Getty Images
دنیا بھر کے بہت سے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’امریکہ فرسٹ‘ پالیسی سے متاثر ہوتا نظر آ رہا ہے، اس پالیسی کے تحت امریکہ نے ’یو ایس ایڈ‘ کے تحت دنیا بھر میں چلنے والے پروگرامز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اگرچہ گذشتہ برسوں کے دوران پاکستان کو اس ضمن میں ملنے والی غیر ملکی امداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود ’یو ایس ایڈ‘ اب بھی پاکستان میں صحت، انسانی امداد، جمہوریت اور گورننس جیسے مختلف شعبوں میں چلنے والے کچھ اہم منصوبوں کی مالی اعانت کر رہا تھا تاہم اب اچانک کام رُکنے کے حکم کی وجہ سے یہ اہم منصوبے اور ان کا مستقبل خطرے میں ہے۔
امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 کے لیے پاکستان کو ’یو ایس ایڈ‘ کے تحت مجموعی طور پر لگ بھگ 21 کروڑ ڈالرز موصول ہوئے جن کے ذریعے بہت سے منصوبے یا تو جاری تھے یا حال ہی میں ان کا آغاز ہوا تھا اور رواں سال یعنی 2025 میں مختلف مراحل میں ان منصوبوں کے تحت فنڈز ملنے کی توقع تھی۔
تاہم 25 جنوری کو ٹرمپ کی جانب سے صدارتی عہدے کا حلف اٹھاتے ہی ’یو ایس ایڈ‘ ایلون مسک کے متنازع ’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی‘ کا ہدف بنا اور صدر کی جانب سے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت تمام امریکہ کی جانب سے دوسرے ممالک کو دیے جانے والی امداد کو 90 دن کے لیے روک دیا گیا۔
ان فیصلوں کے بعد پاکستان میں 25 جنوری کو یو ایس ایڈ کے منصوبوں سے منسلک سٹاف کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا اور آئندہ دنوں میں ان کے معاہدے بھی ختم کر دیے گئے۔
مگر یہاں سوال یہ ہے کہ متاثر ہونے والے اہم پروگرام کون سے ہیں؟
ٹی بی (تپ دق) پروگرامGetty Imagesپاکستان میں تپ دق یعنی ٹی بی سے سالانہ چھ لاکھ افراد متاثر ہوتے ہیں
پاکستان ٹی بی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے اور سالانہ اس بیماری سے تقریباً چھ لاکھ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس بیماری پر قابو پانے کے لیے سب سے بڑی مدد ’یو ایس ایڈ‘ کی طرف سے آ رہی تھی۔
آٹھ کروڑ 60 لاکھ ڈالر مالیت کے منصوبے ’انگریٹیڈ ہیلتھ سسٹمز اینڈ اسٹرینڈنگ سروس ڈیلیوری‘ کے ذریعے یو ایس ایڈ پاکستان کی قومی اور صوبائی حکومتوں کو ٹی بی پر قابو پانے، تشخیص اور علاج تک رسائی میں اضافے میں مدد فراہم کر رہا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ یو ایس ایڈ کے بند ہونے سے پاکستان کی پہلے ہی خطرت میں گھری آبادی مزید خطرے میں پڑ جائے گی۔
اگرچہ یو ایس ایڈ پاکستان میں ٹی بی کے کنٹرول اور دیکھ بھال کے پروگراموں کا واحد ادارہ نہیں تھا لیکن یہ متعدی بیماریوں کی نشاندہی، روک تھام اور ردعمل کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں حکومت پاکستان کو اہم مدد فراہم کر رہا تھا۔
تاہم اس شعبے میں کام کرنے والے ماہرین کے مطابق فنڈز منجمد ہونے کے باوجود وہ پرامید ہیں کہ ٹی بی، ایچ آئی وی اور ملیریا جیسے ضروری صحت سے متعلق پروگراموں کے لیے امداد بحال کر دی جائے گی تاہم ان کے مطابق جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک غیریقینی کی صورتحال جاری رہے گی۔
پاکستان میں ان منصوبوں سے منسلک تمام سینیئر سٹاف کو انتظامی چھٹیوں پر بھیج دیا گیا ہے اور مقامی سٹاف کو نہیں پتا کہ اس ضمن میں اُن کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔
BBC’یو ایس ایڈ‘ پاکستان کی قومی اور صوبائی حکومتوں کو ٹی بی پر قابو پانے، تشخیص اور علاج تک رسائی میں اضافے میں مدد فراہم کر رہا تھا
اگرچہ ایلون مسک نے یو ایس ایڈ کی افادیت پر بار بار سوال اٹھائے ہیں لیکن سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کے مطابق پاکستان یو ایس ایڈ کے ٹی بی کنٹرول پروگرام سے فائدہ اٹھانے والے سرفہرست ممالک میں شامل ہے جہاں تقریباً 29 ہزار 698 زندگیاں بچائی گئیں اور 83 ہزار 413 ویکسینز فراہم کی گئیں ہیں۔
بی بی سی نے سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا سے آنے والے چیلنجز کے بارے میں بات کی۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے زیادہ تر فنڈز انسانی وسائل، طبی سامان اور تشخیصی آلات کے لیے مختص کیے گئے تھے اور اب ٹی بی اور ایچ آئی وی کے لیے اضافی ڈومیسٹک فنڈنگ حاصل کرنے سے محکمہ صحت پر بہت زیادہ بوجھ پڑے گا۔
اُن کے مطابق صحت کی سہولیات کے سیکٹر میں کافی افرادی قوت میسر تھی اور حکومت انھیں کانٹریکٹ ملازمت کے ذریعے برقرار رکھنے اور ضروری صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک کمیونٹی ورکر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس پروگرام کے ذریعے غریب پاکستانیوں کو پہلی بار ٹی بی سے بچاؤ کی ادویات تک رسائی حاصل ہوئی جس سے بیماری کے پھیلاؤ کو کافی حد تک روکنے میں مدد ملی۔
