اصحابِ کہف: سینکڑوں برسوں تک سونے والے نوجوانوں اور اُن کے کتے کا واقعہ مسیحی روایات اور قرآن میں کیسے بیان کیا گیا؟

بی بی سی اردو  |  Mar 14, 2025

Getty Imagesترکی میں واقع ایک غار میں موجود اِن قبروں کے بارے میں زائرین کا ماننا ہے کہ یہ ’اصحاب کہف‘ کی ہیں

اُردن کے دارالحکومت عمان کے مشرق میں ایک قصبہ ہے جس کا نام ’الرجیب‘ ہے۔ یہاں موجود ایک غار میں سات ایسی قبریں ہیں جنھیں مسیحی اور مسلم زائرین عقیدت کے ساتھ دیکھنے جاتے ہیں۔

اِن قبروں کے بارے میں ان زائرین کا ماننا ہے کہ یہ اُن سات نوجوانوں کی ہیں جنھوں نے رومی دور میں مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے یہاں پناہ لی تھی اور پھر ایک ’معجزے‘ کے نتیجے میں وہ صدیوں تک یہیں سوتے رہے۔

مسیحی روایات میں اِن نوجوانوں کو اِسی نسبت سے ’سیون سلیپرز‘ یا ’سلیپرز آف افُیسس‘ کہا گیا جبکہ مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن میں انھیں ’اصحاب الکہف‘، ’اصحاب الرقیم‘ اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کی مدیر ملیسا پیٹروزیلو لکھتی ہیں کہ مُردوں کے زندہ ہو جانے کی تصدیق کرتا یہ واقعہ مسیحیت اور اسلام میں قرونِ وسطیٰ کے دوران مقبول رہا۔

لیکن یہ واقعہ کیا ہے اور مسلم اور مسیحی روایات میں اس کے بارے میں کیا تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ عمان کے مشرقی قصبے ’الرجیب‘ کے علاوہ اصحاب کہف کے غار کا ترکی اور شام سمیت متعدد اور مقامات پر ہونے سے متعلق بھی دعویٰ کیا جاتا ہے۔ گو اصل جگہ کا حتمی تعین نہیں ہو سکا ہے لیکن عمان کے قریب غار میں مقبرے اور ہوا کی نکاسی کے لیے ایک راستے کی موجودگی اس جگہ کو باقی مقامات کے مقابلے میں زیادہ سند فراہم کرتی ہے۔

مسیحی روایات: رومی شہنشاہ کا ظلم اور تاریخی حقیقتGetty Imagesترکی میں واقع غار کا دہانہ

مسیحی روایت کے مطابق رومی شہنشاہ ڈیسئیس (250 عیسوی) کے دور میں جب حضرت عیسیٰ کے پیروکاروںپر ظلم و ستم کیا جا رہا تھا تو سات (اور بعض روایات کے مطابق آٹھ) مسیحی نوجوان اپنے آبائی شہر ’افیسس‘ کے قریب موجود ایک غار میں چھپ گئے۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق اس غار کا دروازہ یا منھ بعد میں بند ہو گیا اور یہ نوجوان معجزاتی طور پر نیند میں چلے گئے۔ اس کے بعد کئی سال ایسے ہی بیت گئے اور جب رومی شہنشاہ تھیوڈوسیس دوم (408–450 عیسوی) کے دور میں یہ غار کھولا گیا، تو یہ نوجوان نیند سے بیدار ہوئے۔

اُن کی غار میں معجزاتی موجودگی اور گواہی نے شہنشاہ کو متاثر کیا کیونکہ یہ اُن کے مسیحی عقیدے کے تحت مُردوں کے جی اٹھنے کی تصدیق کر رہی تھی۔

ملیسا پیٹروزیلو لکھتی ہیں کہ اپنے تجربے کی گہری معنویت بیان کرنے کے بعد یہ ساتوں افراد وفات پا گئے جس پر شہنشاہ تھیوڈوسیس نے اُن کی باقیات کو ایک شاندار مقبرے میں محفوظ کرنے کا حکم دیا۔

پیٹروزیلو لکھتی ہیں کہ بعض محققین کے مطابق یہ روایت سب سے پہلے یونانی مصنف سیمیون میٹافریسٹیس نے لکھی جبکہ دیگر روایات میں لاطینی مصنف سینٹ گریگوری آف ٹورز اور سریانی مصنف جیکب آف سروج کی تحریریں شامل ہیں جن سے قبطی اور جارجیائی نسخے ممکنہ طور پر اخذ کیے گئے۔

