15 برسوں میں ایک ارب مسافروں کو منزل پر پہنچانے والا ’787 ڈریم لائنر‘: ’محفوظ ترین‘ سمجھے جانے کے باوجود اس طیارے سے متعلق خدشات کیوں ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jul 01, 2025

BBCبوئنگ کے ایئرلائنر 787 کو محفوظ ترین طیاروں میں شمار کیا جاتا ہے

گذشتہ ماہ 12 جون کو ایئر انڈیا کے مسافر طیارے کو پیش آئے ایک حادثے میں کم از کم 270 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حادثے کا شکار ہونے والا ایئر انڈیا کا یہ طیارہ بوئنگ کمپنی کا نہایت جدید اور مقبول طیارہ ہے اور اب تک اسے بوئنگ کے سب سے محفوظ مسافر طیاروں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔

ہم اب بھی نہیں جانتے کہ ايئر انڈیا کی بدقسمت ’فلائٹ 171‘ پرواز بھرنے کے محض 30 سیکنڈ بعد ہی گِر کر کیوں تباہ ہو گئی تھی۔تحقیق کاروں نے اب فلائٹ ریکارڈر کا ڈیٹا حاصل کر لیا ہے اور وہ وجوہات جاننے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

فضائی حادثات سے متعلق رپورٹس اب پڑھیے بی بی سی اُردو کے واٹس ایپ چینل پر۔ یہاں کلک کیجیے

لیکن اس واقعے نے جس طیارے پر دنیا کی توجہ مبذول کروائی ہے وہ بوئنگ کا ’787 ڈریم لائنر‘ ہے جو جدید دور کے انقلابی اور ایندھن کی بچت کرنے والے طیاروں کی پہلی کڑی ہے۔

حادثے سے قبل ’787 ڈریم لائنر‘ تقریباً ڈیڑھ دہائی تک بغیر کسی بڑے حادثے یا ایک بھی ہلاکت کے دنیا بھر میں پرواز کرتا رہا ہے۔ بوئنگ کے مطابق اس عرصے میں اس طیارے نے ایک ارب سے زائد مسافروں کو محفوظ سفر کی سہولت فراہم کی۔ اس وقت دنیا بھر میں 1,100 سے زیادہ ’787 ڈریم لائنر‘ طیارے سروس میں ہیں۔

تاہم، اس طیارے کو معیار پر قابو پانے کے کئی مسائل کا سامنا بھی رہا ہے۔

اس طیارے پر کام کرنے والے بعض وسل بلوور (متنبہ کرنے والوں) نے اس طیارے کی پروڈکشن کے معیار پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ ان میں سے بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ ممکنہ طور پر خطرناک نقائص والے طیاروں کو سروس میں شامل کر لیا گیا ہے لیکن کمپنی ان الزامات کی مسلسل تردید کرتی رہی ہے۔

Getty Imagesپہلی بار جب 2009 میں اس طیارے کو لانچ کیا گیا تو اُس موقع پر پُرجوش تماشائی وہاں موجود تھےسونک کروزَر اور نائن الیون کا اثر

دسمبر 2009 کی ایک سرد صبح کی بات ہے جب ایک بالکل نیا طیارہ سیئٹل کے قریب پین فیلڈ ایئرپورٹ کی رن وے پر آیا اور ایک پُرجوش ہجوم کے سامنے بادلوں سے ڈھکے آسمان کی جانب روانہ ہوا۔

یہ پرواز برسوں کی محنت اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا نتیجہ تھی۔

بوئنگ کو 787 ڈریم لائنر کا خیال سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں اس وقت آیا جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا اور ایندھن کی لاگت فضائی کمپنیوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنتی جا رہی تھی۔ بوئنگ نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک ایسا طویل فاصلے تک سفر کرنے والا مسافر طیارہ بنائے گا جو ایندھن کی بچت میں نئی مثال قائم کرے۔

ہوابازی کے مؤرخ شیا اوکلی کے مطابق: ’1990 کی دہائی کے آخر سے بوئنگ ایک ڈیزائن پر کام کر رہا تھا جسے سونک کروزَر کہا جاتا تھا۔‘

