پنجگور سے ’اغوا‘ ہونے والے 20 سالہ ذیشان ظہیر کی لاش برآمد: ’والد کی بازیابی سے پہلے بیٹے کی اپنی لاش مل گئی‘

بی بی سی اردو  |  Jul 01, 2025

’بڑا بیٹے ہونے کے ناطے میرے بھتیجے کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اُن کے والد بازیاب ہو کر آئیں اور یہ دیکھیں کہ وہ اُن کا بیٹا جوان ہو چکا ہے۔۔۔ لیکن اُس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کیونکہ والد کی بازیابی سے پہلے ہی وہ نہ صرف خود جبری گمشدگی کا شکار ہوا بلکہ لاپتہ ہونے کے چند گھنٹے بعد اُس کی لاش بھی مل گئی۔‘

یہ کہانی بلوچستان کے سرحدی ضلع پنجگور سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ نوجوان ذیشان ظہیر کی ہے جو اتوار کی شب پہلے لاپتہ ہوئے اور اس کے دس گھنٹے بعد اُن کی لاش ملی۔

ذیشان ظہیر کے چچا کفایت اللہ بلوچ نے اپنے بھتیجے کی موت کو پورے خاندان کے لیے ’گہرا صدمہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا خاندان پہلے ہی ذیشان کے والد کی طویل عرصے سے جبری گمشدگی کے باعث ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار تھا۔‘

دنیا بھر سے تازہ ترین خبریں اب آپ کے واٹس ایپ پر! بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ذیشان کو مبینہ طور پر دو گاڑیوں میں سوار مسلح افراد نے اتوار کی شام اُس وقت اٹھایا جب وہ فٹبال کا میچ کھیلنے کے بعد واپس گھر کی جانب آ رہے تھے۔

مقامی پولیس کے مطابق ذیشان ظہیر کو سٹی پولیس سٹیشن کی حدود سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا تاہم ان کی لاش دس گھنٹے بعد وشبود پولیس سٹیشن کی حدود سے ملی تھی۔

سٹی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او شہزاد احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ جس روز ذیشان کو اغوا کیا گیا تھا، اُسی روز اُن کے مبینہ اغوا کی ایف آئی آر درج کر لی گئی تھی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ اُن کی لاش اب دوسرے تھانے کی حدود سے ملی ہے اس لیے قتل کے دفعات بھی اب اسی ایف آئی آر میں شامل کی جائیں گی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ذیشان کے اغوا اور ہلاکت کے واقعات کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

ذیشان ظہیر کون تھے؟

ذیشان ظہیر کا تعلق پنجگور شہر سے تھا اور وہ خدابادان کے رہائشی تھے۔

اہلخانہ کے مطابق اُن کی عمر 20 سال کے لگ بھگ تھی اور وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔

اُن کے چچا کفایت اللہ بلوچ کے مطابق ’ذیشان نے گریجویشن کی تھی اور وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے پنجگور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کوشاں تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جس روز ذیشان کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا اس روز وہ فٹبال کا میچ کھیل کر آ رہے تھے۔ ’فٹبال نہ صرف اُس کا پسندیدہ کھیل تھا بلکہ اس کا شمار پنجگور کے اچھے کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔‘

کفایت اللہ نے دعویٰ کیا کہ ’ذیشان ظہیر کے والد ظہیر احمد کو 2015 میں مبینہ طور پر جبری گمشدگی کے شکار ہوئے تھے اور تاحال لاپتہ ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ذیشان ظہیر کو کمسنی میں ہی والد کی مبینہ جبری گمشدگی کے باعث خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھانا پڑا جس کے باعث انھوں نے محکمہ زراعت میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔

’لاش ملنے کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا‘

کفایت اللہ بلوچ نے بتایا کہ کہ ذیشان ظہیر اتوار کو اپنی ٹیم کے ساتھ میچ کھیلنے کے لیے گئے تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’میچ سے واپسی کے بعد ذیشان دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ گھر کی جانب آ رہے تھے جب نیوان ندی کے علاقے میں دو گاڑیاں آئیں اور ان سے اترنے والے مسلح نقاب پوش افراد نے مبینہ طور پر بندوق کی نوک پر انھیں ایک گاڑی میں بٹھایا اور نامعلوم مقام کی جانب لے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ مسلح افراد نقاب پوش تھے اس لیے ذیشان کے ساتھ جو دوسرے کھلاڑی اور لوگ تھے وہ ان کو پہچان نہیں سکے۔ ان کو اٹھائے جانے کے بعد ان کی جبری گمشدگی کے خلاف سٹی پولیس سٹیشن میں درخواست دی گئی تھی اور ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔‘

سٹی پولس سٹیشن کے ایس ایچ او شہزاد احمد نے بتایا کہ ذیشان کے مبینہ اغوا کامقدمہایف آئی آر نمبر 57/2025 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

اسد اللہ مینگل: بلوچستان کا ’پہلا جبری لاپتہ‘ نوجوان جس کی موت تاحال ایک معمہ ہے’میری امی آدھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی ہیں‘لاپتہ پیاروں کی متلاشی بلوچ خواتین: ’دل سے ڈر ختم ہو چکا، بس کسی بھی طرح ہمیں اپنے بھائیوں کو واپس لانا ہے‘بلوچستان کے لاپتہ افراد: ’بھائی اور بھتیجے کی گمشدگی کا غم اتنا ہے کہ اب ہمیں خوشی یاد نہیں‘

