فیصل آباد میں 48 چینی شہریوں سمیت 149 افراد گرفتار: مبینہ جعلسازی جس میں فری لانسنگ کی جعلی کمپنی قائم کی گئی

بی بی سی اردو  |  Jul 10, 2025

فیصل آباد کے رہائشی محمد عرفان کے بیٹے محمد نعمان نے فیس بُک پر آن لائن سرمایہ کاری کا ایک اشتہار دیکھا جس پر رابطے کے لیے ایک غیرملکی واٹس ایپ نمبر بھی درج تھا۔

نعمان نے اس واٹس ایپ نمبر پر رابطہ کیا اور انھیں دوسری طرف موجود شخص نے بتایا کہ ان کا تعلق ایک غیرملکی ایڈورٹائزنگ اینڈ کمیونیکیشن کمپنی سے ہے۔

اس کے بعد نعمان کو ایک ٹیلی گرام چینل میں شامل کیا گیا اور انھیں یوٹیوب کے کچھ چینلز کے لنک بھیج کر انھیں سبسکرائب کرنے کا ٹاسک سونپا گیا اور اس کے عوض انھیں کچھ پیسے بھی دیے گئے۔

لیکن اس وقت نعمان کو نہیں معلوم تھا کہ جو پیسے انھیں دیے جا رہے ہیں دراصل وہ دھوکے بازوں کا طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ پاکستانی شہریوں کا بھروسہ جیتنا چاہتے ہیں تاکہ انھیں لاکھوں روپے سے محروم کیا جا سکے۔

لوگوں کو دھوکا دے کر پیسے کمانے کے اس دھندے کے پیچھے کوئی ایک شخص نہیں بلکہ سینکڑوں پاکستانی اور غیرملکی شہریوں پر مشتمل ایک منظم نیٹ ورک تھا۔

نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے 8 جولائی کو فیصل آباد کے علاقے سانگلہ ہِل کے ایک گھر میں چھاپہ مارا اور 71 غیرملکیوں سمیت 149 افراد کو گرفتار کیا۔

این سی سی آئی اے کی جانب سے بی بی سی کو بھیجے گئے ایک اعلامیے میں ایجنسی نے ایک اور تحقیقاتی ادارے کے ہمراہ فیصل آباد میں ایک خفیہ اطلاع پر کارروائی کی اور اس دوران وہاں ایک بڑے کال سینٹر کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ کال سینٹر ’پونزی سکیم اور انویسٹمنٹ فراڈ میں ملوث تھا۔‘

این سی سی آئی اے کے مطابق گرفتار ہونے والے افراد میں 48 چینی باشندے، آٹھ نائجیرین شہری، چار فلپائنی شہری، دو سرلنکن باشندے، چھ بنگلہ دیشی شہری، میانمار کے دو شہری اور زمبابوے کا ایک شہری بھی شامل ہیں۔ گرفتار کیے جانے والے افراد میں 18 خواتین بھی شامل ہیں۔

این سی سی آئی اے کے ترجمان نجیب الحسن نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ گرفتار کیے گئے ملزمان کو فیصل آباد کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا تھا اور عدالت نے ان کے ریمانڈ کا حکم بھی جاری کر دیا ہے۔

صحافی احتشام شامی کے مطابق بدھ کو عدالت میں 149 ملزمان کو پیش کیا گیا ہے جن میں سے 18 خواتین سمیت 87 افراد کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر این سی سی آئی اے کے حوالے کیا گیا ہے، جبکہ 62 پاکستانی ملزمان کو 23 جولائی تک جولائی تک جوڈیشل ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

فراڈ نیٹ ورک کے خلاف الزامات کیا ہیں؟

این سی سی آئی اے کے مطابق جس گھر پر چھاپہ مارا گیا وہ فیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سابق چیئرمین ملک تحسین اعوان کی رہائش گاہ تھی، تاہم اس چھاپے کے دوران ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔

گرفتار کیے گئے ملزمان کے خلاف سات ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں اور مقدمات میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

بی بی سی کو دستیاب تمام ایف آئی آرز میں درج دھوکہ دہی کی تفصیلات ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں۔ اس نیٹ ورک کا کارندوں کا لوگوں سے رابطہ واٹس ایپ کے ذریعے ہوا اور انھیں ایک ٹیلی گرام چینل پر شامل کیا گیا جہاں پہلے سے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔

نعمان کے والد محمد عرفان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلے پہل تو میرے بیٹے کو ’اپ ورک پاکستان‘ نامی ایک ٹیلی گرام چینل میں ایڈ کیا گیا اور ان سے سادہ پے اکاؤنٹ پر 300 جمع کروانے کے لیے کہا گیا اور اس کے بدلے میں 300 روپے کا سرمایہ لگانے پر 1200 روپے ملے۔‘

’بعد میں میرے بیٹے کو 4 ہزار روپے کی انویسٹمنٹ لگانے کا کہا گیا جس کے بعد انھیں منافع سمیت 12 ہزار روپے واپس کیے گئے۔‘

عرفان کہتے ہیں کہ دھوکے باز ان کے بیٹے کا بھروسہ حاصل کر چکے تھے اور ان کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق اس کے بعد ان کے بیٹے نے مختلف اقساط میں اس گروہ کو 2 لاکھ 56 ہزار روپے دیے اور وہ پیسے انھیں آج تک واپس نہیں ملے ہیں۔

آن لائن فراڈ: ایمازون کا گفٹ واؤچر جو انڈین خاتون کو 51 لاکھ روپے سے محروم کر گیاآواز کی نقل کے ذریعے آن لائن فراڈ کیسے ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟’آئی جی آئی ایل‘: ایف آئی اے کروڑوں روپے کے آن لائن فراڈ میں مبینہ طور پر ملوث چینی گینگ تک کیسے پہنچی؟’کرپٹو کی دنیا کو ہلا دینے والا‘ اربوں ڈالر کا فراڈ جس میں ایک ملک کے صدر بھی ملوث ہیں

اس نیٹ ورک کے خلاف ایک ایف آئی آر محمد ساجد نامی پاکستانی شہری نے بھی درج کروائی ہے اور ان کے مطابق اس نیٹ ورک نے ان کے ساتھ 31 لاکھ روپے سے زیادہ کا فراڈ کیا ہے۔

انھوں نے این سی سی آئی اے کو بتایا کہ انھیں آن لائن کام اور انویسٹمنٹ کے حوالے سے بریفنگ کسی ایلس گارشیا نامی خاتون نے دی تھی اور انھوں نے اپنا تعارف اپ ورک پاکستان نامی کمپنی کے نمائندے کے طور پر کروایا۔

محمد ساجد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ انھیں ایک ٹیلی گرام چینل میں ایڈ کیا گیا تھا جہاں 18 سے 20 ہزار ممبر پہلے سے موجود تھے اور وہ کمپنی کے کام سے متاثر ہو کر انھیں مختلف اقساط میں 31 لاکھ 38 ہزار سے زائد کی رقم دے بیٹھے۔

ایک اور ایف آئی آر کے مدعی محمد بلال نامی شخص ہیں جو چنیوٹ کے رہائشی ہیں۔ اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ برس نومبر میں ان کا رابطہ ایک غیرملکی واٹس ایپ نمبر پر عائشہ رحمان نامی خاتون سے ہوا، جنھوں نے انھیں کمپنی کے سیلز مینیجر کے طور پر کام کرنے کی آفر دی۔

محمد بلال نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ 'انھوں نے مجھے نوکری کا جھانسہ دیا اور کہا کہ آپ ہمارے ساتھ آن لائن کام کریں۔'

'اس کے بعد مجھے واٹس ایپ سے ٹیلی گرام چینل پر شامل کروایا گیا اور نومبر 2024 تک میں انھیں آن لائن انویسٹمنٹ کی مد میں ایک لاکھ 20 روپے منتقل کر چکا تھا۔'

دیگر ایف آئی آرز کے مطابق محمد کاظم نامی ایک شہری نے اس گروہ کو 7 لاکھ 30 ہزار، عبدالواسع نامی شہری نے 7 لاکھ 39 ہزار، محمد وسیم نامی شہری نے 6 لاکھ 46 ہزار اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی رہائشی عائشہ منیر سے 4 لاکھ 99 ہزار روپے کی رقم حاصل کی۔

