Getty Images
متحدہ عرب امارات میں گزاری گئی چھٹیوں کے دوران میرے ذہن میں صرف ایک ہی مشن تھا: دبئی کی ایک وائرل ہونے والی چاکلیٹ ڈھونڈنا۔
اگر آپ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں تو آپ اس چاکلیٹ بار سے ضرور واقف ہوں گے۔
چاکلیٹ، پستے، تہینی (تل کے بیج سے بننے والی لبنانی سوس) اور ذائقے دار پیسٹری کے ساتھ ملا کر تیار کی جانے والی دبئی چاکلیٹ بار عربی میٹھے ’کنافہ‘ سے ملتی جلتی ہے۔
اس چاکلیٹ کی اصل بار فکس چاکلیٹئر کمپنی نے تیار کی جو ’کانٹ گیٹ کنافہ آف اٹ‘ کے نام سے فروخت ہوتی ہے اور یہ 2022 سے صرف یو اے ای میں فروخت ہوتی رہی ہے۔
اور اب یہ سوشل میڈیا پر اتنی مقبول ہو گئی ہے کہ روزانہ صرف دو گھنٹے کے لیے فروخت کے لیے پیش کی جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سٹاک ختم ہو جاتا ہے۔
اس سے ملتی جلتی ’دبئی چاکلیٹ‘ کی نقل برطانیہ کی سپر مارکیٹس میں بھی دستیاب ہے اور کچھ سپر مارکیٹس نے صارفین کے لیے خریداری کی حد بھی مقرر کر دی ہے۔
فکس چاکلیٹئر کے بانی یزن علانی اور ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ان کی اہلیہ سارہ حمودہ نے بی بی سی کو بتایا کہ دبئی چاکلیٹ کو عالمی سطح پر ملنے والی توجہ ان کے لیے ایک جانب باعثِ فخر ہے تو وہیں ان میں انکساری لانے کا باعث بھی ہے۔
Getty Imagesفکس چاکلیٹرز کے بانی یزن علانی اور ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ان کی اہلیہ سارہ حمودہ نے اس کاروبار کو مل کر شروع کیا صرف فوڈ ڈیلیوری ایپ کے ذریعے آرڈر
’کانٹ گیٹ کنافہ آف اٹ‘ کی چاکلیٹ بار کا خیال 2021 میں سارہ حمودہ کو اس وقت آیا جب وہ حاملہ تھیں اور انھیں خاص ذائقوں کی خواہش تھی۔
سارہ اور ان کے شوہر یزن علانی نے ایک سال بعد اس انتہائی خاص چاکلیٹ بار کی تیاری شروع کی۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ اپنی کارپوریٹ ملازمتوں کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی چلا رہے تھے۔
یزن علانی کہتے ہیں ’سارہ اور میں برطانیہ میں پلے بڑھے اور 10 سال پہلے دبئی منتقل ہوئے۔ اس لیے ہمارے اندر مغربی اور عربی دونوں ثقافتوں کی جڑی ہیں۔ ہم ایسے ذائقے تخلیق کرنا چاہتے تھے جو ان دونوں سے متاثر ہوں۔‘
اس چاکلیٹ بار کی کشش اس کی انفرادیت میں ہے۔ یہ صرف فوڈ ڈیلیوری ایپ کے ذریعے آرڈر کیا جا سکتا ہےاور کسی بڑی سے بڑی شاپ یا سپر مارکیٹ سے خریدا نہیں جا سکتا۔
اس کی قیمت تقریباً 15 پاؤنڈز فی بار ہے اور اسے دن کے مخصوص اوقات میں ہی خریدا جا سکتا ہے تاکہ کمپنی تمام آرڈرز کو نمٹا سکے۔
میں نے اس علاقے میں کئی دکانوں میں اسی طرح کے بارز بھی دیکھے جنھیں ’دبئی چاکلیٹ‘ کہا جاتا ہے اور ان پر پستہ اور فائیلو پیسٹری کی تصاویر بنی ہوتی ہیں۔