یہ طیارہ جدید ترین میٹریل (مواد) اور ٹیکنالوجیکا استعمال کرتے ہوئے تقریبا 250 مسافروں کو بیک وقت آواز کی رفتار سے زرا کم رفتار پر لے جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس کا اولین مقصد رفتار اور سفر کے دورانیے میں کمی تھا، نہ کہ ایندھن کی بچت۔

لیکن شیا اوکلی کے مطابق ’پھر 9/11 کے اثرات نے عالمی ایئر لائن انڈسٹری کو بری طرح متاثر کیا۔‘

فضائی کمپنیوں نے طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے کہا کہ انھیں سب سے زیادہ ایندھن بچانے والا، کم خرچ اور طویل فاصلے تک پرواز کرنے والا طیارہ چاہیے۔ وہ اب ایسا طیارہ چاہتے تھے جس میں زیادہ رفتار کے بجائے سونک کروزَر جیسی گنجائش ہو۔‘

بوئنگ نے رفتار کا ابتدائی تصور ترک کر دیا اور پھر جس منصوبے پر اس نے کام کیا وہی بعد میں ایئرلائنر 787 بنا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایئر لائنز کے لیے ایک نیا کاروباری ماڈل بھی تیار کیا۔

اس کے تحت اس نے دیو ہیکل طیاروں کی جگہ چھوٹے طیارے کے استعمال کی گنجائش نکالی۔ یعنی بڑے طیارے کے ذریعے بڑے ایئرپورٹس کے درمیان ہزاروں افراد کو پہنچایا جائے، اور پھر انھیں کنیکٹنگ فلائٹس سے آگے روانہ کیا جائے کے بجائے اب فضائی کمپنیاں چھوٹے طیارے استعمال کر سکتی تھیں، جو کم مصروف راستوں پر چھوٹے شہروں کو براہِ راست جوڑ سکیں، جو پہلے معاشی طور پر ممکن نہیں تھا۔

Getty Imagesایئر بس کے بڑے طیارے 2005 میں لانچ کیے گئے تھے جو 16 سال بعد بند کر دیے گئےایئر بس کے سُپرجمبو بمقابلہ بوئنگ کی ایندھن کی بچت والے طیارے

اس وقت بوئنگ کا سب سے بڑا حریف یورپی ادارہ ایئر بس ہے جو بوئنگ کے بالکل برعکس حکمتِ عملی پر گامزن تھا۔ وہ اے380 سپرجمبو تیار کر رہا تھا۔ یہ ایک ایسا طیارہ ہے جو بڑی تعداد میں مسافروں کو دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹس کے درمیان لے جانے کے لیے بنایا گیا تھا۔

بعد میں دیکھا جائے تو بوئنگ کی حکمتِ عملی زیادہ دانشمندانہ ثابت ہوئی۔ ایندھن کھانے والے اے-380 کی پیداوار 2021 میں بند کر دی گئی، اور صرف 251 طیارے ہی بنائے گئے۔

ایوی ایشن تجزیہ کار اور ایروڈائنامک ایڈوائزری میں مینیجنگ ڈائریکٹر رچرڈ ابولافیا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’ایئر بس کا خیال تھا کہ مستقبل میں مسافر ہمیشہ فرینکفرٹ، ہیتھرو یا ناریٹا جیسے بڑے ہَب ایئرپورٹس پر طیارے بدلنا چاہیں گے۔‘

جبکہ ’بوئنگ کا کہنا تھا کہ لوگ براہِ راست ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانا چاہتے ہیں۔ اور بوئنگ بالکل درست تھا۔‘

درحقیقت 787 ایک انقلابی طیارہ ثابت ہوا۔ یہ پہلا کمرشل طیارہ تھا جو ایلومینیم کے بجائے زیادہ تر کمپوزٹ مٹیریل جیسا کہ کاربن فائبر سے بنایا گیا تاکہ طیارے کا وزن کم رکھا جا سکے۔ اس میں جدید ایروڈائنامکس استعمال کی گئی تاکہ ہوا کی رگڑ کے اثرات کم ہوں۔

