کچھ عرصہ قبل بڑے پیمانے پر ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کے ایک واقعے کے بعد کئی دیہات تباہ ہو گئے تھے لیکن اس کی وجہ سے پاکستان کی سب سے دلکش جھیلوں میں سے ایک کا جنم ہوا۔
جب لارن وِنزلو-لیویلن نے اپنے سوشل میڈیا پر پاکستان کی وادی ہنزہ میں عطا آباد جھیل کی ایک تصویر دیکھی تو وہ فوراً ہی وہاں جانے کی منصوبہ بندی میں لگ گئیں۔
انھوں نے کہا ’یہ تصویر کسی ڈرون سے نہیں، بلکہ ایک بلند پہاڑی راستے سے لی گئی تھی جس میں ایک شخص کو خطرناک انداز میں ایک پہاڑ کے کنارے پر بیٹھا ہوا دیکھا جا سکتا تھا جس کے نیچے دور تک نیلگوں پانی پھیلا ہوا تھا۔‘
جنوب مشرقی انگلینڈ کی رہائشی وِنزلو-لیویلن اور ان کے ساتھی کریگ ہبارڈ کو آن لائن دنیا میں ’نان سٹاپ ٹریولنگ‘ جوڑے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ جب سفر پر نہیں ہوتے ہیں تو وہ ایسی نوکریاں کرتے ہیں کہ اگلے ایڈونچر (سفر) کے لیے پیسے بچا سکیں۔
انھوں نے غیر ملکی ویب سائٹس کا جائزہ لیا اور محفوظ راستے تلاش کرنے اور گوگل ارتھ پر مقامات دیکھنے کے بعد ان کے لیے بس اتنا رہ گیا تھا کہ وہ ہنزہ میں کریم آباد پہنچیں اور وہاں سے اپنے ٹریک کے لیے سواری پکڑیں۔
قالینوں اور گھریلو سامان سے لدے ایک کھلے ٹرک کی چھت پر ایک مقامی خاندان کے ساتھ بیٹھ کر اس جوڑے نے ہنزہ وادی تک کا سفر کیا۔ اس سفر کے وہ سرنگوں سے گزرے جبکہ تیز ہوا کے جھونکے ان کے چہروں کو سہلاتے رہے۔
وہ خوش و خرم، قہقہے لگاتے ہوئے سفر کر رہے تھے کہ اچانک شاندار نیلگوں رنگ کی عطا آباد جھیل ان کے سامنے تھی۔ چاروں طرف خشک پہاڑیوں کے بیچ برفیلے پانی سے لبریز سانس روک دینے والی خوبصورتی کے ساتھ یہ جھیل ان کی آنکھوں کے سامنے تھی۔
Getty Imagesگلگت بلتستان کے خوبصورت اور سنگلاخ پہاڑ ہائیکنگ کرنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں
وِنزلو-لیویلن نے کہا: ’یہ شاید پاکستان میں ہمارے گزارے ہوئے وقت کی سب سے پسندیدہ یاد ہے۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ہم کسی حیرت کے رولر کوسٹر پر سوار ہوں۔‘
پاکستان 88واں ملک تھا جس کا انھوں نے سفر کیا لیکن اتنے ممالک گھومنے والے ان تجربہ کار مسافروں کے لیے بھی گلگت بلتستان کا منظرنامہ منفر اور نمایاں تھا۔
وِنزلو-لیویلن مسکراتے ہوئے کہنے لگیں: ’یہ کہنا قدرے مبالغہ آرائی ہوگی لیکن گلگت بلتستان کے مناظر ہائیکنگ کا سفر شروع ہونے سے پہلے ہی ڈرامائی ہو گئے تھے۔‘
انتہاؤں سے بنا منظرنامہ
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ارضیاتی علوم کے پروفیسر مائیک سرل کہتے ہیں: ’قراقرم کے پہاڑ دنیا کے سب سے بلند اور عمودی پہاڑوں میں شمار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ یہ ہمالیہ سے بھی زیادہ عمودی ہیں۔‘
دریا کے کنارے سے لے کر پہاڑ کی چوٹی تک، ہنزہ ویلی کا زمینی سفر آہستہ آہستہ نہیں بلکہ یکلخت بڑھتا ہے اور 1,850 میٹر سے 7,788 میٹر کی بلندی تک پہنچ جاتا ہے۔
