پاکستان کے آٹو سیکٹر میں جون 2025 میں ایک غیر معمولی رجحان دیکھا گیا جس کے تحت 1000 سی سی سے کم انجن والی گاڑیوں کی فروخت میں زبردست اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
پاکستان آٹو مینو فیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) کے مطابق مئی میں 3865 چھوٹی گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں جب کہ جون میں یکدم چھوٹی گاڑیوں کی فروخت 10 ہزار 178 تک پہنچ گئی، یعنی ایک مہینے میں 6313 چھوٹی گاڑیاں زیادہ فروخت ہوئیں۔ جون میں گاڑیوں کی بڑے پیمانے پر فروخت سے گزشتہ تین سال میں کسی بھی مہینے سب سے زیادہ گاڑیاں فروخت ہونے کا ریکارڈ قائم ہوگیا ہے۔
آٹو سیکٹر میںکروڑوں روپے کا دھندہ ،قیمت بڑھنے سے قبل ہزاروں گاڑیاں کس نے خرید لی؟
واضح رہے کہ یہ اضافہ ایسے وقت میں ہوا جب 10 جون کو پیش کیے گئے وفاقی بجٹ میں 660 سی سی تک کی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس ساڑھے 12 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی تھی، جس کے باعث یکم جولائی سے قیمتوں میں اضافہ متوقع تھا۔ ذرائع کے مطابق 10 جون سے 30 جون تک 20 روز میں دھڑا دھڑ وہ گاڑیاں کمپنیوں نے نکالی گئیں جن کی قیمتیں بڑھنی تھی۔
یہ گاڑیاں کس نے اور کیسے خریدیں؟ جون میں کس ماڈل کی فروخت کتنی ہوئی؟
پاکستان آٹو مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کے مطابق گزشتہ ماہ جون کے مہینے میں جون میں 1000 سی سی سے کم گاڑیوں کی فروخت میں 163 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیاجس میں آلٹو کار سب سے زیادہ فروخت ہوئیں جس کی فروخت میں 179فیصد اضافہ ہوا۔ مئی میں 3409 آلٹو گاڑیاں فروخت ہوئیں تھیں، جون میں دگنے سے بھی زیادہ یعنی 9 ہزار 497 کاریں فروخت ہوئیں۔
کلٹس کاروں کی فروخت میں بھی 108 فیصداضافہ ریکارڈ کیا گیامئی میں 252 کلٹس کاریں فروخت ہوئی تھیں جون میں 523 کلٹس کاریں فروخت ہوگئیں۔ راوی کی فروخت میں 50 فیصد جب کہ ایوری کی فروخت میں 49 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ ویگن آر کی فروخت میں جون کے مہینے میں 32 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
چھوٹی گاڑیوں کے برعکس 1300سی سی اور اس سے اوپر کی گاڑیوں کی فروخت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جب کہ کرولا یارس میں 24 فیصد، انڈس سٹی اور سوک میں 9 فیصد، بی آر وی اور ایچ آر وی میں 27 فیصد کمی ہوئی۔ سوئفٹ کاروں کی فروخت میں 125 فیصد اضافہ ہوا۔
چھوٹی گاڑیاں کس نے خریدی اور کیوں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خریداری عام شہریوں نے نہیں بلکہ آٹو کمپنیوں کے مخصوص ڈیلرز اور سرمایہ کاروں نے کی تاکہ جولائی میں قیمتیں بڑھنے کے بعد منافع کمایا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق جون میں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں سے صرف ساڑھے تین سے چار ہزار گاڑیاں حقیقی صارفین کو دی گئیں جبکہ باقی تقریباً 6 ہزار گاڑیاں کمپنیوں نے اپنے مجاز ڈیلرز کے ذریعے سرمایہ کاروں کو فراہم کیں۔ 2 جولائی کو جب نئی قیمتوں کا اعلان ہوا تو سوزوکی آلٹو کی قیمت میں ایک لاکھ 86 ہزار روپے تک کا اضافہ دیکھنے میں آیا، جس سے جون میں خریداری کرنے والوں کو فوری کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچا۔
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عام صارفین کے لیے گاڑی کی ڈلیوری 3 سے 4 ماہ بعد ہوتی ہے جبکہ سرمایہ کاروں نے ایک مہینے میں ہزاروں گاڑیاں نکال لیں اور اب وہی گاڑیاں مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔
یہ انکشاف آٹو سیکٹر میں شفافیت اور حکومتی پالیسی کے مؤثر نفاذ پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ ماہرین کا مطالبہ ہے کہ اس "قبل از وقت خریداری دھندے" کی فوری تحقیقات کی جائیں تاکہ صارفین کا اعتماد بحال ہو اور مصنوعی منافع خوری کا راستہ روکا جاسکے۔