اس میں جنرل الیکٹرک اور رولز رائس کے نہایت مؤثر اور جدید انجن استعمال کیے گئے، اور اس میں کئی مکینیکل اور نیومیٹک نظاموں کو ہلکے الیکٹریکل نظاموں سے بدل دیا گیا۔

بوئنگ کے مطابق ان تمام عوامل نے اسے اپنے پیشرو بوئنگ 767 کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ مؤثر بنا دیا۔ یہ کافی حد تک اپنے پیش رو سے کم شور کرنے والا طیارہ تھا۔ اس کا شور کا دائرہ (نوائز فوٹپرنٹس) زمین پر 60 فیصد تک کم بتایا گیا۔

Getty Images2013 میں اس طیارے کے بیٹریوں میں آگ لگنے اور اُن کے حد سے زیادہ گرم ہونے کے واقعات پیش آئےایمرجنسی لینڈنگز اور طیارے میں آگ لگنے کے واقعات

تاہم، یہ طیارہ سروس میں آنے کے فوراً بعد ہی کچھ سنگین مسائل کا شکار ہوا۔ جنوری 2013 میں بوسٹن کے لوگن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک 787 طیارے کی لیتھیئم آئن بیٹریوں میں آگ لگ گئی۔ اس وقت طیارہ گیٹ پر کھڑا تھا۔

ایک ہفتے بعد جاپان میں ایک اندرون ملک پرواز کے دوران ایک اور 787 طیارے کی بیٹریاں گرم ہونے کی وجہ سے اسے ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی۔

ان واقعات کے بعد اس طیارے کو کئی مہینوں تک عالمی سطح پر گراؤنڈ کر دیا گیا، جب تک کہ بوئنگ نے اس کا حل نہ نکال لیا۔

ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘

اس کے بعد سے روزمرہ کے معاملات نسبتاً درست رہے ہیں لیکن پیداوار کے حوالے سے شدید مسائل درپیش ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ بوئنگ کا اپنے سیئیٹل کے مرکز سے دو ہزار میل سے بھی زیادہ فاصلے پر ساؤتھ کیرولینا کے نارتھ چارلسٹن میں 787 طیارے کی اسمبلی کے لیے ایک نئی لائن کے قیام کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔

یہ فیصلہ اس خطے میں یونین کی رکنیت کی کم شرح اور ریاست کی جانب سے فراخدلانہ معاونت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کیا گیا۔

ابولافیا کہتے ہیں: ’ڈویلپمنٹ کے حوالے سے سنگین مسائل تھے۔ خاص طور پر پیداوار کے کچھ مسائل، جو بوئنگ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پیوجٹ ساؤنڈ کے علاقے سے باہر ایک پیداواری لائن قائم کرنے کے فیصلے سے جڑے ہوئے تھے۔‘

وسل بلوور کے انکشافات

سنہ 2019 میں بوئنگ نے سب سے پہلے طیارے کی ساخت سے متعلق اُن نقائص کا انکشاف کیا جن سے طیارے کے مختلف حصوں کے آپس میں جڑنے کے طریقے پر اثر پڑتا تھا۔ جب مزید مسائل سامنے آئے تو کمپنی نے تحقیقات کو وسیع کیا اور مزید خرابیاں دریافت ہوئیں۔

اس کے نتیجے میں طیاروں کی ترسیل بُری طرح متاثر ہوئی جو مئی 2021 سے جولائی 2022 کے درمیان مکمل طور پر روک دی گئی۔ پھر اگلے سال اس کی ترسیل دوبارہ تعطل کا شکار ہوئی۔

تاہم 787 پروگرام سے متعلق سب سے سنگین الزامات خود کمپنی کے موجودہ اور سابق ملازمین کی طرف سے سامنے آئے۔

یہ الزامات عائد کرنے والوں میں سب سے نمایاں جان بارنیٹ تھے (جو بعدازاں وفات پا گئے تھے)۔ وہ ساؤتھ کیرولائنا میں 787 فیکٹری کے سابق کوالٹی کنٹرول منیجر تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ طیارے کو بنانے کا عمل جلد از جلد مکمل کرنے کے پریشر نے حفاظتی اصولوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

