Pranay Modiسائر دیوی اپنے آخری لمحات میں
جب 88 سالہ سائر دیوی مودی کو سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوئی تو انھوں نے تین ہفتے علاج نہ کروانے کا فیصلہ کیا بلکہ اس کے بجائے انھوں نے بھوکے پیاسے رہ کر موت کو گلے لگانے کا راستہ اختیار کیا۔
ان کے نواسے پرنے مودی کے مطابق ’ان کی بائیوپسی رپورٹ 25 جون کو آئی جس میں پتہ چلا کہ کینسر پھیل رہا ہے۔ 13 جولائی 2024 کو انھوں نے عبادت کی اور سوپ پیا۔ اگلے دن انھوں نے ہمیں فون کر کے بتایا کہ وہ سنتھرا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔‘
سنتھرا جسے سلیکھیانہ بھی کہا جاتا ہے، جین مت کے کچھ پیروکاروں کی طرف سے اپنایا جانے والا وہ عمل ہے جس میں کھانا پینا ترک کر کے موت کو قبول کیا جاتا ہے۔
جین مت کے مطابق اس پر عمل کرنا لازم نہیں۔ انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق ہر سال تقریباً 200 سے 500 جین افراد اس طریقے سے مرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
کچھ لوگ اسے خودکشی قرار دے کر اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور اس پر پابندی کے لیے ایک درخواست انڈین سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
جین مذہب
جین مت کم از کم 2500 سال پرانا مذہب ہے جس کی بنیاد عدم تشدد پر ہے۔ اس مذہب میں کسی خدا کا تصور نہیں لیکن جین مانتے ہیں کہ روح خالص، مستقل، انفرادی اور ہر چیز کا علم رکھتی ہے۔
تقریباً تمام جین سبزی خور ہوتے ہیں اور ان کے مذہب میں دنیاوی عیش و آرام کو ترک کرنے اور اخلاقی اقدار پر زور دیا جاتا ہے۔
انڈیا میں جین برادری کی تعداد تقریباً پچاس لاکھ ہے۔ یہ لوگ عام طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر خوشحال سمجھے جاتے ہیں۔
امریکہ کے پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق انڈیا میں جین برادری کے تقریباً 33 فیصد بالغ افراد کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری ہے جبکہ انڈیا کی مجموعی آبادی میں یہ شرح صرف 9 فیصد ہے۔
جین مذہبی پیشواؤں (گروؤں) کو انڈین معاشرے میں عزت و احترام حاصل ہوتا ہے۔ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ایک معروف جین گرو آچاریہ شری ودیاساگر جی مہاراج کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انھیں ’ملک کے لیے ناقابل تلافی نقصان‘ قرار دیا۔
یہ عظیم گرو 77 سال کی عمر میں تین دن کے فاقے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔
Getty Images
جین مت کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ فاقے کے ذریعے زندگی ختم کرنے کے اس عمل کا موازنہ رحم کی بنیاد پر قتل (مرسی کلنگ) یا مدد یافتہ خود کشی (ایسی خودکشی جس میں مرنے کے لیے مدد کی جاتی ہے) ان دونوں سے نہیں کیا جانا چاہیے۔
یونیورسٹی آف کولوراڈو، ڈینور کے جین مت کے ماہر اسسٹنٹ پروفیسر سٹیون ایم ووز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سنتھرا جسے سلیکھیانہ مدد یافتہ خودکشی سے اس لیے مختلف ہے کہ اس میں کسی ڈاکٹر کی مدد شامل نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی ایسا زہریلا مادہ کھایا یا انجیکٹ کیا جاتا ہے جو جان لیوا ہو۔‘
پروفیسر سٹیون ایم ووز کے مطابق یہ عمل ’جسم کو چھوڑنے‘ یا ’جسم کو خود ختم ہونے دینے‘ کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس کے تاریخی شواہد چھٹی صدی میں بھی ملتے ہیں۔
Pranay Modiفاقے کے دوران بنائی گئی ویڈیوز میں سائر دیوی سفید ساڑھی میں ملبوس لیٹی ہوئی ہیں جبکہ ایک چکور کپڑا ان کے منھ کو ڈھانپے ہوئے ہےزندگی پر اظہار تشکر
اپنے اعمال، روح، جنموں کا سفر اور نجات کا عقیدہ۔۔۔ یہ سب سنتھرا کے بنیادی اصول ہیں۔
سائر دیوی جیسے کچھ جین پیروکار اس وقت سنتھراکا راستہ اختیار کرتے ہیں جب انھیں احساس ہو کہ ان کی زندگی اختتام کے قریب ہے یا جب انھیں کوئی لاعلاج بیماری تشخیص ہو جائے۔
