کراچی: لیاری میں منہدم عمارت کا آپریشن مکمل، 27 لاشیں نکال لی گئیں

اردو نیوز  |  Jul 07, 2025

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں پانچ منزلہ عمارت کے منہدم ہونے کے بعد تین دن تک جاری رہنے والا ریسکیو آپریشن آج مکمل ہو گیا ہے۔

حکام نے پیر کو بتایا کہ منہدم ہونے والی عمارت سے 27 لاشیں نکال لی گئی ہیں۔

اعلیٰ سرکاری اہلکار جاوید نبی کھوسو نے اے ایف پی کو بتایا کہ ملبے تلے دبی تمام لاشیں نکال لی گئی ہیں، اس لیے سرچ آپریشن مکمل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اموات کی کل تعداد 27 ہے۔‘

حکام نے بتایا کہ عمارت کو غیرمحفوظ قرار دیا گیا تھا اور 2022 اور 2024 کے درمیان مکینوں کو نوٹس بھی بھیجے گئے تھے، لیکن رہائشیوں کے مطابق انہیں یہ نوٹس موصول نہیں ہوئے۔

اقلیتی برادری کے ایک کارکن سندیپ مہیشوری کے مطابق متاثرین میں سے 20 ہندو تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ زیادہ تر خاندان بہت غریب ہیں۔‘

دوسری جانب صوبہ سندھ کے وزرا ضیا لنجار اور سعید غنی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیئر وزیر شرجیل میمن نے کہا کہ تحقیقات کرنے والی فیکٹ فائنڈگ کمیٹی کی رپورٹ دو دن میں آئے گی۔

کراچی میں 51 انتہائی خطرناک عمارتوں کا سروے ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شرجیل میمن نے کہا کہ آج سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی سرکاری افسر کی کوتاہی سامنے آئی تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

صوبائی حکومت نے ہلاک افراد کے اہل خانہ کے لیے 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔

صوبائی وزیرِ بلدیات سعید غنی نے کہا کہ کمشنر کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ 51 انتہائی خطرناک عمارتوں کا سروے مکمل کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد ڈائریکٹر لیول کے افسران کو معطل کیا گیا اور اب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ان افسران کو معطل کیا گیا جو اس وقت علاقے میں تعینات ہیں۔

چار جولائی کو پانچ منزلہ عمارت اچانک زمین بوس ہو گئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)سعید غنی کا مزید کہنا تھا کہ کمشنر کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی ہے کہ 588 خطرناک عمارتوں کی تفصیل فراہم کریں تاکہ فیصلہ کیا جائے کہ کون سی عمارتیں فوری طور پر گرانے اور کون سی مرمت کے قابل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غفلت کے مرتکب تمام افسران کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگی۔

’2022 میں عمارت کو مخدوش قرار دیے جانے کے وقت جو افسران تعینات تھے، ان کا تعین کیا جا رہا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More