روس کے طالبان کو تسلیم کرنے پر افغان عوام میں امید اور مایوسی کی ملی جلی کیفیت

اردو نیوز  |  Jul 05, 2025

روس کی جانب سے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد افغان عوام کی رائے منقسم دیکھی جا رہی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق کچھ افراد اس فیصلے کو معیشت کے استحکام اور بین الاقوامی تعلقات کے فروغ کے تناظر میں خوش آئند قرار دے رہے ہیں جبکہ دیگر اسے مستقبل کے لیے ایک خطرناک پیش رفت سمجھ رہے ہیں۔

روس اب طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہے جس نے جمعرات کو  یہ فیصلہ کیا۔ اس سے قبل فریقین کے درمیان تعلقات میں تدریجی انداز میں بہتری دیکھی گئی جن میں طالبان سے ’دہشت گرد تنظیم‘ کا لیبل ہٹانا اور روسی سفیر کو قبول کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

طالبان نے سہ 2021 میں غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار سنبھالا تھا لیکن تقریباً چار برس گزرنے کے باوجود کسی بھی ریاست نے انہیں باضابطہ تسلیم نہیں کیا تھا۔

افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ ملک اب بھی چار دہائیوں سے جاری تنازع کے بعد بحالی کے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں طالبان کو تسلیم کیے جانے کے اس فیصلے کو بعض شہری امید کی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

کابل کے 58 سالہ شہری گل محمد نے کہا کہ ’افغانستان کی موجودہ حالات میں ہر کوئی پریشان ہے۔ اگر دنیا افغانستان کو تسلیم کر لیتی ہے تو ہم خوش ہوں گے۔ فی الحال ہمارے لیے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی کم اہم نہیں۔‘

عالمی برادری کے ہاں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ افغانستان شدت پسند گروپوں کی محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)گل محمد سنہ 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کی تلخ یادوں کو نہیں بھولے جب وہ ’سب کچھ لُٹا کر‘ پاکستان میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’اب ترجیحات مختلف ہیں۔‘

67 سالہ جمال الدین سیار ایک ریٹائرڈ پائلٹ ہیں۔ انہوں نے روس کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ’تجارت اور معاشی خوشحالی کی راہیں اب کھلیں گی۔‘

ان کے مطابق دپگر ممالک (مغربی اور مشرقی دونوں) کو بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے اور ’اسلامی امارت کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانا بند کرنا چاہیے۔‘

روسی اور افغان حکام نے اس فیصلے کو اقتصادی اور سکیورٹی کے میدانوں میں تعاون کے آغاز کے طور پر سراہا ہے۔ تاہم سکیورٹی ایک ایسا پہلو ہے جو طالبان حکام اور عالمی برادری کے مابین مسلسل تشویش کا باعث رہا ہے۔

عالمی برادری کے ہاں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ افغانستان شدت پسند گروپوں کی محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے۔

تاہم طالبان حکام بارہا یقین دہانیاں کرا چکے ہیں کہ افغان سرزمین کو کسی بھی گروپ کے ذریعے دوسرے ممالک پر حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اس کے باوجود طالبان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تناؤ برقرار ہے۔ اس کی وجہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان پر ان کی سرزمین سے شدت پسند حملوں میں اضافہ ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ برس ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال پر داعش کی افغانستان کئ ذیلی گروہپ کے حملے میں 137 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس نے خطے میں سکیورٹی خدشات کو مزید بڑھا دیا۔

کابل میں جہاں اختلاف رائے اور احتجاج کو سختی سے دبایا جاتا ہے، کچھ شہری طالبان حکومت پر کھل کر تنقید کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تاہم کچھ نوجوان اب بھی اس فیصلے پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

افغان خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن روس کے اس فیصلے کو ایک دھچکے کے طور پر دیکھ رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)25 سالہ بے روزگار نوجوان عاطف (جو اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے) نے کہا کہ ’میرے خیال میں افغانستان ایک بار پھر روسیوں کے جال میں پھنس جائے گا۔ مسائل اور چیلنجز بڑھیں گے اور ایسی کوئی چیز نہیں جو عام لوگوں کی مدد کر سکے۔’

 انہوں نے مزید کہا کہ ’لوگ جدوجہد کر رہے ہیں اور وہ اب بھی تسلیم کیے جانے باوجود یا اس کے بغیر بھی جدوجہد کریں گے۔‘

دوسری جانب افغان خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن روس کے اس فیصلے کو ایک دھچکے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ خاص طور پر وہ افراد جنہوں نے طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے لیے مہم چلائی ہے۔

ان کے نزدیک طالبان حکومت کو تسلم کرنے سے خواتین پر عائد پابندیوں کو ’جائز‘ قرار دینے کا تأثر ملتا ہے۔

ناروے میں مقیم خواتین کے حقوق کی کارکن ہودا خاموش نے روس کے اس اقدام کی مخالفت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انسانی حقوق کی تنظیمیں اس وقت افغانستان میں صنفی امتیاز کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ طالبان خواتین کے خلاف ایک جابرانہ حکومت ہے۔ لہٰذا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے کچھ بھی فرق نہیں پڑے گا۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More