چھ کلومیٹر کے سفر میں ہی سڑکیں افسانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں قراقرم ہائی وے ہے جو دنیا کی سب سے اونچی پکی سڑک ہے اور جسے اکثر ’دنیا کا آٹھواں عجوبہ‘ کہا جاتا ہے۔
وہاں پہنچنے کے لیے اپنا سفر یوں منصوبہ بنائیں:
کیسے پہنچیں: اسلام آباد سے گلگت کے لیے پرواز لیں (تقریباً ایک گھنٹہ)، اس کے بعد قراقرم ہائی وے پر تین گھنٹے کی ڈرائیو آپ کو عطا آباد جھیل تک لے جائے گی۔ لیکن مِسا طلپور کے مطابق وہاں پہنچنے کے لیے ایک زیادہ خوبصورت راستہ بھی ہے۔ اس کے لیے آپ اسلام آباد سے سکردو کی پرواز لیں جس کے بعد جگلوٹ اور گلگت سے ہوتے ہوئے سات سے آٹھ گھنٹے کی ڈرائیو کرتے ہوئے عطا آباد جھیل تک پہنچیں۔بہترین وقت: معتدل موسم، کم پروازوں کی منسوخی اور کھلا ہوا بابوسر پاس جون سے ستمبر کے درمیان ہوتا ہے اور یہ وہاں کے لیے سیاحتی موسمِ کا عروج کہلاتا ہے۔ مارچ کے وسط سے اپریل تک ہنزہ ویلی میں چیری کے پھول کھلتے ہیں، جب کہ سرد مہینے جھیل پر آئس سکیٹنگ کا تجربہ فراہم کرتے ہیں۔کہاں قیام کریں: عطا آباد جھیل کے کنارے کئی پُرتعیش رہائش گاہیں موجود ہیں، جیسے لکسس ہنزہ، فیملی ریزورٹ اور بارون کے لاجز، کے ساتھ ساتھ گلیمپنگ ایکو ڈومز بھی ہیں۔ اگر آپ کم بجٹ اور کم رش والی جگہ چاہتے ہیں تو آپ کو جھیل کا منظر نہیں ملے گا۔ کم بجٹ میں ہنزہ اور حسینی پل کے قریب گیسٹ ہاؤسز بہترین متبادل ہیں۔Getty Imagesیہ جھیل سنہ 2010 کے ابتدا میں ایک زبردست لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں وجود میں آئی
مگر ایسے عظیم الشان علاقے میں ہر ڈھلوان پر اپنی طرح کا خطرہ موجود ہے۔ قراقرم ہائی وے پر رکاوٹیں اور لینڈ سلائیڈ کے باعث گھنٹوں کی تاخیر معمول کا حصہ ہیں۔
وِنزلو-لیویلن کو ایک تازہ تازہ کیچڑ والی زمین کھسکنے کا واقعہ یاد ہے، جس میں انھوں نے ایک تباہ شدہ کار کو کئی سو میٹر نیچے گرا ہوا دیکھا تھا۔ لیکن مقامی لوگ بے فکری سے سرکتی ہوئی زمین پر چل رہے تھے۔
انھوں نے کہا: ’یہ آنکھیں کھول دینے والا منظر تھا۔۔۔ زندگی کتنی نازک ہے اور لوگ یہاں کتنے غیر محفوظ ہیں، یہ دیکھنا حیران کن تھا۔‘
اس بے چین زمین کے بیچ عطا آباد جھیل ایک ایسی خوبصورتی کی مثال ہے جو تباہی سے جنم لیتی ہے، اور فطرت کی طاقت و انجام کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
جب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا ایک حصہ سیل: غیر ملکی وی لاگر کی وائرل ویڈیو اور آلودہ پانی کا معاملہدریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘خواتین کی تنہا سیاحت میں ٹور کمپنیوں کا کردار: ’پہلے والدین اکیلے کیا، دوستوں کے ساتھ بھی شمالی علاقوں کو نہیں جانے دیتے تھے‘ایسی جھیل جسے نہیں ہونا تھا