ملک تحسین اعوان کون ہیں؟

فیصل آباد کے علاقے سانگلہ ہِل میں جس گھر پر چھاپہ مارا گیا وہ این سی سی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ملک تحسین اعوان کی رہائش گاہ ہے۔

سوشل میڈیا پر موجود ان کی پروفائلز پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پنجاب کی مقامی سیاست میں بھی متحرک رہے ہیں اور ان کے نام سے منسوب ایک فیس بُک اکاؤنٹ پر موجود ان کی تصاویر میں انھیں متعدد سیاسی شخصیات کے ہمراہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

این سی سی آئی اے کے مطابق ملک تحسین اعوان انھیں مالی دھوکے دہی کے مقدمے میں مطلوب ہیں اور انھیں پرویژنل نیشنل آئڈینٹفکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) میں شامل کر دیا گیا ہے جس کے بعد وہ بیرونِ ملک سفر نہیں کرسکیں گے۔

اس گروہ کے خلاف درج تمام ایف آئی آرز میں ملزمان سے منسوب بیان میں لکھا گیا ہے کہ ان سے سارے غیری قانون کام ملک تحسین اعوان کروا رہے تھے۔

بی بی سی اردو نے ملک تحسین اعوان کا موقف جاننے کے لیے ان کے خاندان کے افراد سے رابطے کی کوشش کی ہے، تاہم اس خبر کی اشاعت تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

کیا ’اپ ورک پاکستان‘ نامی کمپنی کا کوئی وجود ہے؟

متعدد شکایت کنندگان کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آرز میں ایک کمپنی ’اپ ورک پاکستان‘ کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ ملی فراڈ کرنے والے افراد نے اپنا تعارف بطور اس کمپنی کے نمائندہ کروایا۔

'اپ ورک' نامی آن لائن کی ایک ویب سائٹ اپنا وجود ضرور رکھتی ہے جس کے کلائنٹس اور فری لانسرز دنیا بھر میں موجود ہیں، لیکن اس ویب سائٹ کا 'اپ ورک پاکستان' نامی خیالی یا جعلی کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

'اپ ورک' کی ترجمان ایلزبتھ نے ای میل کے ذریعے بی بی سی اردو کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ 'اپ ورک امریکہ میں موجود ایک ورک مارکیٹ پلیس ہے جس کے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کلائنٹس اور فری لانسرز ہیں۔'

انھوں نے مزید کہا کہ اپ ورک پاکستان نامی کوئی چیز اپنا وجود نہیں رکھتی اور 'اپ ورک کے نمائندے اپنے صارفین سے واٹس ایپ یا دیگر میسجنگ ایپس کے ذریعے رابطے نہیں کرتے۔'

ایلزبتھ کہتی ہیں کہ بدقسمتی سے دھوکہ دہی پوری انڈسٹری کا مسئلہ ہے جس سے تمام ٹیکنالوجی پلیٹ فارم متاثر ہو رہے ہیں۔

’یہ لوگ اپ ورک جیسی کمپنیوں کے ساتھ منسلک ہونے کے جھوٹے دعوے ضرور کرتے ہیں لیکن ہم اس قسم کی کسی کمیونیکیشن کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی اپ ورک پاکستان سے اپنی شناخت کرنے والوں کا ہم سے کوئی تعلق ہے۔‘

اس خبر کے لیے اضافی رپورٹنگ صحافی احتشام شامی نے کی ہے۔

ڈھائی کروڑ پاؤنڈ کا فراڈ کرنے والے نوجوان کی وہ معمولی غلطی جو اسے قانون کی گرفت میں لے آئی’کرپٹو کی دنیا کو ہلا دینے والا‘ اربوں ڈالر کا فراڈ جس میں ایک ملک کے صدر بھی ملوث ہیںسائبر فراڈ کی انوکھی واردات: ’دو دن فون بند رہا اور پھر بینک سے 80 لاکھ روپے نکال لیے گئے‘انڈیا میں 190 کروڑ روپے کا ڈیجیٹل فراڈ جو ایک خاتون کی کال اور لوکیشن ٹریس کرنے پر بے نقاب ہوابرطانیہ میں نوکری کا فراڈ اور پاکستانی ایجنٹ: ’اس نے کہا آپ میری بہنوں جیسی ہیں، زیادہ پیسے نہیں لوں گا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More