Getty Imagesسیٹھ ہرچند رائے صرف 26 برس کی عمر میں کراچی میونسپلٹی کے رُکن منتخب ہوئے تھے
20ویں صدی کی ابتدا میں کراچی کی کچی سڑکیں کہاں اشارہ دیتی تھیں کہ مچھیروں کی یہ خاموش بستی یوں بدلے گی۔ مگر یہی خواب لیے، ہرچند رائے وِشنداس سنہ 1911 میں کراچی میونسپلٹی کے صدر بنے تھے اور اگلی ایک ہی دہائی میں اس شہر میں بجلی آ چکی تھی اور نکاسی آب کے جدید نظام، اور پکی سڑکوں کے ساتھ کراچی ’روشنیوں کا شہر‘ بن چکا تھا۔
یکم مئی 1862 کو سندھ کی تحصیل کوٹری کے گاؤں منجھو میں پیدا ہونے والے ہرچند رائے نے بمبئی کے ایلفنسٹن کالج سے سنہ 1882 میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔
بی بی سی اردو کے فیچرز اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر بی بی سی اُردو کے واٹس ایپ چینل پر پڑھیے
30 مئی 2011 کو روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ایک خط میں ڈاکٹر عارفہ فرید (سابق ڈین جامعہ کراچی) نے لکھا ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے وکالت کا آغاز کراچی میں ’ہرچند رائے اینڈ کمپنی‘ نامی قانونی فرم سے کیا۔
وہ لکھتی ہیں کہ جناح نے 1898 میں انگلستان سے واپسی پر کراچی میں ہرچند رائے کی فرم میں شمولیت اختیار کی، جہاں ان کے دستخط بعض پرانے لیجرز پر بھی پائے گئے تھے، اگرچہ یہ ثبوت بعد میں ضائع ہو گئے۔ عارفہ فرید کے والد ایڈووکیٹ عبدالحمید فرید نے یہ دفتر تقسیمِ ہند کے بعد سنبھالا اور پرانے مؤکلین سے بھی یہی سُنا کہ جناح کچھ عرصے کے لیے اس دفتر سے وابستہ رہے تھے۔
ہرچند رائے کو جدید کراچی کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
خادم حسین سومروکی تحقیق ہے کہ سنہ 1888 میں سیٹھ ہرچند رائے صرف 26 برس کی عمر میں کراچی میونسپلٹی کے رُکن منتخب ہوئے۔ سنہ 1911 میں وہ میونسپلٹی کے صدر منتخب ہوئے اور اپنی بے لوث محنت سے کراچی کو ایک گاؤں سے ایک جدید شہر میں ڈھال دیا۔ کئی حوالوں سے انھیں جدید کراچی کا معمار کہا جا سکتا ہے۔
سومرو اپنی کتاب ’سیٹھ ہرچند رائے وِشنداس: دی فادر آف ماڈرن کراچی‘ میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے یورپ، بمبئی اور کلکتہ کا سفر کیا تاکہ شہروں کے قوانین اور منصوبہ بندی کے طریقے سیکھے جا سکیں۔ انھوں نے یہ تجربہ کراچی پر لاگو کیا اور اسے دنیا کے صاف ترین شہروں میں شمار کروایا۔
’شہر کی گلیاں، جو کبھی کچی پگڈنڈیاں تھیں، خوبصورت سڑکوں میں بدل گئیں۔‘
’پرانے شہر، مچھی میانی اور رنچھوڑ لائن جیسے گنجان علاقوں کو ترجیح دی گئی۔ تنگ اور بدصورت گلیوں کو چوڑا اور سیدھا کیا گیا اور اس مقصد کے لیے درکار زمین مالکان سے خریدی گئی۔‘
’بندر روڈ، میکلوڈ روڈ اور دیگر اہم شاہراہوں پر فٹ پاتھ بنائے گئے۔ ایلفنسٹن سٹریٹ، جسے بعد میں شہر کی بہترین سڑک مانا گیا، ابتدا میں بغیر فٹ پاتھ کے تھی اور اس کے کنارے ناہموار تھے۔ یہ سڑک نئے سرے سے بنائی گئی۔ کلفٹن روڈ، لارنس روڈ اور کئی دیگر سڑکیں بھی چوڑی کی گئیں۔ منگھوپیر روڈ جیسی نئی شاہراہ بھی تعمیر کی گئی، جس سے شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا۔‘
Getty Imagesکراچی کے علاقے صدر کی 1900 کے اوائل میں بنائی گئی تصویر