چار جنوری سنہ 2010 کو ایک شدید لینڈ سلائیڈ نے ہنزہ دریا کا بہاؤ پانچ مہینوں کے لیے روک دیا۔ ناسا کے مطابق جنوری کے آخر تک پانی کی سطح روزانہ 1.1 میٹر بلند ہو رہی تھی۔
ارتھ اینڈ سپیس سائنس بلاگز پر صارفین اس تباہ کن واقعے کو ایک خاص حیرت و استعجاب کے ساتھ دیکھ اور بیان کر رہے تھے کہ کس طرح ایک ایسا عمل جو عام طور پر زمینی تاریخ میں ہزاروں سال لیتا ہے، ایک انسانی زندگی میں رو نما ہو رہا تھا۔ یہ پھٹنے سے جنم لے کر لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔
جون تک یہ نئی جھیل 21 کلومیٹر لمبی اور 100 میٹر سے زیادہ گہری ہو چکی تھی، جس نے ششکت نامی گاؤں کو نگل لیا اور گلگت کے علاقے گلمت کو جزوی طور پر زیرِ آب کر دیا۔ اس میں 20 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 6,000 لوگ بے گھر ہو گئے اور قراقرم ہائی وے کا 25 کلومیٹر طویل حصہ چھ پلوں سمیت تباہ ہو گیا۔
پھر سنہ 2012 میں دھماکوں کے ذریعے جھیل کی سطح کو 10 میٹر کم کیا گیا، اور 275 ملین ڈالر کے منصوبے سے قراقرم ہائی وے کا نیا راستہ بنایا گیا، جس میں پانچ سرنگیں شامل کی گئیں تاکہ سڑک کو چین کے سنکیانگ صوبے سے دوبارہ جوڑا جا سکے اور علاقے تک رسائی بہتر بنائی جا سکے۔
آج عطا آباد جھیل ’مسٹ وزٹ پلیس‘ یعنی قابل دید مقام بن چکی ہے، جو اپنے نیلے شفاف پانی اور سنگلاخ پہاڑی پس منظر کی وجہ سے مشہور ہے۔
پاکستان کی اولین تنہا خاتون سیاحوں میں سے ایک میسا تالپور کا کہنا ہے کہ یہاں کا ماضی اب بھی جھیل کے نیچے موجود ہے، یعنی ڈوبے ہوئے باغات اور چھتوں کے آثار وقت میں منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔
بی بی سی کی سنہ 2025 کی بہترین 25 سیاحتی مقامات کی فہرست میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے۔ اس فہرست میں ایسے مقامات شامل ہیں جو نہ صرف سیاحوں کا خیر مقدم کر رہے ہیں بلکہ سیاحت کو بھلائی کی قوت کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ پوری فہرست یہاں دیکھیں۔Getty Imagesبلتت کا قلعہ بھی سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتا ہےمقامی افراد کے لیے ایک نئی امید
اپنی مہلک اور افسوسناک ابتدا کے باوجود یہ جھیل مقامی لوگوں کے لیے ایک نادر معاشی موقع بن چکی ہے۔ مِسا تالپور کہتی ہیں کہ ’عطا آباد جھیل کی تمام سہولیات ان ششکت کے مقامی خاندانوں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں جنھیں لینڈ سلائیڈ سے براہ راست نقصان پہنچا تھا۔‘ میسا اب ایک لائسنس یافتہ ٹور مینیجر ہیں۔
جھیل کے آس پاس درجنوں کھانے کے سٹالز، دستکاری کی دکانیں اور کشتی رانی کی سہولیات قائم ہو چکی ہیں، جو متاثرہ خاندانوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ بڑے ہوٹل مقامی خاندانوں سے زمین کرائے پر لیتے ہیں، جس سے مزید آمدن پیدا ہوتی ہے۔