پیٹر ڈبلیو وین ڈیر ہورسٹ اپنی کتاب ’پائیس لانگ سلیپرز ان گریک، جیوش اینڈ کرسچین اینٹیکویٹی‘ میں لکھتے ہیں کہ اس کہانی کا سب سے قدیم معلوم نسخہ شامی بشپ جیکب آف سروج (تقریباً 450-521 عیسوی) کی تحریروں میں پایا جاتا ہے۔

اُن کے مطابق ’یہ ایک قدیم یونانی ماخذ پر مبنی ہے جو اب ناپید ہو چکا ہے۔‘

ایس بیئرنگ-گولڈ کیکتاب ’کیوریس متھس آف دی مڈل ایجز‘ بتاتی ہے کہ جیکب آف سروج (جو ایڈیسہ کے ایک شاعر اور ماہر الہیات تھے) نے ’سیون سلیپرز‘ یا سات سونے والوں کے موضوع پر ایک وعظ تحریر کیا تھا، جو بعد میں ’ایکٹا سینکٹورم‘ نامی ایک مجلے میں شائع ہوا۔

مولانا مودودی اپنی تفسیر لکھتے ہیں کہ ’جیکبکی سریانی روایت ایک طرف ابتدائی دور کے مسلم مفسرین کو پہنچی جسے ابن جَریر طَبَری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے۔‘

’ایڈورڈ گبن نے اپنی کتاب ’تاریخ زوال و سقوطِ دولت روم‘ کے باب 33 میں ’سات سونے والوں‘ کے عنوان کے تحت ان ماخذ سے اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ مسلممفسرین کی روایات سے اِس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتے ہیں۔‘

برٹش میوزیم میں ایک شامی مخطوطے میں موجود چھٹی صدی عیسوی کے ایک اور نسخے میں سات کے بجائے آٹھ سونے والوں کا ذکر ملتا ہے۔

’پیغمبر اسلام کا امتحان‘: قرآن اس واقعے کو کیسے بیان کرتا ہے؟Getty Images'تفہیم القرآن' کے مطابق پیغمبر اسلام سے مشرکین کی جانب سے پوچھے گئے تین سوالات کے جواب میں سورہ الکَہف نازل ہوئی تھی

یہ واقعہ عرب معاشرے میں بھی متعارف ہوا۔ ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ’اصحابِ کہف‘ میں لکھا کہ ’مشرکین ِعرب کے وسائلِ معلومات محدود تھے لیکن نَبَطیوں کے تجارتی قافلے برابر حجاز میں آتے رہتے تھے اور خود قریش مکہ کے تجارتی قافلے بھی ہر سال شام جایا کرتے تھے۔ یقیناً نَبَطیوں میں اس واقعہ کی شہرت ہو گی اور یہ واقعہ انھی سے عربوں نے سُنا ہو گا۔‘

یہ نَبَطی شمال مغربی جزیرہ نما عرب اور جنوبی سرزمین شام میں رہتے تھے اور ساتویں صدی میں مشرکین نے انھی کے مشورے پر پیغمبرِ اسلام کا امتحان لینے کے لیے تین سوالات کیے تھے۔

ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ ’اصحابِ کہف یا غار والے کون تھے؟‘

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی لکھی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ کے مطابق پیغمبر اسلام سے مشرکین کی جانب سے پوچھے گئےتین سوالات، جن میں سے دیگر دو خضر اور ذوالقرنین کی حقیقت سے متعلق تھے، ہی کے جواب میں سورہ الکَہف نازل ہوئی۔

’تفہیم القرآن‘ کے مطابق ’یہ تینوں قصے عیسائیوں (مسیحیوں) اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں اُن کا کوئی چرچا نہ تھا۔‘

قرآن کی 18ویں سورہ الکَہف میں پیغمبر اسلام سے پوچھے جانے والے سوال کا جواب یوں دیا گیا کہ ’ہم اُن کی سرگذشت تمھیں ٹھیک ٹھیک سُناتے ہیں۔‘

’وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے اور اُن کی ہدایت میں ہم نے افزونی (اضافہ) عطا فرمائی۔ اور اُن کے دل اُس وقت مضبوط کر دیے جب وہ (توحید کی دعوت لے کر) اٹھے اور اعلان کیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اُس کے سوا کسی دوسرے معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے اور اگر ایسا کریں گے تو حق سے نہایت ہٹی ہوئی بات کریں گے۔‘

