چولستان کے صحرا میں ایک ٹوبہ کے قریب عبدالرحمان اپنے ساتھیوں سمیت خیمہ لگائے آرام کر رہے تھے کہ اچانک انہیں شور سنائی دیا۔وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس جگہ گئے جہاں سے شور آ رہا تھا تو معلوم ہوا سانپ نے ایک بچے کو ڈس لیا ہے۔مقامی لوگ جوگی کا انتظار کرنے لگے جو بچے کو سانپ کے زہر کے ممکنہ خطرات سے بچانے کا واحد ذریعہ مانے جاتے تھے۔
عبدالرحمان بتاتے ہیں ’وہ جوگی آیا، پیسے بٹورے لیکن بچہ جانبر نہ ہوسکا۔ چند دن بعد معلوم ہوا کہ وہ بچہ سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے جان سے چلا گیا۔‘
یہ واقعہ پنجاب کے ضلع بہاولپور کے قصبے منڈی یزمان سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ عبد الرحمان کو آج بھی یاد ہے۔یہ وہ لمحہ تھا جب عبدالرحمان کو احساس ہوا کہ ایسے موقع پر درست معلومات، سائنسی شعور اور فوری طبی امداد کی کتنی اشد ضرورت ہے۔’خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں سانپ جیسے جاندار خوف و توہمات کے ہالے میں لپٹے ہوئے ہیں اور لوگ سائنسی علاج سے زیادہ توہمات پر یقین رکھتے ہیں۔‘یہ عبدالرحمان ہیں جو نہ صرف سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہیں بلکہ ان کی زبان بھی سمجھتے ہیں، ان کے ساتھ مہینوں گزارتے ہیں، ان کی عادات کا مطالعہ کرتے ہیں، اور ان کے بارے میں عام لیکن خوفناک غلط فہمیوں کی حقیقت سامنے لاتے ہیں۔لوگ جب سانپ دیکھنے کے بعد چیخ کر پیچھے ہٹتے ہیں تو عبدالرحمان آگے بڑھتے ہیں۔ ہاتھوں میں سانپ لے کر ان کی آنکھوں میں دیکھ کر کہتے ہیں ’گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ضرر رساں نہیں ہے، یہ ہماری زمین کا حصہ ہے۔‘وہ صرف سانپوں پر ہی نہیں بلکہ ہر اس جاندار پر تحقیق کرتے ہیں جنہیں انسان اپنا دشمن خیال کرتا ہے۔عبدالرحمان کی تربیت کا ایک اہم حصہ سروائیول سکلز سیکھنا رہا جو انہوں نے ڈسکوری چینل سے وابستہ اپنے انسٹرکٹر رضا علی بخشی سے سیکھیں۔ (فوٹو: وائلڈ رش)وہ اس سلسلے میں اب تک بلوچستان کے صحراؤں، خیبرپختونخوا کے جنگلوں، اور کشمیر کے پہاڑوں میں جا کر ان جانداروں پر تحقیق کر چکے ہیں۔عبدالرحمان کا ماننا ہے کہ ‘جنگلی حیات کی حفاظت صرف کتابوں سے نہیں، میدان میں اتر کر ہوتی ہے۔‘25 سالہ عبدالرحمان نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے کمپیوٹر نیٹ ورکنگ میں ڈگری حاصل کی لیکن ان کا اصل جنون جنگلی حیات اور سروائیول کی دنیا سے جڑا تھا۔بچپن سے جمناسٹکس اور مارشل آرٹس کے شوقین عبدالرحمان اپنے مقامی طلبا کو نہ صرف یہ مہارتیں سکھاتے رہے بلکہ انہیں پاکستان کی تاریخی اور قدرتی خوبصورتی سے بھی روشناس کرواتے تھے۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں 2010 سے 2016 تک مختلف گروپوں کے ساتھ پیدل سفر پر جاتا رہا ہوں۔ ہم اس دوران قدیم قلعوں کا مشاہدہ کرتے اور رات کو کیمپ لگاتے۔ ہمارا مقصد تھا کہ پاکستان کی ثقافت اور تاریخی مقامات کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے۔‘انہوں نے اس سلسلے میں بیرون ممالک سے آئے مہمانوں کو بھی تاریخی مقامات کی سیر کروائی ہے تاہم چولستان کے ایک سفر کے دوران جب انہوں نے سانپ کے کاٹنے اور ایک غلط فہمی کی وجہ سے بچے کی موت دیکھی تو تاریخی قلعوں اور جمناسٹکس کی بجائے جنگلی حیات پر توجہ مرکوز کی اور سانپوں کی اقسام، ان کے زہر، اور علاج پر تحقیق شروع کی۔انہوں نے اس دوران انڈین اور دیگر بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا اور مقامی طور پر ہسپتالوں کے بارے میں معلومات جمع کیں جہاں سانپ کا اینٹی وینم (علاج) دستیاب ہو۔