20 جنوری 1978 کی صبحپی آئی اے کی سکھر سے چلی فوکر پرواز پر ناشتہ ختم ہونے ہی والا تھا کہ ریوالور اور ڈائنامائٹ لیے ایک مسافر نے جہاز کا رخ انڈیا کی طرف موڑنے کا مطالبہ کیا لیکن کپتان نے اسے بتایا کہ اس سفر کے لیے ایندھن ناکافی ہے اور کنٹرول روم کو اغوا کی اطلاع دینے کے آدھے گھنٹے بعد یہ طیارہ کراچی اتار دیا۔
ہائی جیکر سے رابطے میں آنے والے پہلے شخص پی آئی اے کے چیئرمین نور خان تھے جنھوں نے ’ہسٹری آف پی آئی اے‘ کے مطابق ’کھلی کاک پٹ کھڑکی سے ہائی جیکر کے مطالبات سننے کے بعد اسے علاج اور یہاں تک کہمسافروں اور عملے کو رہا کر کے ان کی جگہ خود یرغمال بننے کی پیشکش کی۔‘
ہائی جیکر نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے رقم نہ ملنے کی صورت میں تین بجے تک طیارہ دھماکے سے اڑانے کی دھمکی دی۔ ’اسے بتایا گیا کہ جمعے کی چھٹی کی باعث بینک بند ہیں۔‘
’رات 11:50 پر ہائی جیکر نے نور خان کو طیارے کے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ تقریباً ایک گھنٹے کی بات چیت کے بعد نور خان نے اچانک ہائی جیکر سے ریوالور چھیننے کی کوشش کی۔ ہاتھا پائی میں ہائی جیکر نے گولی چلا دی جو نور خان کے پہلو میں لگی۔ مگر تب تک نور خان ہائی جیکر پر غالب آ چکے تھے۔‘
22 فروری 1923 کوپنجاب کے ایکقصبے ٹمن میں ملک مہر خان کے ہاں پیدا ہونے والے ملک نور خان کا غلبہ یہیں تک محدود نہیں تھا۔
فضائیہ، کمرشل ایئرلائن، سیاست، ملک اور کھیلوں کا انتظام، یہ سب وہ شعبے تھے جن میں مبصرین کے مطابق انھوں نے غیرمعمولی کارکردگی دکھائی۔
کاک پٹ سے قیادت کرنے والے پاک فضائیہ کے سربراہ
ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد، ملک نور خان نے رائل انڈین ملٹری کالج، دہرہ دون میں داخلہ لیا۔ جنوری 1941میں برٹش رائل انڈین ائیر فورس میں کمیشن حاصلکرنےوالے نورخان پاکستان کے قیام کے بعد مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے جن میں چکلالہ اور ماری پور ایئر بیسز کی کمان شامل تھی۔
23 جولائی 1965 سے 1969 تک نور خان پاکستان ائیر فورس کے کمانڈر انچیف رہے۔
بکرم سنگھ اور سدھارتھ مشرا کی تدوین کی گئی کتاب ’ویئرگیلنٹری از ٹریڈیشن‘ میں رائل انڈین ملٹری کالج کے سابق طلبہ میں نور خان کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے: ’اگرچہ ایئر مارشل اصغر خان (جو خود بھی اسی ادارے سے تعلیم یافتہ تھے) نے پاک فضائیہ کی بنیاد رکھی، مگر اسے جرأت، برق رفتاری اور جاذبیت ایئر مارشل نور خان نے بخشی اور یہ خوبیاں ان میں آغاز ہی سے کوٹ کوٹ کر بھری تھیں۔‘
’ایک بار وہ اپنا ٹائیگر موتھ طیارہ جہلم کے پل کے نیچے سے اُڑا لے گئے، جس پر انھیں ملازمت سے برطرف کیے جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔‘
ڈاکٹر سلمان فریدی نے اپنے ایک مضمون میں نورخان کے ایک ہم عصر، ایئر چیف مارشل ادریس لطیف جو بعد میں انڈیا کے چیف آف ایئر سٹاف بنے، کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’نور خان بعض اوقات اپنی مہارت کا مظاہرہ یوں کرتے تھے کہ رن وے پر الٹے جہاز کے ساتھ لینڈنگ کے لیے آتے اور آخری لمحے پر رول اوور کر کے جہاز کو سیدھا کر کے اتارتے۔‘