ہُدہُد کی خبر سے شیش محل تک: سورج پرست ملکہ سبا کے حضرت سلیمان کے ہاتھ ایمان لانے کا واقعہ اسلام اور دیگر مذاہب میںیاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟معاویہ بن ابو سفیان پر بننے والی سعودی سیریز پر ایران، عراق میں پابندی اور مصر میں تنقید کیوں؟’صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے

مذہبی عالم جاوید احمد غامدی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’یہ لوگ اگر وہی ہیں جو مسیحی تاریخ میں ’سات سونے والے‘ کہلائے جاتے ہیں تو یہ شہر افیسس کا قصہ ہے جو ترکی کے مغربی ساحل پر واقع زمانہ قدیم کا ایک مشہور شہر تھا۔‘

غامدی کے مطابق یہ شہر بت پرستی کا ایک بڑا مرکز تھا اور یہاں چاند دیوی کی پرستش ہوتی تھی جسے ’ڈائنا‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔

’قیصر ڈیسیس کی حکومت تھی جو 249ء سے 251ء تک سلطنت روما کا فرماں روا رہا ہے۔ مسیح علیہ السلام کے پیروکار اِسی کے لگ بھگ زمانے میں اپنی دعوت لے کر یہاں پہنچے۔ رومی حکمران خود بھی بت پرست تھا۔ وہ مذہب توحید کی اشاعت کو برداشت نہیں کر سکا۔ چنانچہ جو لوگ ایمان لائے وہ بالعموم ظلم و ستم کا نشانہ بن گئے۔ جن نوجوانوں کا یہ قصہ ہے، وہ شہر کے اعلیٰ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور غالباً 250ء میں کسی وقت ایمان لا کر اِس دعوت کے مبلغ بنے۔¬

’پورا ماحول (سماج) اُن کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور خطرہ پیدا ہو گیا کہ اُنھیں سنگسار کر دیا جائے گا۔ اِس پر وہ لوگ شہر سے باہر نکل کر ایک غار میں پناہ گیر ہو گئے۔ عربی زبان میں کہف وسیع غار کو کہتے ہیں، اُنھیں اِسی بنا پر اصحاب الکہف کہا گیا ہے۔‘

Getty Imagesابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ’اصحابِ کہف‘ میں لکھا کہ ’مشرکین ِعرب کے وسائل ِمعلومات محدود تھے لیکن نَبَطیوں کے تجارتی قافلے برابر حجاز میں آتے رہتے تھے‘

یہی تذکرہ سورہ الکہف میں یوں کیا گیا ہے: ’(وہ یہی دعوت دیتے رہے، یہاں تک کہ لوگ اُن کی جان کے درپے ہو گئے تو بشارت ہوئی کہ) جب تم اُن سے اور اُن کے معبودوں سے، جنھیں وہ خدا کے سوا پوجتے ہیں، الگ ہو گئے ہو تو جاؤ اور فلاں غار میں جا کر پناہ لو۔‘

’اُس وقت جب اُن نوجوانوں نے غار میں پناہ لی، پھر (اپنے پروردگار سے) دعا کی کہ اے ہمارے رب، ہم کو تو خاص اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے اِس معاملے میں تو ہمارے لیے رہنمائی کا سامان کر دے۔‘

یہ بتاتے ہوئے کہ ’اِس پر کئی برس کے لیے ہم نے اُس غار میں اُن کے کانوں پر تھپک دیا‘، محفوظ پناہ کے اہتمام کی بات الکہف میں ان آیات میں بیان کی گئی ہے۔

’تمھارا پروردگار اپنی رحمت کا دامن تمھارے لیے پھیلا دے گا اور تمھارے اِس معاملے میں جو کچھ تمھاری ضرورت ہے، تم کو مہیا فرمائےگا۔ تم سورج کو دیکھتے کہ جب نکلتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب کو بچا رہتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کو کترا جاتا ہے اور وہ اُس کے صحن میں پڑے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے، وہی ہدایت پانے والا ہے اور جس کو اللہ (اپنے قانون کے مطابق) گمراہی میں ڈال دے تو اُس کے لیے تم کوئی مددگار راہ بتانے والا نہ پاؤ گے۔‘

’تم اُن کو (دیکھتے تو) سمجھتے کہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم اُن کو دائیں اور بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اور اُن کا کتا دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تمھاری نظر کہیں اُن پر پڑ جاتی تو اُن سے تم الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تمھارے اندر اُن کی دہشت بیٹھ جاتی۔‘

