Getty Images
کیا ہوتا ہے جب دنیا کے امیر ترین شخص اور دنیا کے طاقتور ترین سیاستدان کی آپس میں ٹھن جائے یا ان میں لڑائی ہو جائے؟
دنیا اب اس کا جواب جاننے کی کوشش میں ہے اور یہ کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا کے مالک ایلون مسک دونوں کی آواز پر دنیا توجہ دیتی ہے اور اب یہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف آ کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان اختلاف اب الزامات کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ٹرمپ نے ایلون مسک کو ان کے وفاقی حکومت کے ساتھ بڑے کاروباری معاملات کے حوالے سے دھمکی دی ہے۔ یہ ایلون مسک کے سپیس ایکس پروگرام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر ایک دھمکی آمیز پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمارے بجٹ میں پیسہ بچانے کا سب سے آسان طریقہ جو کہ اربوں ڈالرز ہیں یہ ہے کہ ایلون مسک کو وفاقی حکومت سے حاصل سرکاری سبسڈی اور معاہدوں کو ختم کر دیا جائے۔‘
اگر صدر ٹرمپ کے سرکاری مشینری کو ایلون مسک کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا تو ارب پتی ایلون مسک کو یقینی تکلیف پہنچے گی۔جمعرات کو ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا کے حصص کی قیمت میں 14 فیصد گراوٹ دیکھی گئی ہے۔
تاہم ان کے درمیان الزامات اور دھمکی آمیز بیانات یکطرفہ نہیں ہیں۔
ٹرمپ کے بیان کے بعد مسک نے صدر کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے اور انھیں کہا ہے کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ ان کی کمپنیوں کی فنڈنگ میں کمی کر کے دکھائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے ڈریگن خلائی جہاز کے منصوبے کو ختم کرنے کے عمل کو تیز کر رہے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت امریکہ امریکی خلابازوں اور بین الاقوامی خلائی سٹیشن تک سامان لے جانے کے لیے انحصار کرتا ہے۔
Getty Images
ایلون مسک کے پاس ٹرمپ کو جواب دینے کے لیے تقریباً لامحدود وسائل ہیں جن میں اگلے برس ہونے والے انتخابات میں رپبلکن کے خلاف امیدواروں کو فنڈز فراہم کرنا شامل ہے۔
جمعرات کو ان کا کہنا تھا کہ وہ ’واقعی ایک بڑا دھماکہ‘ کرنے والے ہیں اور انھوں نے بنا کسی ثبوت کے یہ دعویٰ کیا کہ ’جنسی مجرم جیفری ایپسٹین سے متعلق غیر جاری شدہ فائلوں میں ٹرمپ کا نام بھی شامل ہے۔‘
جبکہ امریکی صدر کی پریس سیکرٹری کیرولین لیوٹ نے مسک کے الزامات پر محض ایک سرسری سا بیان جاری کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ایلون مسک کی جانب سے یہ بہت بری حرکت ہے، وہ صرف ایک شاندار بل سے اس لیے ناخوش ہیں کیونکہ اس میں وہ پالیسیاں شامل نہیں کی گئیں جو وہ چاہتے تھے۔‘
ایلون مسک کے محکمے کا ایسا دعویٰ جسے انڈین اپنی ’بے عزتی‘ اور ’انتخابی عمل میں مداخلت‘ کہہ رہے ہیںایک شرمیلا انسان جو سیاست کے لیے نہیں۔۔۔ ایلون مسک کے بارے میں ان کے والد کے خیالات’مجھے نہیں لگتا ایلون مسک خوش ہیں‘: دنیا کے سب سے امیر شخص اور اوپن اے آئی کے بانی کے درمیان جھگڑے کی وجہ کیا؟ٹیسلا کے منافع میں کمی کے بعد ایلون مسک کا امریکی حکومت کو کم وقت دینے کا فیصلہGetty Images