آغا خان ایجنسی برائے ہیبی ٹیٹ (اے کے اے ایچ) میں تربیتی افسر ثانیہ ملک بتاتی ہیں کہ خواتین کے کاروبار کا ایک مضبوط نظام موجود ہے جو دستکاری اور کھانے کی اشیاء فروخت کرتی ہیں اور یہ برادری پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر ابھر رہی ہے۔
ششکت گاؤں جس کی آبادی صرف 3,000 ہے وہاں حال ہی میں ثانیہ ملک نے 75 مقامی افراد کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت دی ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’ہم بنیادی طور پر کوشش کرتے ہیں کہ خواتین کو پہلا رسپانڈر بننے کے لیے بااختیار بنایا جائے کیونکہ وہی گھریلو سطح پر سب کچھ سنبھال رہی ہوتی ہیں۔‘
مِسا سیاحتی موسم جون سے ستمبر کے دوران کم از کم پانچ سے چھ گروپوں کو عطا آباد جھیل لے جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مقامی سیاحوں کو کشتی رانی، جیٹ سکی اور زپ لائننگ بہت پسند ہے۔
وہ جھیل کے کنارے بنے راستے پر چہل قدمی کرتے ہیں اور جھیل کے کنارے چائے کے ڈھابوں پر مقامی کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
تاہم مسا تالپور بَسکوچی میڈوز تک ہائیکنگ کی تجویز دیتی ہیں تاکہ سب سے شاندار نظاروں کا لطف اٹھایا جا سکے۔
Getty Imagesعطا آباد جھیل کا ایک منظر
مِسا کہتی ہیں: ’وہاں سے طائرانہ نگاہ ڈالیں تو پورا منظر دکھائی دیتا ہے، خاص طور پر سورج غروب ہونے کے وقت، جب پہاڑ سنہری روشنی میں دمکنے لگتے ہیں۔ یہ تصویر کشی کے لیے ایک لاجواب لمحہ ہوتا ہے۔ گرمیوں میں جھیل کے کنارے اکثر بون فائر نائٹس اور موسیقی کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔‘
بہت سے سیاح تاریخی حسینی معلق پُل اور پاسو کونز کی بلند و بالا نوکیلی چٹانوں کو بھی دیکھنے جاتے ہیں، جو جھیل سے صرف 30 منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہیں۔ عطا آباد جھیل کا مرکزی مقام ہونے کی وجہ سے سیاح ہاپر گلیشیئر بھی دیکھ سکتے ہیں، جو وہاں سے تقریباً ڈھائی گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے۔
سیاہ برف اور چاروں طرف پہاڑوں کے ساتھ یہ گلگت بلتستان کے بدلتے مناظر کی ایک اور ڈرامائی مثال ہے۔ اس کے علاوہ، کئی لوگ قدیم التت اور بلتت قلعوں کا دن بھر کا دورہ بھی کرتے ہیں تاکہ اس خطے کے شاہی ماضی کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔ یہ قلعے بالترتیب 900 اور 700 سال پرانے شاہی طرزِ تعمیر کے نمونے ہیں۔
ایک غیر یقینی مستقبل
پروفیسر سرل کہتے ہیں: ’مگر اس مقبول سیاحتی مقام کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ لینڈ سلائیڈ کا ملبہ کتنا مضبوطی سے جما ہوا ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر کسی بڑے زلزلے جیسے واقعے سے کوئی شگاف پڑ گیا تو یہ جھیل مکمل طور پر خالی ہو سکتی ہے اور گلگت سمیت نیچے کے تمام علاقوں میں تباہ کن سیلابی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مٹی کی تہوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ جھیل سکڑ رہی ہے۔‘