سنہ 2019 میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ فیکٹری میں کارکنوں نے وہ سخت طریقہ کار نظر انداز کیے جو پرزوں کی مکمل نگرانی کے لیے وضع کیے گئے تھے، جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر ناقص پرزے لگائے گئے۔ انھوں نے کہا کہ بعض مواقع پر کارکنوں نے دانستہ طور پر ناقص پرزے کباڑ کے ڈبوں سے نکال کر طیاروں میں لگا دیے تاکہ پیداواری عمل میں تاخیر نہ ہو۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ طیارے کے ڈیکس کو جوڑنے کے لیے ناقص فٹنگز استعمال کی گئیں۔ انھیں جب پیچوں سے کس کر لگایا جاتا تو دھات کی باریک تیز دھاریں پیدا ہوتیں جو بعض اوقات ڈیک کے نیچے جمع ہو جاتیں، جہاں پر طیارے کی بڑی مقدار میں وائرنگ موجود ہوتی ہے۔

ان کے انکشافات پہلے ہی امریکی ریگولیٹر فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کو بھیجے جا چکے ہیں۔ اس ادارے نے ان الزامات کو جزوی طور پر درست تسلیم کیا۔ تحقیقات کے بعد اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ بوئنگ فیکٹری سے کم از کم 53 ’غیر معیاری‘ پرزے غائب تھے۔

ایف اے اے کے ایک آڈٹ نے یہ بھی تصدیق کی کہ کچھ طیاروں کے فرش کے نیچے دھات کی باریک کترنیں موجود تھیں۔

بوئنگ کا کہنا تھا کہ اس کے بورڈ نے اس مسئلے کا جائزہ لیا اور کہا کہ یہ معاملات ’پرواز کی حفاظت کے لیے خطرہ نہیں ہیں‘۔ تاہم بعد میں ان فٹنگز کو دوبارہ ڈیزائن کیا گیا۔ کمپنی نے بعد میں کہا کہ اس نے ’پرزوں کی نگرانی سے متعلق ایف اے اے کے نتائج کو مکمل طور پر حل کر لیا ہے اور اس مسئلے کے دوبارہ پیدا نہ ہونے سے بچنے کے لیے اصلاحی اقدامات کیے ہیں۔‘

Getty Images’کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘

جان بارنیٹ اپنی زندگی میں اِس بات پر پریشان رہے کہ وہ طیارے جو پہلے ہی سروس میں جا چکے ہیں ان میں ایسے پوشیدہ نقائص ہو سکتے ہیں جو کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتے ہیں۔ انھوں نے 2019 میں کہا تھا: ’مجھے یقین ہے کہ 787 کے ساتھ کبھی بھی کوئی بڑا واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ میں غلط ہوں۔‘

سنہ 2024 کے اوائل میں بارنیٹ نے خودکشی کر لی تھی۔ اس وقت وہ کمپنی کے خلاف ایک طویل عرصے سے جاری وسل بلوور والے مقدمے میں گواہی دے رہے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بوئنگ نے ان کے انکشافات کے باعث انھیں نشانہ بنایا۔ بوئنگ ان کے اس الزام کی تردید کرتی رہی ہے۔

ان کے کئی دعوے ان سے پہلے کی ایک اور سابق کوالٹی منیجر سنتھیا کچنز کے الزامات سے ملتے جلتے تھے۔

سنہ 2011 میں سنتیھا نے ریگولیٹرز سے شکایت کی تھی کہ ناقص پرزے جان بوجھ کر طیاروں میں لگائے جا رہے تھے، تاکہ پروڈکشن کا عمل رکاوٹ کا شکار نہ ہو۔

سنتھیا کچنز سنہ 2016 میں بوئنگ سے الگ ہو گئیں۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ملازمین کو ناقص کام پر آنکھیں بند کرنے کا کہا گیا، اور یہ بھی بتایا کہ ایسی وائرنگ کے بنڈل، جن کی تہوں میں دھات کی باریک کترنیں شامل تھیں، دانستہ طور پر طیاروں میں لگائی گئیں، جس سے خطرناک شارٹ سرکٹس کا خطرہ پیدا ہو گیا۔