کراچی میں بجلی سنہ 1913 میں ہرچند رائے کے دور میں متعارف کرائی گئی، جس کے باعث شہر کو ’روشنیوں کا شہر‘ کہا جانے لگا۔ اگرچہ برقی بلب امریکہ میں ایجاد ہوا تھا مگر وہاں بجلی 1920 تک عام نہیں ہوئی تھی، جبکہ کراچی اس سے کئی برس پہلے ہی روشن ہو چکا تھا۔
سومرو کے مطابق محصولات کے پیچیدہ نظام کو سادہ اور مؤثر بنایا گیا، جس کے نتیجے میں میونسپلٹی کی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا۔ مزید وسائل پیدا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً دیگر اقدامات بھی کیے گئے، جن کے نتائج نہایت شاندار رہے۔
ان کے مطابق ’جب ہرچند رائے نے میونسپلٹی کی باگ ڈور سنبھالی، تو اس کے پاس 2,219,159روپے تھے، جبکہ1,098,000 روپے کا قرض واجب الادا تھا۔ دس سال بعد، جب ان[وں نے صدارت چھوڑی، میونسپلٹی کے پاس 3,413,589 روپے تھے اور قرض صرف ایک لاکھ 20 ہزار روپے بڑھا تھا۔ اس کے علاوہ، ریزرو فنڈ میں بھی تین لاکھ روپے کا اضافہ ہو چکا تھا۔‘
’میونسپل ملازمین کو خوش رکھنے اور ان سے لگن و دیانتداری سے کام لینے کے لیے ان کے جائز مطالبات تسلیم کیے گئے اور تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا۔ ملازمت کے ضوابط کو معقول بنایا گیا اور قابل، تجربہ کار اور معقول تنخواہ پر نگران عملے کی بھرتی کا بندوبست کیا گیا۔‘
زاہدہ حنا اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں کہ برطانوی حکومت نے شہر میں بلدیاتی حکومت قائم کی تھی۔ سیٹھ ہرچند رائے وشنداس نے حفظان صحت اور صفائی ستھرائی میں بہتری کے کام کے علاوہ شہرکا اہم انفرا سٹرکچر بھی تعمیر کیا۔
’ہرچند رائے کی صدارت کے دوران میں بندر روڈ پر نئی میونسپلٹی عمارت کی تعمیر کا آغاز ہوا، لیکن پہلی عالمی جنگ کے باعث یہ کام روک دیا گیا۔ بالآخر یہ عمارت 7 جنوری 1932 کو اس وقت کے صدر بلدیہ، جمشید نوشیروان جی نے مکمل کی۔
’افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نئی میونسپلٹی عمارت کا تصور سیٹھ ہرچند رائے جیسے باصلاحیت اور وطن سے محبت کرنے والے شخص کا تھا۔ اس منصوبے کے لیے دنیا بھر کے انجینیئرز سے مشاورت کی گئی اور کئی ڈیزائن پیش کیے گئے، جن میں سے بہترین منصوبہ ہرچند رائے نے خود منتخب کیا۔‘
اختر بلوچ اپنی کتاب ’کرانچی والا‘ میں مؤرخ گل حسن کلمتی اپنی سندھی کتاب ’کراچی جا لافانی کردار‘ (کراچی کے لافانی کردار) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہرچند رائے نے شہر کراچی میں مختلف برادریوں کے زیر انتظام کام کرنے والے سماجی اداروں کی بھی دل کھول کر مدد کی۔ ان اداروں کو میونسپلٹی کی جانب سے مفت پلاٹ دیے گئے تاکہ وہ بہتر طریقے سے کام کر سکیں۔
کراچی میں سنہ 1896 سے 1897 کے عرصے میں جب طاعون کی وبا پھیلی تو اس وقت ہرچند رائے میونسپلٹی میں کونسلر تھے۔
ماضی کی ’ایلفی‘، آج کی ’زیب النسا‘: کراچی کی ایک پرانی مگر مشہور مارکیٹ کی دلچسپ داستانکراچی کے قحبہ خانے اور کوٹھے کیسے اجڑے؟’لاہور کا سلطان‘: وہ ٹھیکے دار جنھوں نے ’چھوٹی اینٹ کی ہوس‘ میں مساجد تک منہدم کیںکراچی کی قدیم پارسی کالونی جہاں اب ویرانیوں کے ڈیرے ہیں
