دنیا کا سب سے بڑا مقابلہ، ضلع لورالائی کے اولیو آئل کو سِلور ایوارڈ

اردو نیوز  |  May 17, 2025

امریکہ کے شہر نیویارک میں ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے زیتون کے تیل کے مقابلے میں بلوچستان کے ضلع لورالائی کے ایک کسان کے باغ سے حاصل کردہ تیل کو عالمی سطح پر بہترین معیار کا تسلیم کیا گیا ہے۔

’نیویارک انٹرنیشنل اولیو آئل کمپیٹیشن‘ میں دنیا بھر کے 1200 سے زائد برانڈز نے شرکت کی جس میں ’لورالائی اولیوز‘ نے سلور ایوارڈ حاصل کیا۔

لورالائی اولیوز کے چیف ایگزیکٹیو شوکت رسول کے مطابق ’ہمارا خواب تھا کہ پاکستان کو زیتون پیدا کرنے والے ممالک کی صف میں جگہ ملے۔ الحمداللہ ہم نے یہ خواب پورا کر کے دکھایا اوریہ ثابت کر دیا کہ پاکستان میں عالمی معیار کا زیتون کا تیل پیدا ہو رہا ہے۔ ‘

انہوں نے بتایا کہ یہ ایوارڈ سپین، اٹلی اور امریکہ جیسے بڑے پیداواری ممالک کے درمیان حاصل کرنا نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے اعزاز ہے۔ ان کے مطابق ’ہم اس مقابلے میں سلور میڈل حاصل کرنے والا جنوبی ایشیا کا پہلا برانڈ ہیں۔‘

ان کے بقول یہ تیل لورالائی کے باغات سے حاصل کردہ مختلف اقسام میں سے ’آربکیونا‘ ورائٹی سے تیار کیا گیا تھا۔ کاشت کاری سے لے کر تیل نکالنے، پیکیجنگ اور سٹوریج تک سخت کوالٹی کنٹرول اور بین الاقوامی سرٹیفکیشن کے بعد یہ کامیابی حاصل ہوئی۔

زیتون کے باغ کے مالک عبدالجبار نے اردونیوز کو بتایا کہ یہ کامیابی برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لورالائی میں 30 ایکڑ پر قائم ان کے باغ سے پچھلے سال نو ہزار لیٹر سے زائد تیل حاصل ہوا جس سے کروڑوں روپے کا منافع ہوا۔ ان کے مطابق ’زیتون سخت موسمی حالات برداشت کرتا ہے، اس کا پھل خراب نہیں ہوتا اور اسے ذخیرہ کرنا آسان ہے۔‘

عبدالجبار نے بتایا کہ ’میں پہلے ٹماٹر، گوبھی اور دیگر سبزیاں اور بادام اگاتا تھا مگرسخت موسمی حالات، پانی کی کمی، مارکیٹ میں قیمتیں گرنے اور دیگر وجوہات کی بناء پر اکثر نقصان اٹھانا پڑتا تھا مگر ایک دہائی پہلے زیتون کے درخت لگانے کے بعد نقصان نہیں اٹھانا پڑا بلکہ ہر سال فائدہ بڑھ رہا ہے۔‘

ماہرین کے مطابق بلوچستان زیتون کی کاشت کے لیے ملک کا سب سے موزوں خطہ ہے۔

پاکستان آئل سیڈ ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ اور وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کے ٹیکنیکل رکن ڈاکٹر خیر محمد کاکڑ کے مطابق ’بلوچستان میں زیتون کا ایکسٹرا ورجن تیل عالمی معیار کا ہے نیویارک کے عالمی مقابلے میں ایوارڈ جیتنے کے بعد بلوچستان کے تیل کی پذیرائی بڑھے گی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم رینکنگ میں بہت پیچھے ہیں اس مقابلے کے جیتنے کے بعد ہم سپین میں عالمی زیتون کونسل سے رجوع کر کے پاکستان کی رینکنگ بڑھانے پر زور دیں گے۔‘

شوکت رسول کا کہنا ہے کہ ایوارڈ جیتنے کے بعد اب عالمی مارکیٹ سے رابطے بڑھ رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)خیر محمد کاکڑ نے زیتون کو منافع بخش اور ایک ماحول دوست درخت قرار دیا جو کم پانی میں نشو و نما پاتا ہے اور غیر زرعی زمینوں پر بھی کامیابی سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق زیتون کے درخت ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی عمر سینکڑوں سال ہوتی ہے۔

بلوچستان میں نصیرآباد ریجن کے ماسوا باقی پورے صوبے میں اسے کہیں بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔

خیر محمد کاکڑ کے بقول پاکستان میں زیتون کی پیداوار سب سے زیادہ بلوچسان میں ہے۔ لورالائی، موسیٰ خیل، ژوب اور خضدار کے علاقے نہ صرف موزوں زمین اور آب و ہوا رکھتے ہیں بلکہ یہاں فی درخت پیداوار بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مقابلے میں دوگنی ہے۔ جہاں دیگر صوبوں میں فی 100 کلو پھل سے 10 سے 16 لیٹر تیل نکلتا ہے وہیں بلوچستان میں یہی مقدار 30 لیٹر تک جا پہنچتی ہے۔

سابق ایم ڈی سیڈ آئل ڈویلپمنٹ بورڈ کے مطابق پاکستان میں اب تک دو کروڑ کے قریب زیتون کے درخت لگ چکے ہیں اور وفاقی و صوبائی حکومتیں اور کئی ادارے اس شعبے کی ترقی کے لیے مفت یا کم قیمت پر پودوں، مشنری اور آبپاشی کے نظام کی فراہمی سمیت کئی سہولیات مہیا کر رہے ہیں۔ زمیندار ان منصوبوں سے فائدہ لے کر یہ منافع بخش فصل اُگا کر دیگر فصلوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

عبدالجبارکا کہنا ہے کہ ’یہ کامیابی لورالائی جیسے پسماندہ علاقے کے لیے امید کی کرن ہے اور پاکستان کو زیتون کی عالمی صنعت میں نئی شناخت دے گی۔‘

شوکت رسول کا کہنا ہے کہ ایوارڈ جیتنے کے بعد عالمی مارکیٹ سے رابطے بڑھ رہے ہیں اور انہیں عالمی کنٹریکٹ مل رہے ہیں، اب معیار برقرار رکھنے کے لیے مزید محنت کرنا ہوگی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں زیتون کی بہت مانگ ہے جہاں پاکستانی زیتون کی مصنوعات کو بھرپور پذیرائی مل سکتی ہے بشرطیکہ پیداوار کو بڑھا کر معیار کو مسلسل برقرار رکھا جائے۔

اولیو ٹائمز کے مطابق پاکستان میں زیتون کے آٹھ کروڑ جنگلی درخت جبکہ 56 لاکھ کاشت شدہ درخت موجود ہیں (فوٹو: اولیو ٹائمز)انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے علاوہ پنجاب کا پوٹھوہار خطہ اور خیبر پختونخوا بھی زیتون کے لیے موزوں ہے۔ حکومت زیتون کی پیداوار بڑھانے کے لیے اہم اقدامات کر رہی ہے۔ کسان اور کاروباری طبقے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

زیتون سے تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات جیسے اچار، مربہ، بسکٹ، صابن وغیرہ بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر خیر محمد کاکڑ کے مطابق اب تو زیتون کے پتے سبز چائے کے متبادل کے طور پر مقبول ہو رہے ہیں اور اسے امریکا اور دیگر ممالک کو برآمد کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں زیتون کے تیل کی سالانہ طلب تقریباً ساڑھے چار ہزار ٹن ہے جسے پورا کرنے کے لیے ساڑھے تین ارب روپے تک کی درآمدات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ فی الحال پاکستان ہر سال خوردنی تیل پر تین ارب ڈالر سے زائد خرچ کرتا ہے جن میں زیتون کے تیل کی درآمدات بھی شامل ہیں۔

اولیو ٹائمز کے مطابق پاکستان میں زیتون کے آٹھ کروڑ جنگلی درخت جبکہ 56 لاکھ کاشت شدہ درخت موجود ہیں جبکہ ہر سال پانچ سے آٹھ لاکھ نئے پودے لگائے جا رہے ہیں۔ پچھلے سال کے سیزن میں زیتون کے تیل کی پیداوار 160 سے 180 ٹن تک پہنچنے کی توقع کی گئی جو اس سے پچھلے سال کی نسبت بیس فیصد سے زائد ہے۔ 2022 میں عالمی زیتون کونسل سے رجسٹریشن کے بعد 19 لاکھ ڈالر مالیت کا زیتول برآمد کیا ہے۔ 

زیتون کا تیل دل کی بیماریوں، ذیابیطس، اور بڑھاپے کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار سمجھا جاتا ہے (فوٹو: پکسابے)پاکستان نے زیتون کے تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے حکومت اربوں روپے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ پاک اولیو پراجیکٹ کے مطابق ملک میں 82 ملین ہیکٹر غیر استعمال شدہ زمین موجود ہے جو زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ہے جو دنیا کے سب سے بڑے زیتون کے پیداواری ملک سپین کے قابلِ کاشت رقبے سے بھی زیادہ ہے۔

زیتون کی فصل نہ صرف معیشت بلکہ ماحول کے لیے بھی مفید ہے۔ اس کی کاشت کاربن جذب کرتی ہے۔ ایک ہیکٹر زیتون کا باغ تقریباً 13.9 ٹن کاربن جذب کرتا ہے۔

ڈاکٹر خیر محمد کاکڑ کے مطابق زیتون کے 40 درخت ایک کاربن کریڈٹ کے برابر ہوتے ہیں جس کی قیمت 20 امریکی ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا کے ایک ادارے سے معاہدہ کیا گیا ہے جس کے تحت زمینداروں کو رجسٹر کر کے کاربن کریڈٹ کی مد میں پیسے دیئے جائیں گے۔

زیتون کے تیل کو صحت بخش قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دل کی بیماریوں، ذیابیطس، اور بڑھاپے کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس عام خوردنی تیل کو غیر صحت بخش سمجھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں فی کس خوردنی تیل کی کھپت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More