Getty Imagesہنزہ جانے والے مقامی سیاحوں کے لیے جھیل کے علاوہ بھی دلکش مقامات ہیں
حفاظتی ہدایات
ایس سی او (سپیشل کمیونیکیشنز آرگنائزیشن) کا سیلولر سم حاصل کریں کیونکہ اس علاقے میں انٹرنیٹ کا نظام غیر مستحکم ہے۔ یہ سم گلگت یا اسلام آباد میں شناختی کارڈ دکھا کر حاصل کی جا سکتی ہیں۔تہہ دار لباس پہنیں اور سورج سے بچاؤ کا بندوبست رکھیں۔ جھیل میں تیرنا عام طور پر ممنوع ہے کیونکہ یہاں کا پانی انتہائی برفیلا اور نہایت سرد ہوتا ہے۔رات کے وقت سفر سے گریز کریں کیونکہ سڑکیں پیچیدہ ہیں، نیچے گہری کھائیاں ہیں اور لینڈ سلائیڈ کا خطرہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔برطانوی دفتر خارجہ کی رہنمائی کے مطابق، ذاتی تحفظ کے مناسب انتظامات ضروری ہیں۔ 6,000 میٹر سے بلند پہاڑوں پر چڑھائی یا ٹریکنگ کے لیے اجازت نامہ درکار ہو سکتا ہے۔
عطا آباد جھیل جتنی عارضی ہو سکتی ہے، اس کا تاثر اتنا ہی دیرپا ہے۔ جھیل کے اوپر چراگاہوں میں وِنزلو-لیویلن اور ہبارڈ ایک خاندان سے ملے اور تازہ خوبانیاں خریدنے کی خواہش ظاہر کی، مگر انھیں اندر بلایا گیا۔
چائے اور روٹی کے ساتھ بات چیت کے دوران ایک کم عمر بھتیجے نے بتایا کہ اس کے دو بہن بھائی اس لینڈ سلائیڈ میں فوت ہو گئے تھے۔
وِنزلو-لیویلن نے کہا کہ ’ان کی مہمان نوازی اور مسکراہٹیں دل کو چھو لینے والی تھیں۔ جب آپ ان لوگوں سے براہِ راست ملتے ہیں جو آفت سے متاثر ہوئے ہوں تو سب کچھ زیادہ حقیقی محسوس ہوتا ہے۔‘
اور وہاں کے مناظر کے ساتھ ساتھ یہ لوگ بھی آپ کی یادوں کے ساتھ رہ جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان نے ہمیں صرف برف پوش پہاڑوں اور دل موہ لینے والی جھیلوں سے متاثر نہیں کیا بلکہ یہاں کے لوگ ہماری زندگی میں ملنے والے سب سے مخلص، مہمان نواز اور دوست نواز لوگ تھے۔‘
ایک ایسی جھیل جس کا 15 سال قبل تصور نہیں کیا جا سکتا تھا اب اس کے بغیر ہنزہ کا سفر اس کے بغیر ادھورا لگتا ہے۔ مسا تالپور کے لیے عطا آباد جھیل اس بات کا ثبوت ہے کہ خزاں میں بھی بہار ہو سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’ہم اکثر سمجھتے ہیں کہ کوئی سانحہ اختتام ہے لیکن جب کوئی چیز ٹوٹ کر دوبارہ بنتی ہے، تو وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔‘
خواتین کی تنہا سیاحت میں ٹور کمپنیوں کا کردار: ’پہلے والدین اکیلے کیا، دوستوں کے ساتھ بھی شمالی علاقوں کو نہیں جانے دیتے تھے‘2025 میں سیر و تفریح کے لیے گلگت بلتستان سمیت دنیا کے 25 بہترین مقاماتپہلگام حملے کے بعد کشمیر سے روٹھے سیاح: ’نقصان کا حساب لگانے بیٹھیں تو ہارٹ اٹیک آ جائے گا‘جب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘’لندن روڈ‘: یورپی سیاحوں کے لیے پاکستان کا دروازہ سمجھی جانے والی سڑک جو ’ڈنکی روٹ‘ بن گئیخواتین میں اکیلے سفر کرنے کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