مسک شاید پوری ٹرمپ حکومت کے خلاف یہ جنگ نہ جیت سکیں لیکن وہ ٹرمپ اور رپبلکن پارٹی کو ایک بڑا دھچکا ضرور پہنچا سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ شاید اس بات سے واقف ہیں، گذشتہ روز وہ اس تمام تر لفظی گولہ باری میں درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے انھوں نے وائٹ ہاؤس پولیس کی تعریفی تقریب میں عوامی سطح پر مسک پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا اور ٹروتھ سوشل پر ایک پیغام پوسٹ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ انھیں مسک کے ’ان کے خلاف ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘ لیکن خواہش ہے کہ وہ مہینوں پہلے سرکاری ملازمت چھوڑ دیتے۔
اس کے بعد انھوں نے اپنے ’بڑے اور شاندار‘ ٹیکس اور اخراجات کے حوالے سے قانون سازی کے متعلق بات کی۔
تاہم جمعرات کو دونوں کے درمیان شدید اختلاف، لفظی گولہ باری اور الزامات کے بعد معاملات کا آسانی سے سنبھل جانا کچھ مشکل لگتا ہے۔
ایک دوسرے پر الزامات اور دھمکیاں
اس جھگڑے کی شروعات گذشتہ ہفتے سے ہوئی تھی اور بدھ کو اس میں کچھ کشیدگی آئی اور جمعرات کو یہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس دن اوول دفتر میں جرمن چانسلر فریڈرک مرز مہمان تھے مگر وہ اس کشیدگی کے باعث ایک اجنبی سے خاموشی میں بیٹھے رہے کیونکہ ٹرمپ اس دن ایک ناراض عاشق کی طرح لگ رہے تھے۔
انھوں نے اپنی قانون سازی پر مسک کی جانب سے تنقید پر حیرانی کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس خیال کی بھی تردید کی کہ اگر انھیں گذشہ برس صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران مسک کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو وہ یہ صدارتی انتخاب ہار جاتے۔
انھوں نے کہا کہ مسک کے رویے میں اس لیے تبدیلی آئی ہے کیونکہ رپبلکن کی دباؤ سے ان کی کار کمپنی ٹیسلا کو الیکٹرک گاڑیوں کے ٹیکس کریڈٹ کو ختم کرنے سے نقصان پہنچے گا۔
اس کے جواب میں مسک نے اپنے دو کروڑ سے زائد فالورز کو جواب دیتے ہوئے اپنے ایکس اکاؤٹ پر لکھا کہ ’جو بھی ہو‘، وہ گاڑیوں پر سبسڈیز کی فکر نہیں کرتے، وہ قومی قرض کو کم کرنا چاہتے تھے، جو ان کا کہنا ہے کہ قوم کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔
انھوں نے ٹرمپ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ان کی حمایت یا مدد نہ کرتے تو گذشتہ برس صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹس جیت جاتے۔ انھوں نے ٹرمپ کو لکھا ’بہت ناشکراپن ہے۔‘
اس کے بعد انھوں نے ٹرمپ پر مزید حملے کیے اور یہ جھگڑا بڑھتا گیا۔
مسک اور ٹرمپ نے ایک طاقتور لیکن غیر معمولی اتحاد قائم کیا تھا۔
اس کے بعد مسک کو ٹرمپ انتظامیہ میں قومی اخراجات کم کرنے والی اتھارٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔
مسک کا محکمہ برائے حکومتی کارکردگی، ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کے سب سے اہم اقدامات میں سے ایک بن گیا تھا کیونکہ اس نے امریکہ میں بہت سے سرکاری اداروں جو مکمل طور پر بند کرکے ہزاروں سرکاری ملازمین کو برخاست کر دیا تھا۔
اور ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھی کہ دونوں اہم اور طاقتور شخصیات کی یہ دوستی جلد ختم ہو گی۔
Getty Images
