ٹرمپ کا ’بِگ بیوٹی فل بجٹ‘ اور 370 کھرب ڈالر امریکی قرض: کیا عالمی کرنسی خطرے میں پڑ سکتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 05, 2025

Getty Imagesڈالر کا متبادل فی الحال نظر نہیں آتا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’بگ بیوٹیفل بجٹ‘ بل کی کانگریس میں منظوری پر خوشی ظاہر کی ہے۔ لیکن عالمی قرضوں پر انحصار کی امریکی پالیسی کتنی پائیدار ہو گی، یہ بحث ایک بار پھر سر اٹھانے لگی ہے۔

ٹیکس میں کمی اور اخراجات میں اضافے والے اس بجٹ بل کا مطلب ہے کہ 370 کھرب ڈالر کے مقروض امریکہ کے قرضے میں مزید 30 کھرب ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا۔

ٹرمپ کے اس منصوبے کے ناقدین کی کمی نہیں اور ان میں ٹرمپ کے سابق حلیف ایلون مسک بھی شامل ہیں جنھوں نے اسے ’قابل نفرت قانون‘ قرار دیا ہے۔

امریکہ پر یہ بڑھتا ہوا قرضہ بعض افراد کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا دنیا واقعی اتنا زیادہ قرض امریکہ کو دیتی رہے گی؟

یہ خدشات حال ہی میں ڈالر کی گرتی ہوئی قدر اور امریکی قرضے پر سود کی شرح میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔

امریکہ کو ہر سال اپنی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق پورا کرنے کے لیے یہ رقم قرض لینی پڑتی ہے۔

رواں سال کے آغاز سے اب تک ڈالر کی قدر پاؤنڈ کے مقابلے میں 10 فیصد اور یورو کے مقابلے میں 15 فیصد کم ہو چکی ہے۔

اگرچہ مجموعی طور پر امریکہ کی قرض لینے کی قیمت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہ مستحکم رہی ہے لیکن طویل مدتی اور قلیل مدتی قرضوں پر سود کی شرح کے فرق یعنی ’ییلڈ کرو‘ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ طویل المدتی امریکی قرضوں کی پائیداری پر بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات کا اشارہ ہے۔

یہ سب اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ امریکہ نے یورپی یونین اور برطانیہ کے مقابلے میں سود کی شرحوں میں کمی نسبتاً سست رفتاری سے کی ہے، جو عام حالات میں ڈالر کو مضبوط بناتی ہے کیونکہ بینک ڈپازٹس پر بہتر منافع ملتا ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے ہیج فنڈ (یعنی نقصان کی تلافی کرنے والے فنڈ) کے بانی رے ڈیلیو کا خیال ہے کہ امریکی قرضے ایک نازک موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔

ان کا اندازہ ہے کہ اگر موجودہ روش جاری رہی تو امریکہ کو جلد ہی ہر سال کھربوں ڈالر صرف قرض اور سود کی ادائیگی میں خرچ کرنا ہو گا۔

وہ کہتے ہیں: ’مجھے یقین ہے کہ حکومت کی مالی حالت ایک اہم موڑ پر ہے کیونکہ اگر اب اس کا حل نہ نکالا گیا تو قرضے اتنے بڑھ جائیں گے کہ انھیں سنبھالنا انتہائی تکلیف دہ ہو جائے گا۔‘

تو یہ ’تکلیف دہ‘ صورت حال کیسی ہوگی؟

پہلا آپشن تو یہ ہے کہ حکومتی اخراجات میں شدید کمی کی جائے یا ٹیکسوں میں بھاری اضافہ کیا جائے یا پھر دونوں کو ساتھ ساتھ کیا جائے۔

رے ڈیلیو کا مشورہ ہے کہ بجٹ خسارے کو موجودہ چھ فیصد سے کم کر کے جلد از جلد تین فیصد تک لایا جائے تاکہ مستقبل میں بحران سے بچا جا سکے۔

ٹرمپ کے نئے بجٹ بل نے کچھ اخراجات میں کٹوتی ضرور کی ہے، مگر ٹیکس میں اس سے زیادہ کمی کی گئی ہے۔ لہٰذا موجودہ سیاسی سمت اس کے برعکس جا رہی ہے۔

ڈالر کو ایک کمزور کرنسی بنانے کا منصوبہ: کیا ٹرمپ امریکی کرنسی کی قدر میں گراوٹ لانا چاہتے ہیں؟بجٹ میں عام آدمی کے لیے ریلیف یا اضافی بوجھ؟ پانچ اہم نکاتامریکی بانڈ مارکیٹ میں ڈرامائی اُتار چڑھاؤ: وہ چیز جو ٹرمپ کو ٹیرف واپس لینے پر مجبور کر سکتی ہےنئی تجارتی جنگ کا خدشہ: ٹرمپ کی جانب سے درآمدات پر عائد ٹیکس امریکہ کی معیشت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟

دوسرا آپشن یہ ہے کہ ماضی کے بحرانوں کی طرح امریکی سینٹرل بینک مزید رقم چھاپے اور اس سے حکومتی قرضے کی ادائیگی کرے، جیسا کہ 2008 کے مالیاتی بحران کے بعد ہوا۔