’(ہم نے جس طرح اپنی قدرت سے اُنھیں سلایا تھا) اُسی طرح ہم نے اُن کو جگایا کہ اِس کے نتیجے میں وہ آپس میں پوچھ گچھکریں۔‘

’اُن میں سے ایک پوچھنے والے نے پوچھا: تم یہاں کتنی دیر ٹھہرے ہو گے؟ وہ بولے: ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ٹھہرے ہوں گے۔‘

’بولے: تمھارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی دیر ٹھہرے ہو۔ خیر، اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ رقم دے کر شہر بھیجو، پھر وہ اچھی طرح دیکھے کہ پاکیزہ کھانا شہر کے کس حصے میں ملتا ہے اور اُس سے تمھارے لیے کچھ کھانا لے آئے۔ اُسے چاہیے کہ وہ چپکے سے جائے اور کسی کو تمھاری خبر نہ ہونے دے۔ اِس لیے کہ اگر وہ تمھاری خبر پا جائیں گے تو تمھیں سنگسار کر دیں گے یا اپنے دین میں لوٹا لیں گے اور ایسا ہوا تو تم کبھی فلاح نہ پاؤ گے۔‘

صدیوں کی نیند اور سبقGetty Images

تفسیر میں لکھا ہے کہ ’یہ لوگ کم و بیش 196 سال سوتے رہے اور قیصر تھیوڈوسیس ثانی کی سلطنت کے 38ویں سال 446ء یا 447ء میں بیدار ہوئے۔‘

اِس عرصے میں مسیحی مبلغین کی کوششوں سے رومی شہنشاہ قسطنطین (237ء-272ء) مسیحی ہو چکا تھا جس کے نتیجے میں ساری رومی سلطنت میں مسیحی مذہب پھیل گیا تھا۔ چنانچہ یہ لوگ بیدار ہوئے تو ہر طرف مسیحیت کا غلبہ تھا۔

قران میں ہے کہ ’ہم نے اِسی طرح (اپنی قدرت سے) لوگوں کو اُن پر مطلع کر دیاتاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔‘

تفسیر میں لکھا ہے کہ ’ایسے حالات پیدا کر دیے کہ لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوئے اور تحقیق و تفتیش کے نتیجے میں کسی کو شبہ نہیں رہا کہ یہ اِس زمانے کے لوگ نہیں ہیں۔‘

مسیحی روایت میں یہ واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے کہ جس شخص کو کھانا خریدنے کے لیے شہر بھیجا گیا تھا، اُس نے جب قیصر ڈیسیس کے وقت کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دکان دار کو شبہ ہوا کہ شاید یہ کسی پرانے زمانے کا دفینہ نکال لایا ہے۔ اِس پر دونوں میں تکرار ہونے لگی اور لوگ جمع ہو گئے، حتیٰ کہ معاملہ حکام تک پہنچ گیا۔

’وہاں جب سوالات ہوئے اور اُس شخص نے یہ سُنا کہ قیصر ڈیسیس کو مرے زمانہ گزر چکا ہے تو وہ دنگ رہ گیا۔ چنانچہ کچھ دیر تک بالکل دم بخود رہا اور پھر اپنی داستان سُنا دی۔ اُسے سُن کر حکام بھی حیران ہوئے اور اُس کو لے کر اُس غار کی طرف چلے جہاں وہ اور اُس کے ساتھی چھپے رہے تھے۔‘

’لوگوں کا ایک انبوہ کثیر(ہجوم) بھی اُن کے ساتھ تھا۔ وہاں پہنچ کر یہ بات پوری طرح تحقیق ہو گئی کہ وہ واقعی قیصر ڈیسیس کے زمانے کے لوگ ہیں۔ نئے رومی حکمران قیصر تھیوڈوسیس کو اِس کی اطلاع دی گئی تو وہ ان سے ملنے پیدل چل کر آیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اِس کے بعد یہ ساتوں نوجوان غار میں جا کر لیٹے اور یکایک وفات پا گئے۔‘

سورہ الکہف میں ہے کہ ’جب اُن کے معاملے میں لوگ آپس میں بحث کر رہے تھے تو کچھ لوگوں نے کہا: اُِن کے غار پر ایک عمارت بنا دو (اور زیادہ تفتیش نہ کرو)، اُِن کا پروردگار اُِن کے حالات کو بہتر جانتا ہے۔ اِس کے برخلاف جن لوگوں کی رائے اُن کے معاملے میں غالب رہی، اُنھوں نے کہا: ہم تو اِن کے غار پر ایک مسجد بنائیں گے۔‘