بوئنگ نے ان مخصوص الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن کہا کہ سنتھیا کچنز نے 2016 میں کمپنی سے استعفیٰ دے دیا تھا ’جب انھیں مطلع کیا گیا کہ انھیں کارکردگی بہتر بنانے کے منصوبے میں شامل کیا جا رہا ہے۔‘

کمپنی کا مزید کہنا ہے کہ انھوں نے بعد میں بوئنگ پر ’تفریق اور انتقامی کارروائی کے الزامات پر مبنی مقدمہ دائر کیا، جو کسی بھی معیار سے متعلق مسئلے سے غیر متعلقہ تھا‘ اور یہ مقدمہ خارج ہو گیا۔

ایک تیسرے وسل بلوور نے گذشتہ سال سینیٹ کمیٹی کے سامنے گواہی دی تھی۔

سیم صالحپور بوئنگ کے موجودہ ملازم ہیں۔ انھوں نے امریکی قانون سازوں کو بتایا کہ وہ اس لیے آگے آئے ہیں کیونکہ ’بوئنگ میں میں نے جو حفاظتی مسائل دیکھے ہیں، اگر ان کا سدباب نہ کیا گیا تو وہ کسی کمرشل طیارے کے مہلک حادثے کا باعث بن سکتے ہیں، جس میں سینکڑوں جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔‘

کوالٹی انجینیئر سیم نے کہا کہ جب وہ سنہ 2020 کے آخر میں 787 پر کام کر رہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ کمپنی نے اسمبلی کے عمل میں شارٹ کٹس اختیار کرنا شروع کر دیے، تاکہ پیداوار اور ترسیل کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔ ان کے مطابق ان اقدامات نے ’787 بیڑے میں ممکنہ طور پر ناقص پرزے اور خراب انسٹالیشنز کی راہ ہموار کی۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جن زیادہ تر طیاروں کا انھوں نے جائزہ لیا ان میں فیوزلاج کے مختلف حصوں کے درمیان جوڑوں میں موجود باریک خلا کو مناسب طریقے سے درست نہیں کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان جوڑوں میں وقت کے ساتھ ’قبل از وقت خرابی‘ کا امکان ہے، اور یہ طیارے کے لیے ’انتہائی غیر محفوظ حالات‘ پیدا کرتے ہیں جن کے نتائج ’ممکنہ طور پر تباہ کن‘ ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے اشارہ دیا کہ 787 ائیرلائنر کے 1,000 سے زائد طیارے اس مسئلے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

بوئنگ کا اصرار ہے کہ ’787 کی بناوٹ کی سالمیت سے متعلق دعوے درست نہیں ہیں۔‘ کمپنی کا کہنا ہے کہ ’سامنے لائے گئے مسائل کا امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کی نگرانی میں سخت تجزیے سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تجزیے سے یہ تصدیق ہوئی ہے کہ یہ طیارے کئی دہائیوں تک اپنی مضبوطی اور قابلِ استعمال عمر برقرار رکھیں گے، اور یہ مسائل کسی قسم کے حفاظتی خدشات پیدا نہیں کرتے۔‘

’اگر کوئی بڑا مسئلہ ہوتا، تو وہ اب تک ظاہر ہو چکا ہوتا‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ برسوں میں بوئنگ کو اپنی کارپوریٹ ثقافت اور پیداواری معیار کے حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی 737 میکس سیریز کے دو مہلک حادثوں اور گذشتہ سال ایک اور سنگین واقعے کے بعد اس پر بار بار یہ الزام لگایا گیا ہے کہ کمپنی نے منافع کو مسافروں کی سلامتی پر ترجیح دی۔

یہ وہ تاثر ہے جسے گذشتہ سال کمپنی میں آنے والے کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو کیلی اورٹبرگ ختم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے اندرونی نظام میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں اور ریگولیٹرز کے ساتھ مل کر ایک جامع حفاظتی اور کوالٹی کنٹرول منصوبے پر کام کیا ہے۔