ایئر کموڈور ثنا اگبوٹوالا اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے کئی مشنز میں نورخان کے ساتھ سکواڈرن لیڈر کی حیثیت سے پرواز کی۔
’وہ عام پائلٹ کی طرح آتے، فلائنگ سوٹ پہنتے، کافی اور برگر منگواتے اور فائرنگ رینج کی طرف روانہ ہو جاتے۔ ان کا نشانہ اتنا درست ہوتا کہ بہترین پائلٹ بھی ان کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ جب میں کہتا کہ آپ حد سے زیادہ نیچے جا رہے ہیں، وہ مسکرا کر کہتے: جنگ میں ایسے ہی حملہ کرنا ہوتا ہے۔‘
’ایک دن جب میں فنی خرابی کی وجہ سے واپس آ گیا، میرے فلائٹ کمانڈر ان کے ساتھ گئے۔ واپسی پر نور خان نے سیبر جیٹ کے وِنگ پر کھڑے ہو کر کہا: ’اب یہ سکور توڑ کر دکھاؤ، حیدر۔‘ انھوں نے سو فیصد نشانہ لگایا تھا۔ میرے علم میں ایسا ریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔‘
بریگیڈیئر سمیر بھٹاچاریا اپنی کتاب ’نتھنگ بٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’نور خان نہ صرف ایک دلیر اور بے خوف پائلٹ تھے بلکہ وہ خطرات مول لینے والے شخص بھی تھے۔‘
’چھ ستمبر 1965کی صبح جب انڈیا کی افواج (پاکستان کی جانب) پیش قدمی کر رہی تھیں، پاکستان ایئر فورس نے ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا اور شام تک نور خان نے اہمانڈینایئر بیسز پٹھان کوٹ، آدم پور، ہلواڑا اور جام نگر پر فضائی حملوں کا حکم دے دیا۔‘
’جب سرگودھا، پشاور اور ماری پور میں تعینات سیبر سکواڈرنز نے اپنے مشن مکمل کر کے واپسی کی، تو نور خان کو ان کی کامیابیوں پر واقعی فخر محسوس ہوا۔‘
’خصوصاً پٹھان کوٹ پر پاکستانی حملہ انتہائی شاندار تھا۔ سکواڈرن لیڈر سجاد حیدر، جنھیں ’نوزی حیدر‘ بھی کہا جاتا تھا، کی قیادت میں آٹھ سیبر طیاروں کے پائلٹس نے ’ہائی-لو-ہائی‘ حکمت عملی کے تحت شام 5 بجے کے قریب ایک تباہ کن حملہ کیا۔ گھڑی کی سوئیوں جیسی درستی سے پاکستانی پائلٹس نے زمین پر موجود نو انڈین طیارے تباہ کر دیے، جن میں سوویت یونین سے حاصل کیے گئے دو نئے طیارے بھی شامل تھے۔ یہ حملہپٹھان کوٹ ایئر فورس سٹیشن کے کمانڈر کے لیے مکمل طور پر غیر متوقع تھا۔‘
ذاتی مثال قائم کرتے ہوئے نور خان خود بھی کئی نہایت خطرناک مشنز پر گئے۔
ڈاکٹر فریدی کے مطابق صفِ اول میں قیادت کرتے ہوئے، انھوں نے خود بمباری اور رسد کی پروازیں انجام دیں تاکہ محاذِ جنگ پر فوج کی مدد کی جا سکے۔
جان فرِکر نے اپنی کتاب ’دی بیٹل فار پاکستان : دی ایئروار آف 1965‘ میں لکھا ہے کہ یہ حقیقتاً ’کاک پٹ سے قیادت‘ کی ایک مثال تھی، ’ایک جارحانہ انداز میں لیکن اس کا اصل مقصد اپنے پائلٹس کے لیے نئے معیار قائم کرنا تھا تاکہ وہ ان کی پیروی کر سکیں۔‘
نور خان ان پاکستانی افسران میں شامل تھے جنہوں نے 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں مصر کی مدد کے لیے رضاکارانہ طور پر شرکت کی۔
فریدی لکھتے ہیں کہ ’نورخان نے خود کئی فضائی مشن اڑائے، جہاں اُن کے مخالفین نے بھی ان کی شاندار فضائی مہارت کی تعریف کی۔‘
ایزر ویزمین، جو اُس وقت اسرائیلی فضائیہ کے نائب سربراہ تھے اور بعد میں اسرائیل کے وزیرِ دفاع اور صدر بنے، نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں نور خان کے بارے میں لکھا: ’وہ ایک زبردست آدمی تھے اور مجھے خوشی تھی کہ وہ مصری نہیں بلکہ پاکستانی تھے۔‘