Getty Imagesرقیم اُس عمارت کا نام تھا جو اصحاب کہف کی یاد میں اُن کے غار پر بنائی گئی تھی

غامدی لکھتے ہیں کہ ’عرب کے اہل کتاب اُنھیں اصحاب الرقیم بھی کہتے تھے۔ بعض اہل علم نے اِس سے اصحاب کہف کے غار کا کتبہ اور بعض نے سیسے کی وہ لوح مراد لی ہے جس پر اُن کے نام اور حالات بادشاہ کے حکم سے لکھ کر شاہی خزانے میں رکھے گئے تھے۔‘

’رقیم اُس عمارت کا نام تھا جو اصحاب کہف کی یادگار میں اُن کے غار پر بنائی گئی تھی۔‘

مگر ابوالکلام آزاد کے مطابق الرقیم وہی لفظ ہے جسے تورات میں ’راقیم‘ کہا گیا ہے، اور یہ ایک شہر کا نام تھا۔

انھوں نے لکھا کہ ’جزیرہ نمائے سینا اور خلیج عقبہ سے سیدھے شمال کی طرف بڑھیں تو پہاڑی سلسلے متوازی شروع ہو جاتے ہیں اور سطح زمین بلندی کی طرف اٹھنے لگتی ہے۔ یہ علاقہ نبطی قبائل کا علاقہ تھا اور اس کی ایک پہاڑی سطح پر راقیم نامی شہر آباد تھا۔‘

’دوسری صدی عیسوی میں جب رومیوں نے شام اور فلسطین کا الحاق کر لیا، تو یہاں کے شہروں کی طرح راقیم نے بھی ایک رومی نو آبادی کی حیثیت اختیار کر لی اور یہی زمانہ ہے جب پیڑا کے نام سے اس کے عظیم الشان مندروں اور تھیڑوں کی شہرت دور دور تک پہنچی۔

تعداد اور نام

مسیحی ذرائع میں ان نوجوانوں کی تعداد پر متضاد آرا موجود ہیں۔ کہیں 5، تو کہیں 7 اور کہیں 13 تک بھی بتائی گئی ہے۔ مغربی روایات کے مطابق اُن کے نام میکسیمیان، مالخوس، مارسیان، جان، ڈینس، سیراپیون، اور کانسٹنٹائن ہیں۔

دوسری جانب مشرقی روایات انھیں میکسیمیلیان، جیمبلخوس، مارٹن، جان، دیونیسیوس، انتونیوس، اور کانسٹنٹائن کے ناموں سے جانتی ہیں۔

لیکن طبری نے اُن کے نام یوں بتائے ہیں: مکسلمینا، محسلمینا، یملیخا، مرطونس، کسطونس، ویبورس، ویکرنوس، یطبیونس اور قالوش۔

قرآن میں اصحاب کہف کی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا بلکہ صرف اُن کی تعداد سے متعلق لوگوں کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے۔

قرآن کے الفاظ ہیں کہ ’اب یہ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا اُن کا کتا تھا اور (اِن میں سے) کچھ کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کتا تھا، اور کچھ کہیں گے کہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کتا تھا۔ کہہ دو، میرا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ اُن کو تھوڑے ہی لوگ جانتے ہیں۔‘

ہُدہُد کی خبر سے شیش محل تک: سورج پرست ملکہ سبا کے حضرت سلیمان کے ہاتھ ایمان لانے کا واقعہ اسلام اور دیگر مذاہب میں’صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہےیاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟معاویہ بن ابو سفیان پر بننے والی سعودی سیریز پر ایران، عراق میں پابندی اور مصر میں تنقید کیوں؟’بکتاشی‘ صوفی سلسلہ جو البانیہ میں ’ویٹیکن کی طرز پر نئی اسلامی ریاست‘ قائم کرنا چاہتا ہےقرطبہ کی لبنیٰ ’ایک غلام کنیز‘ جو اپنی ذہانت سے اموی خلیفہ کی قابلِ اعتماد مشیر بنیںمہاکمبھ: مقدس پانی میں نہانے والی خواتین کی ویڈیوز دو سے تین ہزار میں ٹیلیگرام پر فروخت، ’مذہبی مقامات پر بھی خواتین محفوظ نہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More