بھارتی مصنف اور شاعر جاوید اختر ایک بار پھر پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز بیانیے کے باعث شدید تنقید کی زد میں آ گئے ہیں۔ ایک حالیہ انٹرویو میں، ان کا ایسا بیان سامنے آیا جس نے پاکستان کی عوام کے ساتھ ساتھ شوبز اور سیاسی حلقوں کو بھی خاصا برانگیختہ کر دیا۔
انٹرویو میں جاوید اختر نے کہا: "پاکستانی مجھے کہتے ہیں کہ میں جہنم جاؤں، اور بھارتی مجھے جہادی کہتے ہیں، مجھے کہتے ہیں پاکستان چلے جاؤ۔ اگر مجھے جہنم اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں جہنم کو ترجیح دوں گا۔"
ان کے اس طنزیہ اور اشتعال انگیز جملے نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ ٹوئٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر صارفین نے شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے نہ صرف ناشائستہ بلکہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔ اس بار ان کی زبان درازی کو خالی نہیں جانے دیا گیا۔ پاکستانی فنکار اور نامور شخصیات بھرپور جواب کے ساتھ میدان میں اتر آئیں۔
اداکارہ مشی خان نے سخت لب و لہجے میں کہا کہ جاوید اختر نے اگر "جہنم" کا انتخاب کیا ہے تو وہ بالکل درست فیصلہ ہے، کیونکہ وہ واقعی اسی کے لائق ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب نہ کوئی انہیں پاکستان بلائے گا، نہ یہاں خوش آمدید کہے گا اور جو ان کے قدموں میں بیٹھے تھے، انہیں بھی واپسی کا راستہ دکھائیں۔
اداکار عمران عباس نے تنقیدی انداز اپناتے ہوئے طنز کیا کہ اگر جاوید اختر کو جہنم ہی جانا ہے، تو ان کا طیارہ ویسے بھی وہیں لینڈ کرے گا۔ ہم نے محض وقتی طور پر انہیں "بزنس کلاس" کا سلوک دیا تھا، لیکن حقیقت میں ان کی حیثیت "اکانومی" سے بھی کم ہے۔
اداکارہ ژالے سرحدی اور سیاستدان شرمیلا فاروقی نے بھی جاوید اختر کے بیانیے کو منافقت اور بد نیتی پر مبنی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک طرف پاکستان آ کر ادبی میلوں میں شرکت کرتے ہیں، لوگوں سے داد پاتے ہیں، اور دوسری طرف واپسی پر ایسی گفتگو کرتے ہیں جو دو ملکوں کے درمیان نفرت کے بیج بوتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ جاوید اختر نے پاکستان مخالف بات کی ہو۔ ماضی میں بھی وہ مختلف مواقع پر ایسے بیانات دیتے رہے ہیں، مگر لاہور میں ہونے والے ایک ادبی پروگرام میں ان کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا تھا۔ افسوس کہ اُس گرمجوشی اور احترام کا صلہ انہوں نے الزام تراشی اور تضحیک سے دیا۔
جاوید اختر کا یہ نیا بیان ظاہر کرتا ہے کہ بعض شخصیات کو محبت سے نہیں، صرف نفرت سے ہی شہرت ملتی ہے اور وہ جان بوجھ کر اسی راہ پر چلتے ہیں۔