جگن پلریسیٹی نے اپنے تعزیتی مضمون میں لکھا کہ ’نور خان ایکفلائنگ ہاگ (اڑنے والے جنونی) تھے، جوکسیبھی نئے طیارے کو اڑانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔‘
’یہاں تک کہ پاک فضائیہ میں اپنے آخری برسوں میں بھی وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ وہ ہر نئے شامل ہونے والے طیارے پر مکمل مہارت رکھتے ہوں۔ انہوں نے جدید طیارے خود اڑا کر اس عزم کا ثبوت دیا۔‘
جب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایاسیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایاجب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاعید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایاجب پی آئی اے دنیا کی پانچ بہترین ایئرلائنز میں شامل تھی
ایوی ایشن اور سیاحت سے طویل عرصہ منسلک رہنے والے محمد اختر ممونکا اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ پی آئی اے کا سنہرا دورملک نور خان کے مرہونِ منت تھا۔ وہ 1959 سے 1965 تک پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر رہے۔
’انھوں نے جرأت مندانہ فیصلے کیے اور پی آئی اے کو نہ صرف ایشیا کی صفِ اوّل کی ایئرلائن بنایا بلکہ دنیا کی پانچ بہترین ایئرلائنز میں شامل کر دیا۔ دنیا بھر میںپی آئی اے کے دفاتر بہترین اور مرکزی مقامات پر واقع ہوتے تھے۔‘
ان کے مطابق ’نور خان کو پاکستان میں پان ایم ایئر ویز کے اشتراک سے ہوٹل انٹرکانٹیننٹل کی ایک چین تعمیر کروانے کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے۔ یہ فائیو سٹار ہوٹلز کراچی، ڈھاکہ، لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں قائم کیے گئے۔‘
محمد اختر ممونکا لکھتے ہیں کہ ’نور خان پی آئی اے کے نوجوان افسران کے لیے ایک مثالی شخصیت تھے۔‘
ان کی قیادت میں پی آئی اے ایشیا کی تیسری ایئرلائن بنی جس نے جیٹ طیارے حاصل کیے۔ اس نے امریکہ کے لیے پروازیں شروع کیں اور لندن سے کراچی تک تیز ترین سفر کا ریکارڈ قائم کیا۔ پی آئی اے پہلی غیر کمیونسٹ قومی ایئرلائن بھی بنی جس نے چین کے لیے پروازیں چلائیں۔
ڈینس ککس نے اپنی کتاب ’دی یونائیٹڈ سٹیٹس اینڈ پاکستان‘ میںپاکستان اور چین کے درمیان شہری ہوابازی کے روابط قائم کرنے سے متعلق لکھا ہے کہ (وزیرخارجہ ذوالفقارعلی) بھٹو کی منظوری سے نور خان، جو پاکستان کی قومی ایئر لائن کے سربراہ تھے، نے چین کو تجارتی فضائی خدمات فراہم کرنے کے امکان کا جائزہ لینے کے لیے پہل کی، جو مغربی ممالک کی پابندی کی خلاف ورزی ہوتا۔‘
’نور خان کے مطابق، چینی حکام نے ابتدائی طور پر ڈھاکہ اور کونمنگ کے درمیان پرواز کی تجویز دی، جو دوسری جنگِ عظیم کے ’اوور دی ہمپ‘ ہمالیہ عبور کرنے والی پروازوں سے مشابہ تھی۔ نور خان نے اس تجویز کو تجارتی لحاظ سے ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کر دیا اور اس کے بجائے تجویز دی کہ پی آئی اے ڈھاکا سے چین کے بڑے شہروں شنگھائی، کینٹن اور بیجنگ کے لیے پرواز کرے۔‘
’نور خان کی تجویز سننے کے بعد، چو این لائی نے کہا کہ وہ شنگھائی اور کینٹن کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کی منظوری دیں گے، لیکن بیجنگ کے لیے نہیں۔‘
’انھوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ پاکستان چین کے ہوائی اڈوں کو اپ گریڈ کرنے میں مدد دے سکتا ہے، جنھیں نور خان نے ’انتہائی پسماندہ‘ اور زمانے سے 20 سال پیچھے قرار دیا تھا۔ پاکستانی حکومت کے اندر ایک طویل اور گرما گرمبحث کے بعد (صدر) ایوب خان نے اس تجویز کی منظوری دے دی۔‘
ککس لکھتے ہیں کہ ’واشنگٹن کے شدید احتجاج کے باوجود پاکستان نے 29 اگست 1963 کو چین کے ساتھ یہ معاہدہ کر لیا۔‘
’کینیڈی انتظامیہ نے اس کے ردعمل میں پہلی بار پاکستان کے خلاف ایک ٹھوس پابندی عائد کی۔ ڈھاکہ میں ایک نئے ہوائی اڈے کی تعمیر کے لیے 43 لاکھ ڈالر کی امدادی رقم کی منظوری کو غیر معینہ مدت تک مؤخر کر دیا، جہاں سے پی آئی اے نے چین کے لیے پروازوں کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔‘
نور خان نے پی آئی اے کو مالی طور پر منافع بخش ادارہ بنایا اور اسے دنیا کی بہترین شہرت یافتہ ایئرلائنز میں شامل کر دیا۔
سنہ 1973میں جب پی آئی اے مالی مشکلات کا شکار ہو گئی تو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نور خان سے دوبارہ اس ادارے کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی۔ اُن کے دوسرے دور میں پی آئی اے کےبیڑے میںبڑے طیارے شامل کیے گئے۔
دنیا بھر میں کئی نئے دفاتر اور پروازوں کے راستے متعارف کروائے گئے اور ایک نئی پیشہ ورانہ انتظامی ٹیم تعینات کی گئی تاکہ کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے اور کاروبار کو وسعت دی جا سکے۔
ہاکی ورلڈ کپ، ایشین کرکٹ کونسل اور عمران خان کی کپتانی
نور خان کا کھیلوں کے انتظام میں داخلہ 1967 میں ہوا جب انھیں پہلی بار پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر مقرر کیا گیا۔
ان کے دور میں پاکستان نے 1968 میں میکسیکو سٹی میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں طلائی تمغہ جیتا۔ نور خان کی تجویز پر ہاکی ورلڈ کپ کی ابتدا ہوئی لیکن پاکستان میں 1971 کی سیاسی بدامنی کی وجہ سےپہلا کپبارسلونا، سپین منتقل کرنا پڑا۔ فیڈریشن میں ان کی پہلی مدت 1969 میں ختم ہوئی۔
لیکن 1976 میں انھیں دوبارہ اس عہدے پر تعینات کیا گیا۔ ان کی تجویز پر چیمپئنز ٹرافی منعقدہوئی، جو دنیا کی اعلیٰ درجہ کی ٹیموں کے درمیان ہر دو سال بعد ہونے والا ٹورنامنٹ تھا۔
نور خان کے دوسرے دور میں پاکستان نے 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں ہاکی کا طلائی تمغہ، 1978 اور 1982 کے ورلڈ کپ اور 1978 اور 1980 کی چیمپئنز ٹرافی جیتی۔ پاکستان نے فرانس کے شہر ورسائے میں 1979 میں منعقدہ جونیئر ہاکی ورلڈ کپ بھی جیتا، جو خود نور خان ہی کا تصور تھا۔
نور خان نے سکواش کے کھیل کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر سلمان فریدی لکھتے ہیں کہ ’نور خان نے 1974 میں کولٹس سکیم کا آغاز کیا، جس کے تحت کئی باصلاحیت نوجوان سکواش کھلاڑیوں کی تربیت اور سپانسرشپ کی گئی جو اگلے 10–15 سالوں تک عالمی سکواش پر چھائے رہے۔‘
بین الاقوامی سطح پر بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو پی آئی اے میں مستقل ملازمت دی گئی اور کامیابیوں پر بونس اور ترقی دی گئی۔ جلد ہی عالمی سکواش کی فہرست پاکستانی کھلاڑیوں سے بھر گئی۔ ان ہی میں سے ایک نوجوان، جہانگیر خان، نور خان کی سرپرستی میں دنیا کے عظیم ترین سکواش کھلاڑی بنے اور پاکستان کے لیے بے مثال اعزازات جیتے۔