چچا کفایت اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’ذیشان کی جبری گمشدگی کے واقعے کے فوراً بعد شاہراہ پر احتجاجی دھرنا شروع کیا گیا تاکہ اُن کی بروقت بازیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم پیر کی صبح احتجاجی دھرنے کے دوران یہ اطلاع ملی کی مبینہ طور پر ذیشان کی تشدد زدہ لاش ملی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’لاش ملنے کی اطلاع کے بعد احتجاجی دھرنا ختم کر دیا گیا کیونکہ یہ دھرنا ان کی بحفاظت بازیابی کے لیے دیا جا رہا تھا لیکن حکومت اور انتظامیہ ان کی بحفاظت بازیابی یقینی نہیں بنا سکے جس کے بعد اس دھرنے کا فائدہ نہیں تھا۔‘

’والد کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتے تھے‘

کفایت اللہ بلوچ نے بتایا کہ ذیشان کے والد ظہیر احمد اُن کے چھوٹے بھائی تھے جنھیں سنہ 2015 میں مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ ظہیر احمد پنجگور میں پی پی پی ایچ آئی میں ملازم تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ظہیر احمد کی بازیابی کے لیے پُرامن احتجاج کے علاوہ وفاقی حکومت کی جانب سے جبری گمشدگیوں سے متعلق جو کمیشن بنایا گیا ہے اس میں بھی درخواست دی گئی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ابتداً ظہیر کا مقدمہ درج نہیں کیا جا رہا تھا مگر اندازاً چار سال بعد کمیشن کے حکم پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔‘

کفایت اللہ بلوچ نے بتایا کہ والد کی بازیابی کے لیے ذیشان بہت زیادہ متحرک تو نہیں تھے تاہم جب بھی پنجگور میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئی احتجاج ہوتا تھا تو وہ والد کی تصویر لے کر اس میں شریک ضرور ہوتے تھے۔

سول سوسائٹی تربت کے کوآرڈینیٹر گلزار دوست بلوچ نے دعویٰ کیا کہ ’ذیشان ظہیر اس لانگ مارچ میں شامل تھے جو تربت سے اسلام آباد تک لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کیا گیا تھا۔‘

انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ’مارچ کے شرکا پر سوراب اور اسلام آباد میں جو لاٹھی چارج کیا گیا ان میں نہ صرف وہ زخمی ہوئے بلکہ سوراب میں تو بے ہوش بھی ہو گئے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ والد کی بازیابی کے لیے ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہر مظاہرے اور احتجاج میں شریک ہوں۔

کفایت اللہ بلوچنے کہا کہ ’ہمارے خاندان کو ظلم اور بے انصافی کا نشانہ بنایا گیا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں جو کہ حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔‘

پولیس نے اب تک کیا کارروائی کی ہے؟

اس واقعے اور اس سے متعلق تحقیقات کے بارے میں جاننے کے لیے پنجگور پولیس کے سربراہ آصف فراز مستوئی سے موبائل فون پر متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی تاہم تادمِ تحریر انھوں نے نہ کال وصول کی اور نہ ہی میسیجز کا جواب دیا۔

تاہم وشبود پولیس سٹیشن، جس کی حدود سے ذیشان کی لاش برآمد ہوئی تھی، کے ایس ایچ او ظہیر بلوچ نے بتایا کہ ’ذیشان کی لاش پیر کی صبح سات بجے سوردو کے علاقےسے برآمد کی گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ان کی موت مبینہ طور پر گولیاں لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے لیکن ان کی لاش کے قریب سے گولیوں کے خول نہیں ملے جس کا مطلب یہ ہے کہ نامعلوم افراد نے ان کو کہیں اور گولی ماری اور اس کے بعد ان کی لاش کو لاکر اس علاقے میں پھینک دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں یہ معلوم ہوا کہ ان کو چھ سے سات گولیاں ماری گئی تھیں اور یہ تمام گولیان ان کو سینے میں ماری گئی تھیں۔‘

ایس ایچ او کے مطابق چونکہ ان کے اغوا کا واقعہ سٹی پولیس سٹیشن کی حدود میں پیش آیا تھا اس لیے وہاں ان کے قتل کا مقدمہ درج ہوا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے اغوا اور قتل کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

لاپتہ پیاروں کی متلاشی بلوچ خواتین: ’دل سے ڈر ختم ہو چکا، بس کسی بھی طرح ہمیں اپنے بھائیوں کو واپس لانا ہے‘اسد اللہ مینگل: بلوچستان کا ’پہلا جبری لاپتہ‘ نوجوان جس کی موت تاحال ایک معمہ ہے’میری امی آدھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی ہیں‘ماہ رنگ کے سر پر ’بلوچی پاگ‘: کیا بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں صوبے میں اپنی ساکھ کھو رہی ہیں؟رحیم زہری کی مبینہ جبری گمشدگی: ’ان کے سامنے قرآن رکھا لیکن انھوں نے مار مار کر بے ہوش کر دیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More