عبدالرحمان ہیں نہ صرف سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہیں بلکہ ان کی زبان بھی سمجھتے ہیں۔ (فوٹو: وائلڈ رش)عبدالرحمان کی تربیت کا ایک اہم حصہ سروائیول سکلز سیکھنا رہا جو انہوں نے ڈسکوری چینل سے وابستہ اپنے انسٹرکٹر رضا علی بخشی سے سیکھیں۔وہ اسی وجہ سے خود کو ’سروائیولسٹُ کہتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا بتانا ہے ’سروائیول کا مطلب ہے اپنے ماحول کو سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانا۔ آپ اگر جنگل میں کھو جائیں، تو یہ مہارتیں آپ کو خوراک، پانی اور راستہ ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہیں۔ آپ اپنے ماحول کو دیکھتے ہوئے اسی سے فائدہ اٹھا کر زندگی گزارتے ہیں۔‘انہوں نے اس فن کو پاکستان میں بڑے پیمانے پر متعارف کروانے کی کوشش کی لیکن شہری پھیلاؤ اور جنگلات کی کمی نے اسے مشکل بنا دیا چنانچہ انہوں نے اپنی دلچسپی کو جنگلی حیات کے تحفظ اور تعلیم سے جوڑ دیا اور اس حوالے سے کام کرنے لگے۔لوگ انہیں مشہور سروائیول ماہر سٹیو ایروِن سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کے بقول ’کئی لوگ مجھے مشہور سروائیول ماہر اسٹیو اروِن سے تشبیہ دیتے ہیں جن کا انتقال ایک سٹنگرے کے حملے سے ہوا تھا۔ میں ان کے کام اور انداز کا مداح ہوں اور لوگ میری اور ان کی مشابہت کو محسوس کرتے ہیں۔‘عبدالرحمان اب تک 100 سے زائد جانداروں پر تحقیق کر چکے ہیں جن میں سے اکثر کے بارے میں پاکستان میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ وہ اس کام کے لیے مالی ضروریات خود پوری کرتے ہیں۔ان کے بقول ’میں پارٹ ٹائم سبزی منڈی میں آلو کی بوریاں اٹھا لیتا ہوں یا کسی ریستوران یا ڈھابے پر ویٹری کر لیتا ہوں۔ اسی طرح میری پوری ٹیم خود کما کر اخراجات برداشت کرتی ہے۔‘انہوں نے اپنے اخراجات خود برداشت کرتے ہوئے زندگی کا بڑا حصہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے جنگلوں میں گزرا ہے جہاں وہ 15 سے 20 دن تک رہ کر سانپوں، پرندوں اور دیگر جانداروں کے رویے کا مطالعہ کرتے ہوئے ان پر 8 سے 10 منٹس کی ڈاکیومنٹریز بناتے ہیں۔’میں ایسے جانداروں کے ساتھ باقاعدہ وقت گزارتا ہوں۔ ان کی عادات و اطوار کا مشاہدہ کر کے ان پر تحقیق کرتا ہوں۔ کبھی کبھار ان سے باتیں بھی کرتا ہوں کیونکہ آپ جب کسی جاندار کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو آپ س کے رویے کو سمجھنے لگتے ہیں۔‘عبدالرحمان جانداروں پر تحقیق کے علاوہ اپنی ٹیم کے ہمراہ 2010 سے ریسکیو مشن پر بھی کام کر رہے ہیں۔ (فوٹو: وائلڈ رش)وہ جانوروں سے متعلق مختلف غلط فہمیوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’کئی سانپوں کو غلط طور پر زہریلا سمجھا جاتا ہے۔ میں لوگوں کے سامنے خود کو غیر زہریلے سانپوں سے کاٹنے دیتا ہوں تاکہ وہ حقیقت دیکھ سکیں۔ اسی طرح چھپکلی کے بارے میں بھی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں کہ ان کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں تاہم اب تک کوئی ریکارڈ نہیں کہ مانٹر لزڈ یعنی چھپکلی سے کسی کی موت ہوئی ہو۔‘عبدالرحمان کے مطابق انہوں نے اب تک پاکستان میں موجود سانپوں کی 87 میں سے 26، پرندوں کی 35، اور دیگر جانداروں کی 15 سے زائد اقسام پر تحقیق کی ہے۔وہ جانداروں پر تحقیق کے علاوہ اپنی ٹیم کے ہمراہ 2010 سے ریسکیو مشن پر بھی کام کر رہے ہیں۔ کسی علاقے میں سانپوں کی موجودگی کے بعد لوگ ان سے رابطہ کرتے ہیں اور یہ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔’ہمیں جب کسی علاقے میں سانپ کے ہونے کی اطلاع ملتی ہے تو ہم صرف اسے پکڑنے نہیں جاتے بلکہ ہم لوگوں کو جمع کرتے ہیں، سانپ کی شناخت کرواتے ہیں، اس کا ماحولیاتی کردار بتاتے ہیں، اور وہ اگر زہریلا ہو تو کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں یہ سب بتاتے ہیں۔‘وہ جب سانپوں کو ریسکیو کرتے ہیں تو انہیں ایک ہفتے تک تحقیق کی خاطر اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور پھر جنگلات یا ریگستانوں میں چھوڑ دیتے ہیں۔ غیر زہریلے سانپوں کو بعض اوقات انسانی بستیوں میں بھی چھوڑا جاتا ہے لیکن اس سے پہلے مقامی لوگوں کو آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ وہ یہ تمام خدمات بلا معاوضہ فراہم کرتے ہیں۔ ان کے بقول ’ہمیں فی الحال تو کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہو رہا اور نہ ہم براہ راست کچھ کما رہے ہیں لیکن شاید آئندہ تعلیم یافتہ طبقے سے معمولی فیس لی جائے تاہم ہمارا اصل مقصد تو آگاہی پھیلانا ہے۔‘وہ ریسکیو آپریشن کے دوران مقامی لوگوں کو قریبی ہسپتالوں کی معلومات، زہریلے سانپ کے کاٹنے کی علامات، اور ابتدائی طبی امداد کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی متاثر ہوتا ہے تو وہ اسے ہسپتال لے جاتے ہیں اور مکمل صحت یابی تک ساتھ رہتے ہیں۔’ہم ہر سال 2 سے 3 مریضوں کی زندگیاں بچاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہر سال کئی افراد سانپ کے کاٹنے سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں کیونکہ ہسپتالوں میں اینٹی وینم نہیں ہوتا۔ ہماری کاوشوں سے صرف ہمارے ضلع کے وکٹوریہ ہسپتال میں اس وقت 35 سے زائد ڈوزز پڑی ہیں۔‘عبدالرحمان کے مطابق سانپ ماحول میں توازن رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ (فوٹو: وائلڈ رش)عبدالرحمان کی ٹیم سکولوں، یونیورسٹیوں اور گھروں میں جا کر آگاہی پھیلاتی ہے۔ وہ خواتین اور بچوں کے لیے ہفتہ وار سیشنز منعقد کرتے ہیں، جن میں مقامی سانپوں، پرندوں، اور درختوں کی ماحولیاتی اہمیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ ہر 15 سے 20 دن بعد وہ سکولوں میں پوسٹرز اور تصاویر کے ساتھ جاتے ہیں، جن میں سانپوں کی شناخت اور کاٹنے کی صورت میں اقدامات کی وضاحت ہوتی ہے۔عبدالرحمان کا خواب ہے کہ وہ پاکستان کی جنگلی حیات کو نیشنل جیوگرافک یا ڈسکوری چینل جیسے پلیٹ فارم پر پیش کریں۔ ’میں ایک ایسا پلیٹ فارم بنانا چاہتا ہوں جہاں ہر طبقے کے لوگ، چاہے تعلیم یافتہ ہوں یا نہیں، اپنی ماحولیاتی دنیا کو سمجھیں۔‘عبدالرحمان کے مطابق سانپ ماحول میں توازن رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ سانپوں کو محض خطرناک جاندار نہیں مانتے بلکہ ایک اہم ماحولیاتی عنصر سمجھتے ہیں۔’یہ چوہوں کی آبادی کو کنٹرول کرتے ہیں، جو بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ ایک چوہیا ہر 40 دن میں 6 بچے پیدا کرتی ہے۔ سانپ اس آبادی کو قابو میں رکھتے ہیں۔‘ان کے مطابق سانپ مٹی کی زرخیزی میں بھی حصہ ڈالتے ہیں اور ان کا زہر اینٹی وینم، دوائوں اور کاسمیٹکس بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔وہ انڈیا کی مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’انڈیا میں غیر سرکاری تنظیمیں سانپوں سے زہر نکال کر اینٹی وینم بناتی ہیں اور پکڑنے والوں کو معاوضہ دیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی اب اینٹی وینم بن رہا ہے۔‘ان کی خواہش ہے کہ ’پاکستان کا ہر شہری جنگلی حیات کے تحفظ میں کردار ادا کرے اور ہر شہری چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا نہیں لیکن اسے جانداروں کے بارے میں درست معلومات ضرور ہونی چاہییں۔‘