فاقے کے دوران بنائی گئی ویڈیوز میں سائر دیوی سفید ساڑھی میں ملبوس نظر آتی ہیں جبکہ ایک چکور کپڑا ان کے منھ کو ڈھانپے ہوئے ہے۔
ان کے نواسے پرنے مودی یاد کرتے ہیں کہ وہ ’آخر تک پُرسکون اور ہوش میں تھیں اور بات چیت کر رہی تھیں۔‘
کیا روزے کا تصور اسلام سے قبل بھی موجود تھا اور اسلام میں اس کا آغاز کب ہوا؟انڈین نوجوان دنیاوی سرگرمیاں کیوں ترک کر رہے ہیں؟30 دن لگاتار روزے رکھنے کا عمل آپ کے جسم پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے اور یہ صحت کے لیے کتنا مفید ہے؟’خدا کے پسندیدہ لوگ‘: صدیوں پرانا امریکی نظریہ جس نے اسے عالمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا
مودی کے مطابق جب ان کی دادی نے فاقہ کیا تو انڈیا کے وسطی علاقے کبر دھام میں ان کا آبائی گھر کسی وفات والے گھر کے بجائے ایک جشن کا منظر پیش کر رہا تھا جس میں شرکت کے لیے بہت سے لوگ آئے تھے جن میں رشتہ دار، دوست، پڑوسی اور کئی اجنبی بھی شامل تھے جنھوں نے سائر دیوی سے دعائیں لیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں موت کا غم نہیں بلکہ زندگی پر اظہارِ تشکر تھا۔‘
اپنی زندگی کے آخری وقت میں بھی دیوی نے ہمت کرتے ہوئے 48 منٹ کی طویل جین دعا کی۔
مودی کہتے ہیں کہ ’مجھے یقین ہے کہ دوائیں چھوڑنے کے بعد انھیں بہت تکلیف ہوئی ہو گی لیکن انھوں نے کبھی شکایت نہیں کی۔ ان کا چہرہ روشن رہا اور وہ پُرسکون دکھائی دے رہی تھیں۔‘
ان کے بچے، نواسے اور پڑنواسے انھیں زندگی کی آخری سانسیں لیتے دیکھ رہے تھے۔
’یہ منظر میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ ایک بہتر جگہ جا رہی ہیں۔ ہم نے ان کا فیصلہ قبول کیا۔‘
آخری کشمکشGetty Imagesسنتھرا سے مرنے والے کی لاش کو بیٹھی ہوئی حالت میں جلایا جاتا ہے
پروفیسر مکی چیز نے اسی موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا اور انھوں نے درجنوں کیسز دیکھے ہیں۔ وسکونسن میڈیسن یونیورسٹی میں ماہر جین مت اسسٹنٹ پروفیسر چیز کا کہنا ہے کہ ایک شخص نے، جس کا سرطان آخری مراحل میں تھا، ایسا ہی فیصلہ کیا لیکن وہ بہت تکلیف میں تھا۔ اگرچہ اس کے خاندان والے اس کے فیصلے پر فخر کر رہے تھے اور اس کی حمایت کر رہے تھے، انھیں اس حالت میں دیکھ کر وہ ایک کشمکش میں مبتلا تھے۔
ایک اور ایسے ہی کیس میں چیز نے ایک خاتون کو دیکھا۔ ان خاتون کا سرطان بھی آخری مراحل میں تھا لیکن جب انھوں نے کھانا پینا ترک کیا تو وہ پرسکون ہو گئیں۔
چیز کے مطابق ان خاتون کی بہو نے مجھے بتایا کہ انھیں محسوس ہوا کہ حوصلہ افزائی ان کی ذمہ داری تھی تاکہ ان خاتون کا ارادہ پختہ رہے لہذا وہ انھیں بھجن گا کر سنایا کرتے تھے۔
پروفیسر سٹیون کا ماننا ہے کہ کسی نہ کسی قسم کی کشمکش رہتی ہے۔
’کسی کو فاقوں سے مرتے دیکھنا خوشگوار نہیں ہوتا اور آخری لمحات تو بہت دل خراش ہو سکتے ہیں۔ موت کے قریب شخص کھانا مانگ سکتا ہے، پینے کو پانی مانگ سکتا ہے کیونکہ جسم خود کو بچانے کے لیے لڑ رہا ہوتا ہے، ہو سکتا ہے کہ عزیز و اقارب ایسا کرنے سے گریز کریں لیکن عام طور پر زندگی کے آخری لمحات میں یہ ہوتا ہے۔‘
بے لباس راہبوں کی سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر موجود ہیں جن میں ان کی پسلیاں ابھری ہوئی اور گال پچکے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں جو فاقہ کشی کی علامت ہے۔
پروفیسر سٹیون کا ماننا ہے کہ زیادہ تر خواتین یہ راستہ اپناتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو زیادہ پرہیزگار سمجھا جاتا ہے اور اکثر خواتین مردوں سے زیادہ زندگی پاتی ہیں۔
ان کے مطابق معاشرہ اس روایت کو ایک شاندار روحانی کامیابی کے طور پر دیکھتا ہے۔
مذہبی پہلو Kamal Jainمہاراج جی کا ماننا ہے کہ اس طرز زندگی نے انھیں روحانی طور پر بہت فائدہ پہنچایا
شری پرکاش چند مہاراج جی (جو 1929 میں پیدا ہوئے) سینیئر جین مہاتماؤں میں سے ایک ہیں یعنی وہ سفید لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ انھوں نے 1945 میں مذہبی زندگی کو منتخب کیا۔
