خیبرپختونخوا کے سیاحتی ضلع سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کے حالیہ واقعے کے بعد دریا کے کنارے قائم تجاوزات کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ سوات کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اب تک 49 غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کیا جا چکا ہے، جن میں متعدد ہوٹل، کیفے اور رہائش گاہیں شامل ہیں۔تاہم، یہ آپریشن اچانک روک دیا گیا، جس کے بعد ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔وفاقی وزیر کے ہوٹل کے خلاف کارروائی کیوں نہیں؟سوات بائی پاس پر قائم سب سے بڑا ہوٹل، جو وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما انجینئر امیر مقام کی ملکیت ہے، تاحال تجاوزات کے خلاف کارروائی سے محفوظ ہے۔ مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ یہ ہوٹل بھی تجاوزات کی زد میں آتا ہے، مگر اس کی ایک اینٹ بھی نہیں گرائی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’عام شہریوں کے چھوٹے ہوٹلوں اور ڈھابوں کو گرایا جا رہا ہے، جبکہ بااثر افراد کے بڑے ہوٹلوں کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔‘
کیا امیر مقام کا ہوٹل واقعی تجاوزات میں شامل ہے؟سوات کے نو تعینات ڈپٹی کمشنر سلیم جان نے اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ امیر مقام کے ہوٹل کی باؤنڈری وال گرائی جا چکی ہے، جبکہ صحن اور ریمپ بھی تجاوزات میں شامل ہیں، جنہیں جلد گرایا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا اور بلا تفریق کارروائی جاری رہے گی۔ڈی سی سوات کے مطابق، تجاوزات کے خلاف آپریشن کل سے دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ یہ کارروائی مینگورہ کے علاوہ خوازہ خیلہ، بحرین اور کالام میں بھی کی جائے گی۔امیر مقام کا مؤقفوفاقی وزیر انجینئر امیر مقام نے اس معاملے پر صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوات میں تجاوزات کے نام پر قانونی املاک کو نقصان پہنچانا قابلِ مذمت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’میرا ہوٹل مکمل طور پر قانونی ہے، جس کے لیے ملکیتی دستاویزات، این او سی اور نقشے متعلقہ اداروں سے منظور شدہ ہیں۔ باؤنڈری وال کو گرانا سیاسی انتقام اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش ہے۔ میں اس (معاملے) پر قانونی چارہ جوئی کروں گا۔‘حادثے کا انتظار کیوں کیا گیا؟سانحے کے بعد سماجی کارکنوں اور تاجروں نے سوات میں احتجاجی ریلی نکالی اور انتظامیہ کی ناقص کارکردگی پر سوالات اُٹھائے۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ’جب تک ہوٹل مکمل تعمیر نہیں ہو جاتے، متعلقہ ادارے خاموش رہتے ہیں۔ ہر سال سیلاب کے بعد دریا کنارے ہوٹل گرائے جاتے ہیں، مگر چند ماہ بعد وہی ہوٹل دوبارہ تعمیر ہو جاتے ہیں۔‘سماجی کارکنوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ حادثات کے بعد ہی حرکت میں آتی ہے، جبکہ پہلے سے کوئی مؤثر حکمت عملی یا مستقل حل موجود نہیں۔’ناقص منصوبہ بندی اور غیر سنجیدگی کے باعث ہر سال انسانی جانوں اور املاک کا نقصان ہوتا ہے، لیکن آپریشن کبھی منطقی انجام تک نہیں پہنچتا۔‘