بلوچ کے مطابق ’وبا سے نمٹنے کے لیے انھوں نے ایک عارضی ہسپتال قائم کیا۔ ہرچند رائے نے پوری ٹیم کے ساتھ مل کر دن رات محنت کی۔ اس دوران خالی گھر وں میں کچھ افراد نے لوٹ مار کی تو فوج اور پولیس کے ساتھ مل کر ہر چند رائے نے ان گھروں کی حفاظت کے لیے نوجوانوں کے جتھے مقرّر کیے۔‘
’(صدارت کے دوران میں) انھوں نے لیاری ندی کا رُخ تبدیل کر کے کراچی والوں کو ایک بڑی مصیبت سے چھٹکارا دلایا۔‘
موتی رام سترام داس اس بارے میں اپنی کتاب ’رتن جوت‘ میں لکھتے ہیں کہ ’لیاری ندی شہر کے درمیان میں بہتی تھی اور پانی کے تیز بہاؤ کے سبب شہریوں کے لیے مصیبت اور آزار کا سبب بنتی تھی۔ پانی اترنے کے بعد مچھروں کی بہتات ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے ملیریا کا بخار پھیل جاتا تھا۔‘
’اس مسئلے سے نپٹنے کے لیے سیٹھ ہر چند رائے نے انجینیئروں سے مشورے کے بعد ایک کارگر منصوبہ تیار کروایا۔ لیاری ندی گاندھی باغ (کراچی چڑیا گھر) کے قریب دھوبی گھاٹ پر بند باندھا گیا اور پانی کے بہاؤ کا رُخ تبدیل کیا گیا۔‘
’اس کے نتیجے میں مزید زمین میسر ہوئی اور اور ایک نئی آبادی وجود میں آئی۔‘
سومرو کے مطابق سیٹھ ہرچند رائے نے کراچی میں پرائمری تعلیم کو تمام بچوں کے لیے لازمی قرار دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
’انھوں نے کتب خانوں اور مطالعہ گاہوں کو فروغ دیا، خالق دینا لائبریری اور کئی دیگر ریڈنگ رومز کے تاحیات رکن رہے۔ مختصراً، وہ ہر جگہ، ہر وقت تعلیم کے فروغ کے لیے سرگرم رہے، کیونکہ وہ واقعی سمجھتے تھے کہ خواندگی قومی ترقی کی کنجی ہے۔‘
پہلی عالمی جنگ کے دوران میں جب کراچی میں فلو (انفلوئنزا) کی ایک خطرناک وبا پھیلی، جو آج کے دور کی وبا کووڈ سے مشابہت رکھتی تھی، تب ہرچند رائے کراچی میونسپلٹی کے صدر تھے۔ انھوں نے اس آفت سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ ان کی زیرِ نگرانی میونسپلٹی نے موبائل ڈسپنسریوں کا آغاز کیا، جن سے مریضوں کو اُن کے گھروں میں علاج کی سہولت فراہم کی گئی۔
وہ کراچی کلب کے بانی اراکین میں شامل تھے، جو جلد ہی تعلیم یافتہ اور خوشحال خاندانوں میں بے حد مقبول ہوا۔ اسی طرح وہ کراچی سندھی جِم خانہ کے بانیوں میں شامل تھے اور کچھ عرصہ اس کے صدر بھی رہے۔ ہندو جم خانہ کے قیام میں بھی ان کا اہم کردار تھا، اور وقتاً فوقتاً وہ اس کی معاونت کرتے رہے۔
سومرو لکھتے ہیں کہ ہرچند رائے سنہ1921 میں ہندوستانی قانون ساز کونسل کے غیر مسلم سندھ نشست سے رکن منتخب ہوئے۔
اس کے نتیجے میں انھیں دِلی میں طویل قیام کرنا پڑا، جس کے باعث انھوں نے رضاکارانہ طور پر کراچی میونسپلٹی کی صدارت سے استعفا دے دیا۔
ایک اخبار ’دی ڈیلی گزٹ‘ نے لکھا کہ ’سیٹھ ہرچند رائے ایک قابل اور مؤثر صدر رہے ہیں۔ انھوں نے پچھلے دس برسوں میں میونسپلٹی کو اتنا وقت دیا کہ ان کی وکالت کی مشق متاثر ہوئی، مگر انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ انھوں نے بلدیاتی فرائض دیانتداری اور سچائی سے نبھائے اور ایک شاندار مثال قائم کی۔‘
بلوچ لکھتے ہیں کہ ہر چند رائے ایک آزاد خیال اور مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔
محمد عثمان دموہی نے اپنی کتاب ’کراچی تاریخ کے آئینے‘ میں لکھا ہے کہ ’جب سندھ کو بمبئی پزیڈینسی سے علیحدہ کرنے کی تحریک چلائی گئی تو کچھ ہندو اس تحریک کے سخت خلاف تھے۔ مگر ہرچندرائے نے اس تحریک میں دل و جان سے حصہ لیا تھا۔