ان کے والد اور چھوٹے بھائی بھی جین مہاتما تھے اور سنتھرا (موت کو گلے لگانے کا عمل) اختیار کر چکے تھے۔
’میں اپنے والد اور بھائی کو دیکھ کر پریشان نہیں ہوا۔ کوئی جذباتی تعلق مجھ پر غالب نہیں آیا۔ مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میں یتیم ہو رہا ہوں یا میری زندگی میں کوئی کمی آ جائے گی۔‘
95 سالہ مہاراج جیشمالی انڈیا کے گھونا شہر میں ایک آشرم میں رہتے ہیں۔ وہ فون یا لیپ ٹاپ استعمال نہیں کرتے اور انھوں نے بی بی سی سے اپنے شاگرد آشیش جین کے ذریعے بات کی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے مذہبی فلسفے میں خوبصورت موت کی شکل میں زندگی کا بہترین اختتام ہی اگلی زندگی کی مثالی ابتدا ہے۔
مہاراج جی کا کہنا ہے کہ سنتھرا کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ اچانک یا بے ساختہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے خاندان کی اجازت اور روحانی اساتذہ جیسے مہاراج جی سے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
سنتھرا کا پہلا مرحلہ اپنے تمام گناہوں اور برے اعمال کا جائزہ لینا اور انھیں قبول کرنا ہے۔ اس کے بعد معافی طلب کرنا ضروری ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’فاقہ کرکے اور موت کو گلے لگا کر انسان جسم اور روح کو صاف کرتا ہے اور اپنے برے اعمال کا بوجھ کم کرتا ہے تاکہ اگلے جنم میں اسے بہتر روحانی زندگی مل سکے۔‘
’آخر میں اس عمل کا اختتام روح کو جنموں اور موت کے چکر سے آزادی دلانے پر ہوتا ہے۔‘
قانونی مشکلات
سنہ 2015 میں راجھستان ریاست کی ہائی کورٹ نے اس رسم پر پابندی لگا دی تھی لیکن ملک کی سپریم کورٹ نے بعد میں اس پابندی کو ختم کر دیا تھا۔
ڈی آر مہتا ایک سابق حکومتی اہلکار ہیں جو اس روایت کو زندہ رکھنے کے خواہش مند لوگوں میں سے ایک ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جین مذہب میں اسے موت کی بہترین قسم سمجھا جاتا ہے۔ یہ پرامن، عزت دارانہ موت ہوتی ہے جس کا بنیادی مقصد ابدی سکون اور روحانی طور پر پاک ہو جانا ہے۔
مہتا انڈیا کے مرکزی بینک کے سابق نائب صدر اور سٹاک مارکیٹ کے ریگولیٹری ادارے کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔
تاہم اس رسم کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ اس مخالفت میں اس وقت اضافہ ہوا تھا جب حیدرآباد میں ایک تیرہ سالہ لڑکی کی موت ہوئی جس نے اڑسٹھ دن تک فاقہ کشی کی تاہم اس رسم کو اپنانے والے زیادہ تر لوگ ادھیڑ عمر رہے ہیں۔
Getty Imagesکرناٹک کے اس قدیم مندر میں سنتھرا کے چند قدیم ترین کتبے محفوظ ہیں
مہاراج جی نے 2016 میں سنلیخنا کا عمل شروع کیا تھا جو اس رسم سے پہلے کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں انھوں نے دس اشیا تک خوراک کو محدود کر لیا تھا اور اب وہ صرف پانی اور ادویات استعمال کرتے ہیں تاہم وہ اب تک ایک فعال زندگی گزار رہے ہیں۔
ان کے پیروکار اشیش جین نے بتایا کہ وہ کمزور یا بیمار نہیں لگتے۔ وہ ہمیشہ خوش مزاج ہوتے ہیں لیکن وہ زیادہ بات چیت نہیں کرتے۔
مہاراج جی کا ماننا ہے کہ اس طرز زندگی نے انھیں روحانی طور پر بہت فائدہ پہنچایا۔ وہ کہتے ہیں کہ میری روح اور میرا ذہن بہت اچھا محسوس کرتا ہے۔
کیا روزے کا تصور اسلام سے قبل بھی موجود تھا اور اسلام میں اس کا آغاز کب ہوا؟30 دن لگاتار روزے رکھنے کا عمل آپ کے جسم پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے اور یہ صحت کے لیے کتنا مفید ہے؟جین مذہب سے تعلق رکھنے والی انڈین کاروباری شخصیت جنھوں نے 200 کروڑ کی دولت عطیہ کر کے رہبانیت اختیار کی’خدا کے پسندیدہ لوگ‘: صدیوں پرانا امریکی نظریہ جس نے اسے عالمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیاہیروں کے تاجر کی بیٹی جس نے اربوں کے کاروبار کی ملکیت ٹھکرا کر راہبہ بننے کا فیصلہ کیا