’سٹاپ ٹی بی پارٹنرشپ پاکستان‘ جو ٹی بی سے پاک پاکستان کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ہے، کے مطابق یو ایس ایڈ کے خاتمے سے 27 اضلاع میں جاری منصوبے متاثر ہوئے ہیں۔
خواتین اور بچوں کی صحتBBCیو ایس ایڈ کی فنڈنگ سے چلنے والے پروگرامز کے تحت ماؤں اور بچوں میں غذائی قلت سے نمٹنے اور غذائی تحفظ کو بڑھانے کا کام بھی شامل تھا
ٹی بی کے علاوہ ایک اور متاثر ہونے والا اہم پروگرام ’بلڈنگ ہیلدی فیملیز‘ (Building Healthy Families)ہے جس کا مقصد خیبرپختونخوا اور سندھ میں خواتین اور بچوں کے لیے ضروری صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی کو بڑھانا تھا۔ اس کا مقصد بنیادی دیکھ بھال کے نظام کو مضبوط بنانے اور خاندانی منصوبہ بندی اور زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کرکے زچہ و بچہ میں بیماریوں اور اموات کی شرح کو کم کرنا تھا۔
اس پروگرام کے تحت ماؤں اور بچوں میں غذائی قلت سے نمٹنے اور غذائی تحفظ کو بڑھانے کے لیے بھی کام شامل تھا، خاص طور پر اُن علاقوں میں جو سیلاب سے متاثر تھے۔
ایک پروگرام افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا اِس پروگرام کی مدد سے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں صحت کے شعبے میں اہم خامیوں کو دور کیا گیا، خاص طور پر اُن علاقوں میں جہاں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی رسائی نہیں تھی۔
اس کے مطابق اس پروگرام کے خاتمے سے نہ صرف اس سے فائدہ اٹھانے والے افراد پر فوری اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ 300 سے زیادہ اُن ملازمین پر بھی جنھیں فوری طور پر ان کی ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے۔
اگرچہ اِس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ ان تمام فیصلوں کے حتمی نتائج کیا ہوں گے تاہم اقوام متحدہ کے مطابق ’پاکستان میں۔۔۔ امریکی اعلان کے باعث 17 لاکھ افراد متاثر ہوں گے، جن میں 12 لاکھ افغان پناہ گزین بھی شامل ہیں، جو زندگی بچانے والی جنسی اور تولیدی صحت کی خدمات سے دور ہو جائیں گے جبکہ 60 سے زیادہ صحت کے مراکز بند ہو جائیں گے۔‘
وہ پروگرام جو این جی اوز کے ذریعے چلائے جا رہے تھےBBC’فنڈنگ بند ہونے سے مستحق اور تنازعات سے دوچار علاقے زیادہ متاثر ہوں گے‘
یو ایس ایڈ کی جانب سے قابل ذکر فنڈنگ سے چلنے والا ایک اور شعبہ ’انکلوسیو ڈیموکریٹک اینڈ اکاؤنٹیبل گورننس‘ تھا جس میں پاکستان میں قیام امن اور انتخابی اور قانون سازی کے عمل کو مضبوط بنانے کے لیے متعدد پروگرام شامل تھے جو مختلف غیرسرکاری اداروں اور این جی اوز کے ذریعے چلائے جا رہے تھے۔
’اکاؤنٹبیلیٹی لیب پاکستان‘ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ان میں سے تقریباً 25 فیصد ادارے خیبرپختونخوا میں کام کر رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ فنڈنگ بند ہونے سے مستحق اور تنازعات سے دوچار علاقے زیادہ متاثر ہوں گے۔
اس سروے میں حصہ لینے والے 81 فیصد جواب دہندگان غیر سرکاری تنظیموں یعنی این جی اوز کی نمائندگی کرتے ہیں۔
سروے میں شامل تقریبا نصف تنظیموں نے بتایا کہ وہ 50 فیصد سے زیادہ فنڈنگ کے لیے امریکی حکومت پر انحصار کر رہے تھے اور اسی لیے فنڈنگ کا معطل ہونا اُن کے لیے مالی تباہی کا باعث بنا۔ برطرفیوں سے 79 فیصد کمیونٹی ورکرز متاثر ہوئے ہیں جس کے باعث بہت سے خاندان اور مقامی معیشتیں متاثر ہوئی ہیں۔
اس شعبے میں کام کرنے والی اور نئی امریکی انتظامیہ کے اقدامات سے متاثر ہونے والی تنظیم ’بیٹھک‘ ہے۔
اس تنظیم کی بانی عائشہ امین کے مطابق اُن کے کام کا بنیادی مقصد سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صنفی ایکشن پلان تیار کرنا تھا۔ ان کے مطابق وہ اپنے کام کو پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر پھیلانے کے لیے پرامید تھیں لیکن اب وہ سوچتیںہیں کہ یہ ناممکن ہے۔
عائشہ امین نے نشاندہی کی کہ اگرچہ امریکی فنڈنگ کے کام کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں مسائل تھے اور نچلی سطح کی تنظیموں کے لیے اس تک رسائی مشکل تھی لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس کٹوتی کے بہت منفی نتائج ہوں گے۔
’لیکن ہمیں زیادہ قابل اعتماد اور پائیدار فنڈنگ کے ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری زیادہ تر این جی اوز بین الاقوامی فنڈنگ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں کیونکہ ہمیشہ سے فنڈنگ کا یہی ذریعہ رہا ہے۔‘