واٹس ایپ کے ذریعے ایک نیا سائبر فراڈ سامنے آیا ہے جس میں چند سیکنڈز کی ویڈیو کالز کو ریکارڈ کر کے فحش مواد کے ساتھ ایڈیٹ کرنے کے بعد متاثرین کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔اس نئے فراڈ سے صارفین کی پرائیویسی تو متاثر ہو ہی رہی ہے بلکہ ان کو نفسیاتی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔لاہور سمیت ملک کے دیگر حصوں میں ایسے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جہاں صارفین کو بیرون ممالک کے مختلف نمبروں سے بظاہر کسی خاتون کی ویڈیو کال موصول ہوتی ہے۔
لاہور کے حسین جمال (فرضی نام) ویڈیو ایڈیٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ وہ اکثر دیر رات تک کام میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں بھی ایک ایسی ہی کال موصول ہوئی تھی جس کے بعد ان کی ایک نازیبا ویڈیو ایڈیٹ کی گئی۔انہوں نے اپنا نام ضیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں انسٹاگرام پر خواتین کے ناموں سے بنے اکاؤنٹس سے مسلسل پیغامات موصول ہو رہے تھے۔ ان اکاؤنٹس سے پیغامات بھیجنے والے دعویٰ کرتے تھے کہ وہ بنگلہ دیش سے ہیں اور پاکستانی لوگوں سے متاثر ہیں۔حسین بتاتے ہیں کہ ’وہ خود کو خاتون ظاہر کر کے بار بار کہتی تھیں کہ وہ صحافی ہیں اور چیزیں ایکسپلور کرتی رہتی ہیں۔ نمبر لینے کے بعد وہ فون کال کرنے کی ضد کرتی رہیں لیکن میں نے ہر بار منع کیا۔‘ایک رات جب حسین اپنا کام ختم کر کے کمرے میں سونے کی تیاری کر رہے تھے تو رات تقریباً دو بجے انہیں واٹس ایپ پر اچانک ویڈیو کال موصول ہوئی۔حسین بتاتے ہیں کہ ’ویڈیو کال اٹینڈ کرنے پر دیکھا تو خاتون کی طرف سے سکرین پر کچھ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن میں ہیلو ہیلو کرتا رہا۔ سات سیکنڈز بعد کال کٹ گئی۔‘ان کے مطابق چند منٹ بعد اسی نمبر سے انہیں ایک 23 سیکنڈز پر مشتمل ویڈیو موصول ہوئی جو ایک ویڈیو کال کی سکرین ریکارڈنگ تھی۔ اس ویڈیو میں ان کا چہرہ دکھایا گیا تھا اور ایک خاتون کو برہنہ حالت میں بات کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ ویڈیو کو ایڈیٹ کر کے اس طرح پیش کیا گیا تھا جیسے حسین خاتون کے ساتھ فحش حرکات میں ملوث ہوں۔ اس کے فوراً بعد حسین کو بلیک میلنگ کے پیغامات موصول ہونے لگے۔حسین بتاتے ہیں کہ ’مجھے کہا گیا کہ یہ ویڈیو میرے تمام دوستوں کو بھیج دی جائے گی اور انسٹاگرام سمیت فیس بک پر پوسٹ کی جائے گی۔ لہٰذا اگر بچنا چاہتے ہیں تو 25 ہزار روپے ایزی پیسہ پر بھیج دیں لیکن جب میں نے بحث کی تو وہ 10 ہزار روپے پر آ گئے۔‘واٹس ایپ کے ذریعے صارفین کے ساتھ مختلف طریقوں سے مالی فراڈ کیے جاتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)حسین نے کسی قسم کی رقم دینے سے انکار کرتے ہوئے فوری طور پر نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) سے رابطہ کیا اور شکایت درج کروائی۔انہوں نے بتایا کہ وہ جب این سی سی آئی اے کے دفتر پہنچے تو وہاں کئی دیگر متاثرین موجود تھے جو اسی طرح کے فراڈ کا شکار ہوئے تھے۔حسین کے بقول ’میری درخواست پر ابھی کارروائی جاری ہے۔ وہ بنگلہ دیش کا نمبر ہے لیکن اس وقت بند جا رہا ہے۔