لیکن کیا 787 پہلے ہی ماضی کی ناکامیوں سے متاثر ہو چکا ہے، جو اب بھی حفاظتی خطرات کا باعث بن سکتے ہیں؟

ریچرڈ ابولافیہ اس سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’دیکھیں، یہ 16 سالوں سے زیرِ استعمال ہے، 1,200 سے زائد طیارے بن چکے ہیں اور ایک ارب سے زیادہ مسافر ان پر سفر کر چکے ہیں، لیکن اب تک کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ یہ ایک شاندار حفاظتی ریکارڈ ہے۔‘

اُن کا خیال ہے کہ ’اگر کوئی بڑا مسئلہ ہوتا، تو وہ اب تک ظاہر ہو چکا ہوتا۔‘

وہ کہتے ہیں: ’میری رائے میں پیداوار سے متعلق مسائل وقتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں 787 کی پیداوار پر کہیں زیادہ سخت نگرانی رہی ہے۔‘

’جہاں تک پرانے طیاروں کا تعلق ہے، میرا خیال ہے کہ اگر کوئی سنگین مسئلہ ہوتا تو وہ اب تک سامنے آ چکا ہوتا۔‘

ایئر انڈیا کا وہ طیارہ جو احمد آباد میں حادثے کا شکار ہوا 11 سال سے زیادہ پرانا تھا اور پہلی بار سنہ 2013 میں پرواز پر گیا تھا۔

تاہم ’فاؤنڈیشن فار ایوی ایشن سیفٹی‘ کا کہنا ہے کہ حالیہ حادثے سے پہلے بھی اسے 787 کے حوالے سے تشویش موجود تھی۔ یہ ایک امریکی تنظیم ہے اور اسے بوئنگ کے سابق وسل بلوور ایڈ پیئرسن نے قائم کیا تھا۔ یہ تنظیم پہلے بھی بوئنگ پر شدید تنقید کر چکی ہے۔

ایڈ پیئرسن کا کہنا ہے کہ ’جی ہاں، یہ ممکنہ حفاظتی خطرہ تھا۔ ہم واقعات کی رپورٹس پر نظر رکھتے ہیں، ریگولیٹری دستاویزات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ پرواز کے قابل ہونے سے متعلق ہدایات جاری کی جاتی ہیں جو مختلف مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں، اور یہ سب کچھ آپ کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔‘

ان کے مطابق ایک ایسا ہی مسئلہ طیارے کے باتھ روم کے نلکوں سے ممکنہ طور پر پانی رس کر برقی آلات والے حصوں میں جانے کے متعلق تھا۔ گذشتہ سال ایف اے اے نے ایئرلائنز کو ہدایت دی کہ وہ کچھ 787 ماڈلز میں ایسی لیکجز کی غیر موجودگی کے باوجود باقاعدہ معائنہ کریں، کیونکہ کئی رپورٹس میں ان لیکجز کا پتا نہیں چل سکا تھا۔

تاہم وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ احمد آباد حادثے کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہو سکی اور یہ بہت ضروری ہے کہ تحقیقات جلد آگے بڑھیں، تاکہ اگر طیارے کے ساتھ کسی بھی قسم کا مسئلہ ہے، چاہے وہ طیارے میں ہو، ایئرلائن میں یا کسی اور جگہ تو اسے حل کیا جا سکے۔

تاہم فی الحال787 کا حفاظتی ریکارڈ مضبوط ہی سمجھا جا رہا ہے۔

ایوی ایشن کنسلٹنگ فرم لیہام کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر اسکاٹ ہیملٹن کہتے ہیں: ’ہم اس وقت یہ نہیں جانتے کہ ایئر انڈیا کا حادثہ کس وجہ سے پیش آیا۔‘

’لیکن جو کچھ ہم اس طیارے کے بارے میں جانتے ہیں، اس کی بنیاد پر میں 787 پر سوار ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کروں گا۔‘

پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘ایئر انڈیا کے طیارے کی ٹیک آف کے 30 سیکنڈز میں گِر کر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟حادثے کے بعد طیارے کے پرزے کیسے باتیں کرتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More