یزن علانی کہتے ہیں کہ یہ ’نقلی‘ بارز ان کے لیے بہت مایوس کن ہیں کیونکہ لوگ جعلی مصنوعات کے جھانسے میں آ رہے ہیں اور یہ ہمارے برانڈ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
Getty Imagesکنافا مشرق وسطیٰ کا ایک مشہور میٹھا ہے جسے پیسٹری، میٹھے پنیر اور پستے سے بنایا جاتا ہے
اس خاص چاکلیٹ بار کی مقبولیت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا بھی ہے، خصوصا 2023 میں ٹک ٹاک صارف ماریا ویہیرا کی ایک وائرل ویڈیو نے اس چاکلیٹ کی مشہوری میں بہت کام کیا۔
اس ویڈیو میں ویہیرا پہلی بار ’کنافہ بار‘ کو ٹرائی کر رہی ہیں اور اسی چاکلیٹیئر کی تیار کی ہوئی کئی دیگر بارز بھی چکھ رہی ہیں ۔ اس ویڈیو کو تقریباً 70 لاکھ مرتبہ لائیک کیا جا چکا ہے۔
اس چاکلیٹ بار کو دیکھا جائے تو نرم و ملائم مِلک چاکلیٹ پر نارنجی اور سبز رنگ کے خوبصورت ڈیزائن، سوشل میڈیا پر اس کو دلکش بناتے ہیں اور جب اسے توڑا جاتا ہے تو اس کی خستہ آواز اور چاکلیٹ کا رنگ و روپ اسے وائرل بنانے اور سب کا دل للچانے میں مدد دیتا ہے۔
چاکلیٹ اور پستے کا امتزاج کوئی نئی بات نہیں لیکن اس بار کا سب سے نمایاں پہلو اس کی کرنچی فلنگ ہے خاص طور پر فائیلو پیسٹری جو اس میں منفرد ساخت اور گاڑھا پن پیدا کرتی ہے۔
انڈیا میں بننے والے ’پہلے کرسمس کیک‘ کی کہانیبنگلے میں قائم بمبئی بیکری، جہاں بننے والے کیک کی ترکیب ایک صدی بعد بھی راز ہےنظام الدین بستی کے کھانے بیچ کر خود کفیل بننے والی خواتین: ’فائیو سٹار ہوٹل بھی انھیں بلاتے ہیں‘سموسہ ’ایٹم بم‘، بریانی ’نیوکلیئر میزائل‘ اور پیزا ’ڈرون اٹیک‘: کیا واقعی یہ غذائیں ہمارے لیے نقصاندہ ہیں؟Getty Imagesدبئی سمیت دنیا بھر میں اس کی نقل جا بجا موجود ہے
چونکہ کانٹ گیٹ کنافہ آف اٹ نامی یہ خاص چاکلیٹ بار صرف ایک ملک (متحدہ عرب امارات) میں دستیاب ہے اس لیے دیگر برانڈز نے برطانیہ میں اس کی اپنی ورژنز فروخت کرنا شروع کر دی ہیں۔
انھی میں سے سوئیس چاکلیٹ بنانے والی مشہور کمپنی لنڈٹ (Lindt) بھی شامل ہے جو دبئی چاکلیٹ سپر مارکیٹس میں 10 پاؤنڈ میں فروخت کر رہی ہے۔
برطانیہ کے سپر سٹور ویٹ روز کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس چاکلیٹ بار کو فروخت کرنے کے لیے اب گاہکوں کے لیے دو بارز کی حد مقرر کر دی ہے تاکہ سٹاک کنٹرول کیا جا سکے۔
اس خاص چاکلیٹ کی طرز پربنائی گئی ایک اور نقل برطانیہ کے سپر سٹور ہوم بارگینز میں بھی فروخت ہوئی جبکہ لیڈل کی اپنی ایک خاص ورژن 4.99 پاؤنڈ میں دستیاب ہے، اور وہ بھی خریداری کی تعداد پر پابندی لگا رہا ہے۔
ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر نے ویڈیو میں دکھایا کہ کس طرح اس چاکلیٹ بار کو کاؤنٹر کے پیچھے رکھا جا رہا ہے تاکہ اس کی رسائی محدود کی جا سکے۔
جب میں نے لنڈٹ بار اور مقامی دکانوں میں دستیاب کچھ دیگر ورژنز کو آزمایا تو اس میں واضح فرق نظر آیا۔