لیکن اس کا نتیجہ مہنگائی اور معاشی عدم مساوات کی صورت میں سامنے آئے گا کیونکہ ایسے میں گھروں اور شیئرز جیسے اثاثوں کے مالکان کو فائدہ ہوگا جبکہ مزدور طبقہ پیچھے رہ جائے گا۔

تیسرا راستہ سیدھا سادہ امریکی ڈیفالٹ ہے، یعنی ہم قرض واپس نہیں کر سکتے یا ہم قرض واپس نہیں دیں گے۔ چونکہ ’امریکی خزانے کی مکمل ساکھ اور اعتبار' عالمی مالیاتی نظام کی بنیاد ہے، اس لیے اس قسم کا ڈیفالٹ بڑے مالی بحران کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔

Getty Imagesامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار کیا ہے'سب سے صاف گندی شرٹ'

تو اس کا کتنا امکان ہے؟ فی الحال خوش قسمتی سے بہت کم۔

لیکن یہ نہ ہونے کی وجہ زیادہ تسلی بخش نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے پاس ڈالر کا کوئی واضح متبادل نہیں ہے۔

معروف معیشت دان اور بانڈز کے سابق ماہر محمد العریان نے بی بی سی کو بتایا کہ بہت سے ممالک ڈالر سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق ’ڈالر بوجھ بن گیا ہے اور دنیا کو اس کا علم ہے، اسی لیے سونے کی قیمت، یورو اور پاؤنڈ کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن بڑے پیمانے پر تبدیلی مشکل ہے اس لیے کہ متبادل بہت کم ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ڈالر بالکل اس کرتے (شرٹ) کی طرح ہے جو باقیوں کے مقابلے میں سب سے صاف ہے، اس لیے اسے ہی پہننا پڑتا ہے۔‘

پھر بھی، ڈالر اور امریکی حکومتی بانڈز جو دنیا کے بنیادی مالیاتی اثاثہ سمجھے جاتے ہیں، ان کا مستقبل اعلیٰ سطح پر زیرِ بحث ہے۔

بینک آف انگلینڈ کے گورنر نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا کہ امریکی قرضوں کی سطح اور ڈالر کی حیثیت ’امریکی خزانے کے سیکریٹری بیسنٹ کے ذہن میں بہت نمایاں ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ڈالر فی الوقت کسی بنیادی خطرے سے دوچار ہے لیکن وہ ان مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور انھیں کم اہمیت نہیں دیتے۔‘

370 کھرب ڈالر کا قرضہ ناقابلِ تصور ہے۔ اگر آپ روزانہ ایک ملین ڈالر بچائیں تو آپ کو اتنی رقم جمع کرنے میں ایک لاکھ سال لگ جائیں گے۔

قرضے کو سمجھنے کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ اسے کسی ملک کی آمدنی کے تناسب سے دیکھا جائے۔ امریکی معیشت ہر سال تقریباً 250 کھرب ڈالر کی آمدنی پیدا کرتی ہے۔

اگرچہ امریکہ کا قرض آمدنی کے تناسب سے کئی ملکوں سے زیادہ ہے لیکن یہ جاپان یا اٹلی سے کم ہے، اور اس کے پیچھے دنیا کی سب سے جدید اور دولت پیدا کرنے والی معیشت کھڑی ہے۔

میرے گھر میں ولیم ایف ریکن بیکر کی تحریر کردہ کتاب ’ڈیتھ آف دی ڈالر‘ پڑی ہے جس میں انھوں نے ڈالر کی عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت کو لاحق خطرات سے خبردار کیا تھا۔

یہ کتاب سنہ 1968 میں لکھی گئی تھی۔ مسٹر ریکن بیکر آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ڈالر موجود ہے۔

مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈالر کی حیثیت اور قدر کو کوئی خدائی استحقاق حاصل ہے۔

نئی تجارتی جنگ کا خدشہ: ٹرمپ کی جانب سے درآمدات پر عائد ٹیکس امریکہ کی معیشت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟ڈالر کو ایک کمزور کرنسی بنانے کا منصوبہ: کیا ٹرمپ امریکی کرنسی کی قدر میں گراوٹ لانا چاہتے ہیں؟ڈونلڈ ٹرمپ: ’رنگین مزاج ارب پتی‘ شخصیت سے ’امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کی مہم‘ تکٹرمپ کی برکس ممالک کو ’دھمکی‘ لیکن کیا امریکی ڈالر کی جگہ کوئی اور کرنسی لے سکتی ہے؟امریکی بانڈ مارکیٹ میں ڈرامائی اُتار چڑھاؤ: وہ چیز جو ٹرمپ کو ٹیرف واپس لینے پر مجبور کر سکتی ہےٹرمپ کا ’حیران کُن یوٹرن‘: آئی فونز کو 125 فیصد اضافی ٹیرف سے مستثنیٰ کرنا تجارتی جنگ میں امریکہ کی پسپائی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More