نور خان کو 1980 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا تو فریدی کے مطابق نور خان نے روایتی مشوروں کو نظرانداز کرتے ہوئے عمران خان کو کپتان مقرر کیا جو بعد میں ایک بہترین انتخاب ثابت ہوا۔
طاہر میمن اور سلیم پرویز نے اپنی کتاب ’این ادرپرسپیکٹو: ہسٹری آف پاکستان کرکٹ‘ میں نورخان کی کاروباری ذہانت اور فیصلہ سازی کے ہنر کی تعریف کی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر نور خان نے ایشین کرکٹ کونسل اور ایشیا کپ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، جس سے ایک ایشیائی بلاک قائم ہوا جو انگلینڈ اور آسٹریلیا کی روایتی اجارہ داری کو چیلنج کرنے لگا۔
نور خان نے سری لنکا کو ٹیسٹ سٹیٹس دلوانے اور زمبابوے کوآئی سی سی میں ایسوسی ایٹ رکن بنوانے میں مدد دی۔انڈین کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے ساتھ مل کر انھوں نے 1987 ورلڈ کپ کی میزبانی جیتی۔
پیٹراوبورن نے اپنی کتاب ’دی وونڈڈ ٹائیگر: اے ہسٹری آف کرکٹ ان پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ ایک بھی گیند پھینکے جانے سے پہلے، 1987 ورلڈ کپ پاکستان کے لیے بہت بڑی فتح تھی۔ ’انڈیا کے ساتھ مل کر وہیہ کپ انگلینڈ سے برصغیر میں لے آئے تھے۔‘
سنہ 1969میں نور خانفضائیہ سے ریٹائر ہوئےلیکن صدر یحییٰ خان نے انھیں وفاقی کابینہ میں شامل کر لیا۔
اگرچہ اصلاحات پر زور دینے کی وجہ سے ان کا ابتدائی دور مختصر رہا، لیکن صدر یحییٰ نے انھیں دوبارہ تعینات کیا اور نائب چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔
اسی سال، انھیں مواصلات، صحت، محنت اور سائنس کے وفاقی وزیربھی مقرر کیا گیا۔ یکم ستمبر 1969 کو نور خان کو مغربی پاکستان کا گورنر بنایا گیا، جہاں انھوں نے سیاسی اور تعلیمی شعبوں میں جامع اصلاحات متعارف کروائیں۔
شاہد جاوید برکی نے ’پاکستان انڈر بھٹو‘ میں لکھا ہے کہنور خاننے متنازع ’ون یونٹ‘ منصوبے کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا اور محنت و تعلیم سے متعلق ایسی پالیسیاں متعارف کروائیں جن کا مقصد یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت کو کم کرنا تھا۔
نور خان نے یکم جولائی 1970 کو صدر یحییٰ خان سے اختلافات کے باعث گورنری سے استعفیٰ دے دیا۔
سنہ 1985میں انھوں نے ایک غیر جانبدار امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور 1988 کے عام انتخابات میں حصہ لیا، تاہم ناکام رہے۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی۔
نور خان 15دسمبر 2011کو وفات پا گئے۔ چکلالہ ایئربیس اب ان ہی کے نام پر ’نورخان ایئربیس‘ کہلاتی ہے۔
رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے ’گرانے جانے‘ کے دعویٰ پر بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانی65 کی جنگ اور پاکستانی پائلٹ کا افسوسعید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایاجب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاسیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایاجب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایا