یوٹیوب پر ویوز اور آمدن سے متعلق وہ راز جو ایک کمپیوٹر نے اُگل دیے

بی بی سی اردو  |  Feb 18, 2025

معروف ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب 20 سال کا ہو گیا ہے۔ اس موقع پر اس پلیٹ فارم کا ایک جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جس میں اس کے اعداد و شمار کے غیر معمولی طریقہ کار سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے جسے گوگل پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے۔

بظاہر یوٹیوب میں رازداری کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ یہ عوام کے لیے کھلا نظر آتا ہے جہاں آپ اب سے لے کر مرتے دم تک ویڈیوز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ دیکھ سکتے ہیں۔

اس پلیٹ فارم کے بارے میں پہاڑ جتنی تحقیق کی گئی ہیں جن میں کموڈیفائیڈ اکانومی سے لے کر اس کے الگورتھم کے انقلابی اثرات تک ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن جب آپ اس کے متعلق سادہ سادہ سے سوالات پوچھنا شروع کرتے ہیں تو اس کی واضح تصویر دھندلی ہونے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر 'ہم سب کتنا یوٹیوب دیکھتے ہیں؟'

یوٹیوب اور اس کی مالک کمپنی گوگل اس کے علاوہ بہت سی دیگر تفصیلات کے بارے میں خاموش ہے۔ فروری میں کمپنی نے یہ انکشاف کیا کہ جو لوگ اپنے ٹی وی پر یوٹیوب دیکھتے ہیں وہ اجتماعی طور پر دن میں ایک بلین گھنٹے یوٹیوب دیکھتے ہیں۔

اس انکشاف کے باوجود پلیٹ فارم پر آنے والی کل تعداد ایک معمہ ہے۔ اندازوں کے مطابق یوٹیوب کے ماہانہ ڈھائی ارب صارفین ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارض پر موجود تقریباً ہر تین میں سے ایک شخص کچھ نہ کچھ یوٹیوب پر دیکھتا ہے جبکہ اس پلیٹفارم کے اوسط موبائل ایپ صارف مہینے میں 29 گھنٹے کچھ نہ کچھ دیکھتے ہیں۔ آئیے ہم اس کا کچھ حساب لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر ہم چند مفروضے قائم کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یوٹیوب کو کمپیوٹر، ایپ اور ٹیلی ویژن پر ڈھائی ارب لوگ دیکھتے ہیں تو پھر ہم ان 2.5 بلین کو 29 گھنٹے سے ضرب دے سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ آتا ہے کہ کرۂ ارض پر انسانیت ہر ماہ یوٹیوب پر 83 لاکھ سالوں کی ویڈیوز کا استعمال کرتی ہے۔ اور ہر 12 مہینوں میں اس میں تقریباً دس کروڑ سال کا اضافہ ہوتا ہے، جو کہ انسانی تاریخ کی مجموعی تعداد سے سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔

BBCیوٹیوب کا فروغ سال در سالسادہ سوالات

چند اور سوالات بھی ہیں جیسے یوٹیوب پر کتنی ویڈیوز ہیں؟ وہ کس بارے میں ہیں؟ یوٹیوبرز کون سی زبانیں بولتے ہیں؟ 14 فروری سنہ 2025 تک اس پلیٹ فارم نے اپنے 20 سال پورے کر لیے۔ اس پر بہت ساری ویڈیوز ہیں۔ ابھی تک ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ان کی تعداد واقعی کتنی ہے۔ گوگل کو جوابات معلوم ہیں۔ لیکن وہ آپ کو نہیں بتائے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تمام عملی مقاصد کے لیے اب تک بنائے گئے سب سے طاقتور مواصلاتی نظام میں سے ایک یوٹیوب ایک ایسا وسیلہ ہے جو دنیا کی ایک تہائی آبادی کو معلومات اور افکار و خیالات فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ اندھیرے میں کام کر رہا ہے۔

امریکہ میں ایمہرسٹ کی یونیورسٹی آف میساچوسٹس میں انیشی ایٹو فار ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کے ڈائریکٹر ایتھن زکرمین کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ویڈیوز کے بے ترتیب نمونے لینے کا کوئی آسان طریقہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آپ اپنے ویڈیوز کو اپنے طور پر منتخب کر سکتے ہیں یا پھر اس کے الگورتھم کی سفارشات کے ساتھ جا سکتے ہیں، لیکن حقیقی مطالعے کے لائق ایک غیر جانبدارانہ آپشن ملنا مشکل ہے۔ تاہم کچھ سال پہلے زکرمین اور ان کے محققین کی ٹیم نے ایک حل نکالا ہے۔ انھوں نے ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام ڈیزائن کیا جو بیک وقت اربوں یو آر ایل کو آزماتے ہوئے یوٹیوب ویڈیوز کو رینڈم طور پر تلاش کرتا ہے۔

زکرمین کا کہنا ہے کہ آپ اس ٹول کو بوٹ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ شاید اوور سیلنگ ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے زیادہ تکنیکی لفظ 'سکریپر' ہوگا۔ یعنی اس کو کھرچنے سے ہمیں پہلی بار یہ پتہ چل رہا ہے کہ یوٹیوب پر اصل میں کیا ہو رہا ہے۔

یوٹیوب نے اپنے 20 سالوں کے سفر میں پوری نسل کی حساسیت کو تشکیل دیا ہے اور عالمی ثقافت کی نئی تعریف کی ہے۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ یوٹیوب اب تک امریکہ میں سب سے زیادہ مقبول سوشل میڈیا سائٹ ہے جس کے دیکھنے والوں میں 83 فیصد بالغ اور 93 فیصد نوجوان ہیں۔ زیادہ تر اندازوں کے مطابق یہ زمین پر دوسری سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹ ہے۔ اس کے اوپر صرف اس کی مالک کمپنی گوگل ڈاٹ کام ہے۔

اب جبکہ یہ پلیٹ فارم اپنے تیسرے عشرے میں داخل ہو رہا ہے اس کے باوجود یوٹیوب کے متعلق بنیادی حقائق اب بھی تقریبا سربستہ راز ہیں۔

گوگل کے ترجمان نے پلیٹ فارم کے تجویز کردہ الگورتھم کے بارے میں ایک بلاگ پوسٹ کا اشتراک کیا ہے لیکن اس پوسٹ میں بیان کردہ اعدادوشمار اور دیگر مسائل پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح ابھی کے لیے یوٹیوب کا سربستہ راز راز ہی ہے۔

غیر معمولی طریقے

نیویارک یونیورسٹی میں سٹرن سینٹر فار بزنس اینڈ ہیومن رائٹس کے ڈپٹی ڈائریکٹر پال بیرٹ کہتے ہیں کہ 'سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے اندر کیا ہو رہا ہے اسے جان پانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ ان کو چلانے والی کمپنیاں اگرچہ عوامی طور پر کچھ انکشافات کرتی ہیں لیکن یہ انکشافات ٹکڑے ٹکڑے میں ہوتے ہیں اور اکثر کسی حد تک گمراہ کن ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں گوگل کی یہ جبلت ہے اور یہ ان کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ یہ بتائيں کہ یوٹیوب کتنا بڑا ہے، صارفین کی تعداد کتنی ہے، مواد کی مقدار کتنی غیرمعمولی ہے۔ گوگل حقیقتا کتنا بااثر ہے وہ یہ دکھانا نہیں چاہتا۔'

لیکن زکرمین اور ان کے ساتھیوں نے پردے کے پیچھے جھانکنے کا راستہ تلاش کیا ہے۔ یوٹیوب یو آر ایل کا ایک معیاری فارمیٹ ہے۔ چند مستثنیات کے ساتھ اس کا پتہ عام طور پر youtube.com/watch?v= سے شروع ہوتا ہے اور 11 حروف کی منفرد تار کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، گنگنم سٹائل کا شناختی پتا 9bZkp7q19f0 ہے۔

لہذا محققین نے ایک پروگرام لکھا جو بنیادی طور پر 11 بے ترتیب حروف تیار کرتا ہے اور چیک کرتا ہے کہ آیا کوئی متعلقہ ویڈیو موجود ہے۔ جب پتوں کے ڈھیڑ میں سے تلاش کرنے والے کو کوئی ویڈیو مل جاتا ہے تو وہ اسے ڈاؤن لوڈ کر لیتے ہیں۔ زکرمین کا کہنا ہے کہ آپ اس کے بارے میں ایک پریشان کن نوجوان کی طرح سوچ سکتے ہیں جو اپنے والدین کی شراب کی الماریوں سے مدہوش ہونے کے بعد مذاقا کوئی بھی نمبر ڈائل کرتا ہے اور نمبر مل جانے پر ہوا میں مکے لہراتا ہے۔

زکرمین کہتے ہیں کہ 'اگر میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ نیویارک کے 212 ایریا کوڈ میں کتنے درست فون نمبرز ہیں تو میں صرف 212 کے ساتھ سات رینڈم نمبر ڈائل کر کے دیکھ سکتا ہوں کہ کوئی جواب دیتا ہے یا نہیں۔ اگر میں نے یہ کام زیادہ کیا تو شاید میں بہت زیادہ لعنت و ملامت کا شکار ہو جاؤں، لیکن آخر کار میں اس کا پتہ لگانے کے لیے کافی ڈیٹا اکٹھا کر چکا ہوں گا۔ ہم نے یوٹیوب کے ساتھ بھی یہی کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ یوٹیوب کے پاس 18.6 کوئنٹلین ممکنہ نمبرز ہیں، اس لیے آپ کو کچھ ارب نمبر ڈائل کرنے ہوں گے کہ کوئی اسے اٹھا لے۔'

(امریکہ میں ایک کوئنٹلین میں ایک کے بعد 18 صفر آتے ہیں جسے ہندسے کے شمار میں مہا سنکھ کہہ سکتے ہیں لیکن برطانیہ میں اس میں ایک کے بعد 30 صفر آتے ہیں)

لہذا زکرمین کی لیب نے اندھیرے میں نمبر ڈائل کرنے والے سکریپرز کو یوٹیوب کو کھنگالنے دیا جب تک کہ وہ کافی بڑا ڈیٹا سیٹ اکٹھا نہ کر دے۔ اپنے مطالعے کے لیے انھوں نے جو پہلے ملنے والے 10,016 ویڈیوز جمع کیے وہ ان کے سکریپرز کو 18 ٹریلین سے زیادہ ممکنہ یو آر ایل کو آزمانے کے بعد ملے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ملنے والی ہر حقیقی ویڈیو کے لیے انھوں نے تقریباً 1.87 بلین غلط اندازے لگائے۔ اگر آپ یہ کام خود کرتے ہیں اور ہر بار آپ صرف تین سیکنڈ صرف کرتے ہیں تو آپ کو ایک ویڈیو تلاش کرنے میں اوسطاً 178 سال لگیں گے۔

جب محققین نے اپنے نتائج کا تجزیہ کیا تو ان کے نتائج نے اس بات کو چیلنج کیا کہ یوٹیوب اصل میں کیا ہے۔

BBCویوز کے اعدادوشمارخفیہ اعدادوشمار

پہلا سوال سادہ سا تھا کہ لوگوں نے یوٹیوب پر کتنی ویڈیوز اپ لوڈ کی ہیں؟ گوگل یوٹیوب کے اعداد و شمار کو ابتدائی دنوں میں جاری کیا کرتا تھا جب یوٹیوب کو کچھ ثابت کرنا تھا۔ جب گوگل نے 2006 میں پہلی بار یہ پلیٹ فارم حاصل کیا تو اس پر ہر روز تقریباً 65,000 ویڈیوز اپ لوڈ ہوتے تھے۔ ابھی حال ہی میں کمپنی کا کہنا ہے کہ فی منٹ 500 گھنٹے سے زیادہ کے ویڈیوز اپ لوڈ ہوتے ہیں لیکن اس میں ویڈیوز کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔

زکرمین اور ان کے ساتھیوں نے ان ویڈیوز کی تعداد کا موازنہ کیا جو انھوں نے اندازہ لگا کر حاصل کیے تھے اور وہ حساب لگا کر اس ممکنہ نتیجے پر پہنچے کہ سنہ 2022 میں یوٹیوب پر نو بلین سے زیادہ ویڈیوز موجود تھے۔ 2024 کے وسط تک یہ تعداد بڑھ کر 14.8 بلین ویڈیوز تک پہنچ گئی تھیاور صرف دو سال میں اس میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

بہت سے لوگوں کے لیے یوٹیوب پیسے اور شہرت کے لیے کوشاں انفلوئنسرز کے چہروں کو ذہن میں لاتا ہے یا پھر مسٹر بیسٹ یا جو روگن جیسے پیشہ ور مواد کے تخلیق کاروں کو ذہن میں لاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد محققین نے ویڈیوز کا ایک ذیلی سیٹ لیا اور جائزہ لینے والوں کو ہر ایک کو دیکھنے کے لیے کہا کہ انھوں نے اس میں کیا دیکھا تو انھوں نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر ویڈیوز پیشہ ور افراد کے کام نہیں تھے۔

انھوں نے جن ویڈیوز کا تجزیہ کیا ان میں سے صرف 0.21 فیصد میں کسی قسم کا مونیٹائیزیشن یعنی دیکھنے پر پیسے دیے جانے والے تھے یعنی ان میں سپانسرشپ یا ویڈیو میں ہی کوئی اشتہار تھا۔ ان میں سے چار فیصد سے بھی کم ویڈیوز میں کال ٹو ایکشن یعنی اس لنک کو لائک کریں، اس پر تبصرہ کریں یا اسے سبسکرائب کریں کی اپیل تھی۔

کسی قسم کے سیٹ یا بیک گراؤنڈ ڈیزائن والے ویڈیوز 14حصہ تھے جبکہ 38 فیصد ویڈیوز ایسے تھے جن میں کچھ ایڈیٹنگ کی گئی تھی۔ آدھے سے زیادہ ویڈیوز میں کیمرہ ورک 'نمایاں طور پر ہلا ہوا' تھا۔ صرف 18فیصد ویڈیوز میں ہمیں آواز کا اعلی معیار ملا جبکہ تقریباً 85 فیصد ویڈیوز میں آوازیں نمایاں طور پر مختلف تھیں۔ 40 فیصد سے زیادہ میں صرف موسیقی تھی، اور کوئی بات نہیں تھی۔ جن ویڈیوز کا جائزہ لیا گیا ان میں تقریباً 16فیصد ویڈیوز میں بنیادی طور پر ساکن تصاویر تھیں۔

سرفہرست یوٹیوبرز لاکھوں کی تعداد میں ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن محققین کا اندازہ ہے کہ یوٹیوب ویڈیوز کے لیے ویوز کی تعداد اوسطا 41 ہے جبکہ چار فیصد ایسے ویڈیوز ہیں جنھیں ایک بار بھی نہیں دیکھا گیا ہے۔ تقریباً 74 فیصد ویڈیوز پر کوئی تبصرہ نہیں ہوتا۔ تقریباً 89 فیصد میں کوئی لائکس نہیں ہے۔ عام یوٹیوب ویڈیوز صرف کم توجہ حاصل نہیں کر رہے ہیںبلکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت مختصر بھی ہیں۔ انھوں نے اندازہ لگایا کہ درمیانی دورانیے کی یوٹیوب ویڈیوز صرف 64 سیکنڈ لمبی ہے، اور ایک تہائی سے زیادہ ویڈیوز 33 سیکنڈ سے کم لمبی ہیں۔

BBCیوٹیوب پر زبانوں کا گوشوارہپریشان کن سوالات

یوٹیوب نے ایک بار خود کو باقاعدہ لوگوں کے لیے ایک ٹول کے طور پر فروخت کیا۔ کمپنی کا ابتدائی نعرہ تھا 'خود کو نشر کریں'۔ لیکن آج لوگوں کے لیے یوٹیوب کی تجویز یہ ہے کہ وہ پیشہ ور تخلیق کاروں کے کام کو دیکھیں۔

سنہ 2025 کے آغاز میں اپنے سالانہ خط میں یوٹیوب کے چیف ایگزیکٹیو نیل موہن نے کہا کہ کمپنی کا مشن اب بھی 'ہر ایک کو آواز فراہم کرنا' ہے، لیکن زیادہ تر پیغام میں اس بات پر زور تھا کہ 'یوٹیوبرز ہالی وڈ کے سٹارٹ اپس کیسے بن رہے ہیں' اور یہ کہ 'یو ٹیوب نیا ٹیلی ویژن ہے'۔

زکرمین کی لیب کے سینیئر محقق ریان میکگریڈی کا کہنا ہے کہ اس بیانیہ تصویر کا ایک اہم حصہ غائب ہے۔ انھوں نے یوٹیوب کی سکریپنگ کے پروجیکٹ میں حصہ لیا تھا۔ یوٹیوب ایک مفت سروس ہے جسا کہ اس کے بانی نے اسے بنایا تھا اور اس حوالے سے یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ گوگل کو اس پلیٹ فارم کو اس طرح چلاتے رہنا چاہیے۔ میکگریڈی کا کہنا ہے کہ جب آپ جائزہ لیتے ہیں کہ لوگ یوٹیوب کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں تو یہ ٹی وی کی طرح کم اور انفراسٹرکچر کی طرح زیادہ لگتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'ہم میں سے اکثر یوٹیوب کو اس پلیٹفارم کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں کروڑ پتی سکویڈ گیم طرز کے مقابلے میں انعامات دیتے ہیں۔ لیکن جب آپ یوٹیوب اور ہمارے معاشرے میں اس کے مقام کے بارے میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اسے استعمال کرنے کے طریقوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ صرف اس کے استعمال کے۔'