’جب کراچی میں کٹر ہندوؤں نے شدھی تحریک چلائی تو انھوں نے کھل کر مخالفت کی۔ وہ سائمن کمشن کے بائیکاٹ میں بھی شریک رہے۔‘
مؤرخ اور محقق ڈاکٹر مبارک علی کے حوالے سے بلوچ لکھتے ہیں کہ ’کانگریس اور جناح صاحب کا مؤقف یہ تھا کہ چونکہ کمیشن میں کوئی بھی ہندوستانی شامل نہیں اس لیے یہ کمیشن ناقابل قبول ہے۔‘
’سائمن کمیشن کی آئینی منظوری کے لیے ہندوستانی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں وائسرائے نے تقریر کی۔ ہرچند رائے اس وقت خراب صحت کی بنا پر کراچی میں تھے۔
’اسمبلی میں کمیشن کے حوالے سے ووٹنگ ہونا تھی۔ ہرچند رائے نے اپنی خراب صحت کے باوجود اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔‘
Getty Images20ویں صدی کی ابتدا میں کراچی کی کچی سڑکیں کہاں اشارہ دیتی تھیں کہ مچھیروں کی یہ خاموش بستی یوں بدلے گی
موتی رام سترادم داس اپنی کتاب ’رتن جوت‘ میں لکھتے ہیں ’14 فروری کو وہ ٹرین لاہور میل کے ذریعے کراچی سے روانہ ہوئے۔ ٹرین جب (پنجاب میں) سماسٹا سٹیشن پہنچی تو شدید سردی کے سبب ان کی حالت بگڑنے لگی۔ وہ خون کی اُلٹیاں کرنے لگے۔ انھیں علاج کے لیے کہا گیا لیکن وہ دہلی جانے کے لیے بضد تھے۔
16 فروری کی صبح وہ دِلی پہنچے تو ان کی حالت بہت خراب تھی۔
’انھیں ٹرین سے کرسی پر بٹھا کر موٹر میں سوار کرایا گیا اور ہسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ بضد تھے کہ اسمبلی جا کر ووٹ دیں گے۔
’اسمبلی کی جانب آتے ہوئے ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ بالآخر وہ اسمبلی کے گیٹ پر جان کی بازی ہار گئے۔‘
’ان کی آخری رسوم میں پنڈت مدن موھن مالویا، پنڈت موتی لال نہرو، وٹھل بائی پٹیل سمیت بے شمار نامور شخصیات شریک ہوئیں۔ ان کا اگنی سنسکار جمنا ندی کے کنارے پر کیا گیا۔‘
دانش ور اشفاق سلیم مرزا نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں کہا تھا کہ برصغیر میں آزادی سے قبل بعض وکلا ایسی غیر معمولی شخصیات نظر آتی ہیں، جنھوں نے آزادی کی جدوجہد کو نہ صرف اپنایا بلکہ اپنی ابتدائی کوششوں سے وہ تحریک کامیابی کی منزل تک پہنچی۔
’ہرچند رائے بھی اسی نسل کے افراد میں سے ایک تھے۔ اگرچہ وہ سندھ کے رکن تھے، مگر انہوں نے بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کی حمایت میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی، حالانکہ ہندو برادری اس اقدام سے نالاں تھی کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ نئی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔
’مگر ہرچند رائے بے خوف رہے، کیونکہ وہ واقعی ایک روشن خیال اور آزاد فکر انسان تھے، جو تمام انسانوں کی برابری پر یقین رکھتے تھے اور فرقہ وارانہ الجھنوں سے خود کو دور رکھتے تھے۔‘
ماضی کی ’ایلفی‘، آج کی ’زیب النسا‘: کراچی کی ایک پرانی مگر مشہور مارکیٹ کی دلچسپ داستانکراچی کے قحبہ خانے اور کوٹھے کیسے اجڑے؟کراچی کی قدیم پارسی کالونی جہاں اب ویرانیوں کے ڈیرے ہیں’لاہور کا سلطان‘: وہ ٹھیکے دار جنھوں نے ’چھوٹی اینٹ کی ہوس‘ میں مساجد تک منہدم کیں