‘خیبر پختنوخوا کے ضلع بنوں میں معلم کے طور پر کام کرنے والے شیر علی نے اپنے ایک طالب علم کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے اسی طرح کے فراڈ کی نشاندہی کی۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں رات ایک بجے ان کے ایک شاگرد کی کال موصول ہوئی۔شیر علی نے کہا کہ ’نوجوان کی آواز میں ڈر تھا۔ اس نے کہا کہ ’سر، پلیز واٹس ایپ چیک کریں۔‘ واٹس ایپ پر وائس میسجز میں وہ رو رہا تھا اور خودکشی کرنا چاہتا تھا کیونکہ کسی نے فراڈ کر کے اسے بلیک میل کیا تھا۔‘ان کے مطابق ان کے شاگرد کو ویڈیو کال موصول ہونے کے بعد ایک نازیبا ویڈیو ایڈیٹ کر کے بھیجی گئی اور پیسوں کا مطالبہ کیا گیا۔ واٹس ایپ کے ذریعے صارفین کے ساتھ مختلف طریقوں سے مالی فراڈ کیے جاتے ہیں۔سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ ظاہر ضیا کے مطابق واٹس ایپ پر تین قسم کے فراڈ عام ہیں (فوٹو: ڈی ایم آئی)سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ ظاہر ضیا نے وٹس ایپ کے ذریعے ہونے والے تین عام دھوکوں کی نشاندہی کر کے ان سے بچاؤ کے طریقے بتائے ہیں۔ان کے مطابق واٹس ایپ پر تین قسم کے فراڈ عام ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’سب سے پہلے ویڈیو کال کے ذریعے بلیک میلنگ کی جاتی ہے۔ نامعلوم نمبروں سے ویڈیو کالز سے بچنے کے لیے واٹس ایپ کی سیٹنگز میں نامعلوم کالز کو میوٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے کال کا نوٹیفکیشن تو آئے گا لیکن فون بجے گا نہیں۔‘دوسری قسم سے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ جعلساز خود کو کسی مائیکرو فنانس بینک کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں اور صارف کی ذاتی معلومات کے ذریعے اعتماد حاصل کرتے ہیں۔ان کے بقول ’فراڈیے ویڈیو کال کے دوران سکرین شیئرنگ کا آپشن آن کرنے کو کہتے ہیں جس سے وہ تمام میسجز اور کوڈز دیکھ کر ایزی پیسہ یا جاز کیش یا بینک اکاؤنٹس سے پیسے نکال لیتے ہیں۔‘اس کے علاوہ ایک اور طریقہ واردات اب عام ہوچکا ہے۔ جعلساز گھر کے نمبر پر کال کر کے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے خاندان کے کسی فرد کو پکڑ لیا ہے اور بچانے کے لیے رقم مانگتے ہیں۔ ظاہر ضیا بتاتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے خاندانی معلومات اکٹھی کر کے متاثرین کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ان کے پاس فیملی ٹری ہوتا ہے اور صارفین آسانی سے ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ظاہر ضیا نے زور دیا کہ نامعلوم نمبروں سے کالز اٹینڈ نہ کی جائیں اور فوری طور پر سائبر کرائم کی شکایت درج کروائی جائے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم سستی کی وجہ سے رپورٹ درج نہیں کرواتے۔ این سی سی آئی اے کی ویب سائٹ پر جا کر شکایت درج کی جا سکتی ہے۔ گوگل پر سرچ کر کے ہیلپ لائن نمبرز حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ متاثرین تھانے یا این سی سی آئی اے کے دفتر جا کر شکایت درج کروا سکتے ہیں لیکن ہم ایسا کرتے نہیں۔ جب تک شکایت درج نہیں کروائیں گے تب تک آپ ان جعلسازوں کے لیے سب سے آسان ہدف ہوں گے۔‘