یوٹیوب انٹرنیٹ کے ڈی فیکٹو ریپوزٹریز میں سے ایک ہے جہاں ہم میں سے بہت سے لوگ سب سے پہلے اپنی ویڈیوز کو آن لائن پوسٹ کرنے یا ذخیرہ کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں مقامی اتھارٹی کے اجلاسوں کو نشر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس پر عوامی احتساب کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرنا ہے جو اس کے وجود سے پہلے ممکن نہیں تھا۔ میکگریڈی کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک 'پلیٹ فارم' نہیں ہے، یہ بنیادی ڈھانچے کا ایک اہم حصہ ہے اور اسی طرح اسے منظم کیا جانا چاہیے۔

Getty Imagesموبائل پر یوٹیوب

انھوں نے کہا کہ 'ان کمپنیوں کے لیے جو ہمارے عوامی دائرے میں بہت زیادہ دخل رکھتی ہیں ان سے شفافیت کے بارے میں ہمیں کم سے کم کچھ توقعات تو رکھنی چاہییں۔'

گوگل پہلے سے کہیں زیادہ ریگولیٹری دباؤ سے نمٹ رہا ہے۔ کمپنی کو دنیا بھر میں متعدد مقدمات کا سامنا ہے جس میں اس پر متعدد صنعتوں میں غیر قانونی اجارہ داری چلانے کا الزام ہے۔ گوگل ان مقدمات میں سے کئی ہار چکا ہے، اور فی الحال متعدد دیگر عدم اعتماد کے مقدمات لڑ رہا ہے۔

نیویارک یونیورسٹی کے بیریٹ کے مطابق یوٹیوب اس جانچ سے بچ گیا ہے جس نے اس کے سب سے بڑے سوشل میڈیا حریفوں کو چیلنج کیا ہے۔ مارک زکربرگ اور ایلون مسک اس بارے میں اکثر بہ آوازِ بلند اعلان کرتے ہیں کہ وہ کس طرح کاروبار کرتے ہیں اور ان کے پلیٹ فارمز پر کیا ہو رہا ہے۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ 'اس کے برعکس گوگل زیادہ خاموش رہنے کی حکمت عملی کا انتخاب کرکے بڑی حد تک کراس کی زد میں آنے سے باہر رہا ہے، میں کہوں گا کہ اس حکمت عملی نے بہت حد تک ان کے حق میں کام کیا ہے۔'

بیریٹ کا کہنا ہے کہ 'جب آپ سوشل میڈیا کا موازنہ فنانس، زراعت یا یہاں تک کہ براڈکاسٹنگ جیسے دوسرے شعبوں سے کرتے ہیں تو آپ اسے خلاف قاعدہ پاتے ہیںکیونکہ ان کی کمپنیوں کو اپنی وضاحت کرنے کی بہت کم ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کمپنیاں نہ صرف ابلاغ عامہ میں بلکہ سیاسی اور شہری زندگی کے تمام معاملات میں بنیادی کھلاڑی ہیں۔'

بیریٹ کا کہنا ہے کہ سمجھنے کے لیے سب سے اہم چیز یوٹیوب کے الگورتھم کے اندرونی کام ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو پوری دنیا میں معلومات کی تقسیم پر زبردست طاقت رکھتا ہے۔ لیکن پلیٹ فارم پر کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں سادہ تفصیلات بھی اہم ہیں۔

وہ کہتے ہیں: 'ان تمام حقائق کو جاننا بہت قیمتی ہو گا جو اس وقت بہت چھپے ہوئے ہیں اور دستیاب نہیں ہیں۔ یہ صرف آپ کو اتنا ہی بتاتا ہے جتنا چاہتا ہے، لیکن آپ کو کہیں نہ کہیں سے شروع کرنا ہوگا۔ ہمیں جتنی زیادہ بنیادی معلومات ہوگی معاشرے میں سوشل میڈیا کے کردار کے بارے میں عوامی بحث اتنی ہی صحت مند ہوگی۔'

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More