کیا مصنوعی ذہانت ’مقدس صحیفوں‘ اور نئے مذہبی فرقوں کو جنم دے سکتی ہے؟کیا آپ کے پاس وہ نوکری ہے جس کو فی الحال مصنوعی ذہانت سے کوئی خطرہ نہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More