ایسا لگتا تھا کہ یہ پیش گوئیاں غلط ثابت ہوں گی۔ کیونکہ ٹرمپ مسک کی مقبولیت میں کمی آنے کے باوجود ان کے ساتھ کھڑے رہے،کیونکہ مسک انتظامیہ کے اہلکاروں کے ساتھ جھگڑا کرتے تھے اور اس سال کے شروع میں کئی اہم انتخابات میں وہ ایک بوجھ بن گئے تھے۔
جب بھی انھیں لگتا کہ وقفہ ہے وہ ٹرمپ کے اوول دفتر یا کابینہ اجلاس میں آ جاتے حتیٰ کے صدر ٹرمپ کے مارس لاگو کے دورے کے دوران وہ ان کے سرکاری جہاز ائیرفورس ون میں بھی آ گئے تھے۔
جب مسک کے بطور ’خصوصی سرکاری ملازم‘ کے 130 دن پچھلے ہفتے ختم ہوئے، تو اوول دفتر میں دونوں میں خوشگوار ملاقات سے رخصت کیا گیا تھا اور یہ اشارہ دیا گیا تھا کہ شاید کسی دن مسک واپس آجائیں گے۔
مگر اب یہ کہنا درست ہو گا کہ ان کے لیے وائٹ ہاؤس کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔
ٹرمپ نے جمعرات کو ایک تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا اور ایلون کا ایک اچھا تعلق تھا۔‘
یہ بھی خیال کیا گیا کہ بدھ کی رات ٹرمپ کا ایک نئی سفری پابندی کا حیرت انگیز اعلان، ہارورڈ پر اضافی پابندیاں اور سابق صدر جو بائیڈن کی سازشی انتظامیہ کی تحقیقات مسک کی جانب سے تنقید کے موضوع کو تبدیل کرنے کی تمام کوششیں تھیں۔
وائٹ ہاؤس اور کانگریس میں اس کے اتحادی مسک کے پہلے تبصروں کے بعد ان کی مزید مخالفت نہ کرنے میں محتاط نظر آئے۔
اور پھر ٹرمپ خود ہی اس پر بول پڑے اور یہ کافی تھا۔
کیا کسی کو فائدہ ہو گا؟Getty Images
اب یہ سوال ہے کہ اس لڑائی کا نتیجہ کیا ہو گا۔ کانگرس میں موجود رپبلکنز کے لیے ٹرمپ کے بل کی حمایت کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ مسک ان کی مالی معاونت کر رہا ہے۔
ٹرمپ نے پہلے ہی مسک کے سرکاری معاہدوں کو ختم کرنے کی دھمکی دی ہے مگر وہ مسک کے حکومتی اخراجات میں کمی لانے کے محکمہ میں ان کے اتحادیوں کو اس میں گھسیٹ سکتے ہیں یا بائیڈن دور میں ان کی کاروباری معاملات کی تحقیقات کا آغاز کر سکتے ہیں۔
اس وقت تمام آپشن زیر غور ہیں۔
جبکہ دوسری طرف ڈیموکریٹس اس ساری صورتحال میں یہ سوچ رہے کہ وہ اس پر کیا اور کیسے ردعمل دیں۔ کچھ ڈیموکریٹس مسک کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں، تاکہ اپنی پارٹی کے لیے ایک فنڈز فراہم کرنے والے کو واپس لے آئیں۔ مگر یہاں وہ پرانی کہاوت بھی ٹھیک بیٹھتی ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔
ڈیموکریٹک سٹریٹجسٹ لیام کیر نے پولیٹیکو کو بتایا کہ ’اس کھیل میں کسی کو کوئی فائدہ نہیں، مسک جو بھی قدم اٹھاتے ہیں اور اگر وہ ڈیموکریٹس کی طرف بڑھتے ہیں تو اس سے رپبلکن کو تکلیف ہو گی۔‘
فی الوقت ڈیموکریٹس پیچھے رہ کر دونوں کو آپس میں لڑتا دیکھ کر خوش نظر آتے ہیں۔ اور جب تک وہ اس لڑائی کو ترک نہیں کرتے، اس وقت تک امریکی سیاست میں باقی سب کچھ ختم ہونے کا امکان ہے۔
لیکن یہ توقع نہ کریں کہ یہ جھگڑاجلد ہی کسی بھی وقت ختم ہو جائے گا۔
مسک نے ایکس پر لکھا کہ ’ٹرمپ کے صدر کے طور پر 3.5 سال باقی ہیں، لیکن میں 40 سے زیادہ سال تک یہی ہوں گا۔‘
’مجھے نہیں لگتا ایلون مسک خوش ہیں‘: دنیا کے سب سے امیر شخص اور اوپن اے آئی کے بانی کے درمیان جھگڑے کی وجہ کیا؟ٹیسلا کے منافع میں کمی کے بعد ایلون مسک کا امریکی حکومت کو کم وقت دینے کا فیصلہایلون مسک کے محکمے کا ایسا دعویٰ جسے انڈین اپنی ’بے عزتی‘ اور ’انتخابی عمل میں مداخلت‘ کہہ رہے ہیں