بنگلہ دیش میں سکول پر ایئر فورس کا طیارہ گرنے کا واقعہ، ہوا کیا تھا؟

اردو نیوز  |  Jul 22, 2025

بنگلہ دیش میں ایئر فورس کا جہاز سکول پر گرنے کے واقعے کے بارے میں کچھ معلومات سامنے آئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔

یہ واقعہ پیر کو دارالحکومت ڈھاکہ میں پیش آیا تھا جس میں 25 بچوں سمیت 27 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنگی جہاز نے دن ایک بج کر چھ منٹ پر ایئر فورس کے بیس سے اڑان بھری جو معمول کی تربیت کا حصہ تھا، تاہم جلد ہی اس میں تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی۔

پائلٹ نے کوشش کی کہ جہاز کو آبادی سے دور لے جایا جائے تاکہ کم سے کم جانی نقصان ہو، تاہم یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور جہاز سکول کی عمارت کے اوپر گر گیا۔

دو منزلوں پر مشتمل یہ عمارت بیس سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر بیابیری کے علاقے میں ہے۔

واقعے کے جاری ہونے والی تصاویر میں طیارے کی باقیات کو عمارت کے اندر گھسا ہوا دیکھا جا سکتا ہے جبکہ عمارت بھی بری طرح سے متاثر ہوئی تھی۔

اس واقعے میں 27 افراد ہلاک ہوئے جن میں 27 بچوں کے علاوہ ایک ٹیچر اور طیارے کا پائلٹ شامل تھا جن کی لاشیں بعدازاں ملبے سے نکالی گئیں۔

واقعے میں 100 سے زائد بچے اور 15 دیگر افراد زخمی بھی ہوئے جن میں سے 78 اب بھی ہسپتال میں داخل ہیں۔

طیارے کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ ایف سیون فائٹر جیٹ تھا جو کہ چینی ساختہ تھا اور اس کو چین کے چینگڈو طیاروں جے سیون اور ایف سیون کی طرح جدید ترین طیارہ سمجھا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش نے ایسے 16 طیاروں کی خریداری کے معاہدے پر 2011 میں دستخط کیے تھے اور ان کی فراہمی 2013 میں کی گئی تھی۔

واقعے کے بعد بنگلہ دیش ایئر فورس نے تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ سانحے کی اصل جوہات کا پتہ چلایا جا سکے۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی جانب سے بھی عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔

بنگلہ دیشی حکومت کا کہنا ہے کہ واقعے سے متاثر ہونے والے افراد کی ہر قسم کی مدد کی جا رہی ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More