دوسری جانب فکس کی تیار کردہ چاکلیٹ کو ایک ’ڈیزرٹ بار‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جسے فریج میں رکھنا ضروری ہوتا ہے، اور اس کی میعاد مختصر ہوتی ہے بالکل جیسے دودھ یا دیگر ڈیری اشیا کی۔
دوسری جانب دیگر ورژنز کو زیادہ عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ جبکہ اصلی بارز اور دیگر میں ذائقے اور ساخت میں بھی فرق واضح ہے۔
اصلی بار کا سائز لنڈٹ بار کے مقابلے میں تقریباً دو گنا چوڑا ہے جبکہ لنڈٹ کا بار عام چاکلیٹ بار کے سائز اور شکل سے مشابہت رکھتا ہے۔
’ایسے لمحات بھی آئے جب ہم نے ہار ماننے کا سوچا‘
جب یزن الانی اور ان کی اہلیہ حمودہ نے ابتدا کی تو انھوں نے صرف ایک ملازم رکھا تھا جو روزانہ تقریباً چھ سے سات آرڈرز بناتا تھا۔
لیکن ٹک ٹاک کی بدولت مقبولیت حاصل کرنے کے بعد اب ان کا کاروبار 50 افراد کی ٹیم پر مشتمل ہے جو روزانہ 500 آرڈرز مکمل کر پاتے ہیں۔
اس خاص میٹھے کے حوالے سے سب سے زیادہ بات اس کی قیمت پر کی جاتی ہے یعنی ایک چاکلیٹ بار کی قیمت 15 پاؤنڈ۔
’یہ تمام ہاتھ سے تیار کی جاتی ہیں۔ ہم اعلیٰ معیار کے اجزا استعمال کرتے ہیں اور اس کی تیاری کا عمل عام چاکلیٹ بارز جیسا نہیں ہے۔ اس میں بیکنگ، چاکلیٹ کو مخصوص ڈیزائن میں ڈھالنے اور فلنگ تیار کرنے کے مراحل شامل ہیں۔ یہاں تک کہ پستے بھی ہاتھ سے چن کرپراسیس کیے جاتے ہیں۔‘
گزشتہ سال ہفتہ وار جریدے اریبین بزنس سے گفتگو کرتے ہوئے حمودہ نے کہا تھا کہ ’میری والدہ کنافہ بنایا کرتی تھیں اور میں چاہتی تھی کہ اس ذائقے کو اپنے انداز میں پیش کروں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’کنافہ پہلا ذائقہ تھا جسے ہم نے مکمل طور پر بہتر بنایا۔ کرنچ، پستہ اور وہ سب کچھ جو ہونا ضروری ہے۔‘
اگرچہ یہ پروڈکٹ اب کامیابی حاصل کر چکی ہے، لیکن یزن الانی کہتے ہیں کہ ’یہ سفر آسان نہیں تھا۔‘ ان کی اس بات کے پیچھے اس جدوجہد کی کہانی تھی جس میں ایک جوڑا ایک ساتھ کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دو بچوں کی پرورش بھی کر رہا تھا۔
’ایسے لمحات بھی آئے جب ہم نے ہار ماننے کا سوچا لیکن ہم نے خود سے کہا کہ ’جب تک ہم کرایہ ادا کر سکتے ہیں، ہم چلتے رہیں گے‘ اور اب ہمیں کوئی افسوس نہیں کیونکہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔
بنگلے میں قائم بمبئی بیکری، جہاں بننے والے کیک کی ترکیب ایک صدی بعد بھی راز ہےانڈیا میں بننے والے ’پہلے کرسمس کیک‘ کی کہانیسموسہ ’ایٹم بم‘، بریانی ’نیوکلیئر میزائل‘ اور پیزا ’ڈرون اٹیک‘: کیا واقعی یہ غذائیں ہمارے لیے نقصاندہ ہیں؟نظام الدین بستی کے کھانے بیچ کر خود کفیل بننے والی خواتین: ’فائیو سٹار ہوٹل بھی انھیں بلاتے ہیں‘زمین پر ’سب سے خالص‘ خوراک کیا گھی ہی ہےدنیا کے آخری سرے پر موجود ریستوران جہاں کھانوں کے اجزا بحری جہازوں اور طیاروں کے ذریعے پہنچائے جاتے ہیں